خان صاحب عام قیدیوں والے حقوق لیں گے ؟؟

خان صاحب عام قیدیوں والے حقوق لیں گے ؟؟
مظفر اعجاز
عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے ایک بار پھر بقول خان صاحب پٹواریوں سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے اور اشارتا کہا ہے کہ پیچھے نہ بیٹھیں، سامنے آکر بات کریں۔ علیمہ خان نے دعویٰ کیا کہ بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عام قیدی کو جو حقوق حاصل ہیں مجھے وہ بھی نہیں دئیے جا رہے، بچوں سے 8ماہ میں ایک مرتبہ بات کرائی گئی اور بہنوں سے ملاقات نہیں کروائی جا رہی، یہ کون سا قانون ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود بہنوں سے ملاقات نہ کرائی جائے۔ واقعی یہ افسوسناک بات ہے کہ کسی قیدی کی اپنے بچوں سے ملاقات نہ کرائی جائے اور اسے اپنی بہن سے بھی نہ ملنے دیا جائے ، نہ جانے کیوں نہ چاہتے ہوئے بھی عمران خان صاحب کے شکوے پر مختلف قیدیوں اور ان کے حالات کا موازنہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، خان صاحب ایک وی آئی پی قید میں ہیں، اور ملک بھر میں جن عام قیدیوں کا انہوں نے تذکرہ کیا ہے وہ اس سے بہت ہی اچھے حال میں رہتے ہیں، ممکن ہے کہ ان کی ملاقات بہن سے کم ہی ہو سکی ہو اور آٹھ ماہ میں بچوں سے ایک مرتبہ بات ہوئی ہو ، ویسے کیا اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں وہ اپنے بچوں سے پانچ مرتبہ بھی ملے تھی ؟ اور کیا خان صاحب پاکستان کے ان تیرہ ہزار لاپتہ افراد کے معاملات سے واقف ہیں جن کے پیاروں کو اب تک ملنے کا موقع نہیں ملا۔ بلکہ پتہ ہی نہیں کہ وہ کہاں ہیں، اور کیا وہ عافیہ صدیقی کی قید سے واقف ہیں جس کو اس کی بہن سے بیس سال میں ایک ملاقات کا موقع ملا، اور اپنے بچوں سے اس کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ماں اور بھائی سے ہوئی۔ مزید ہر آسائش قید کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ ادھر آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ فیلڈ مارشل لگا، ادھر خان صاحب نے جیل ہی سے اعلان کرتے ہوئے خود کا پارٹی کا پیٹرن انچیف مقرر کرلیا۔
علیمہ خان کے شکوے سے تو لگتا ہے کہ وہ اور ان کے بھائی پاکستان میں عام قیدیوں کے حالات سے بھی واقف نہیں ہیں، یہ درست ہے کہ عام قیدیوں کو جو حقوق دئیے جاتے ہیں وہ کہیں کسی کتاب میں ضرور لکھے ہوتے ہیں ، لیکن کیا خان صاحب کے دور میں بھی پاکستان بھر کے عام قیدیوں کو وہ سہولتیں حاصل تھیں جو آج عمران خان صاحب کو حاصل ہیں۔ یقینا ایسا نہیں تھا اور آج کل بھی ایسا نہیں ہے، جس قسم کی سہولتیں عمران خان صاحب کو حاصل ہیں وہ آج کے عام قیدیوں کو ہرگز حاصل نہیں، اسی طرح خان صاحب کے مخالفین بھی جب قید کاٹ رہے تھے وہ بھی یہی شکوے کرتے تھے کہ ہمیں تو عام قیدیوں جیسے حقوق بھی نہیں مل رہے، جب یہ سیاسی لوگ وی آئی پی قید میں ہوتے ہیں تو اسی طرح چیخیں نکلتی تھیں، اور یہ مشہور جملہ کہا جاتا تھا کہ اتنا ظلم کرو جتنا سہہ سکو، جب ان کی باری اقتدار کی ہوتی ہے تو وہ اپنے مخالف کو اس سے زیادہ ظلم کا نشانہ بناتے ہیں جتنا بقول ان کے ان پر ظلم ہوا ، حالانکہ یہ ظلم نہیں ہوتا، بس پرتعیش زندگی کے معمولات میں رخنہ ہوتا ہے اور حکمران طبقے کے لوگوں کو یہ ظلم محسوس ہوتا ہے، اچھا اگر خان صاحب کی بات کو بالکل درست مان لیا جائے تو ان کو یہ پیشکش کی جاسکتی ہے کہ عام قیدیوں جتنے حقوق لے لیں، کم از کم موجودہ کیفیت سے تو بہتر ہونگے، لیکن وہ اسے ہرگز قبول نہیں کریں گے کیونکہ انہیں اندازہ تو ہوگا کہ عام قیدی کا کیا حشر ہوتا ہے جیل میں۔
علیمہ خان نے ایک بات دہرائی ہے بلکہ اس کی تو تکرار ہوتی رہتی ہے، اور وہ ہے احتجاجی تحریک، علیمہ خان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے احتجاجی تحریک کی تیاری کرنے کی ہدایت کر دی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اُن کی سب پر نظر ہے، تحریک انصاف ایک نظریے کا نام ہے، وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے والوں کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں۔
یہ اعلان بانی صاحب پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور اب پھر کر دیا ہے۔ یہ بات بہرحال توجہ اور حل طلب ہے کہ اگر بہن بھائی کی ملاقات نہیں ہورہی ہے تو وہ بھائی کی جانب سے یہ اعلانات، مذاکرات کی پیشکش وغیرہ کس بنیاد پر کر رہی تھیں، یہ مزید حیرت انگیز ہے کہ دو دن قبل ان کی بہن نے بتایا کہ پارٹی کی جانب سے پورے ملک میں احتجاجی تحریک چلائی جائے گی اور دو دن بعد خان صاحب نے تحریک اور مذاکرات دونوں کا اعلان کر دیا، البتہ جو شرط رکھی ہے کہ پارٹی میں وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے والوں کی جگہ نہیں، بڑی عجیب شرط ہے، ان کی تو پوری پارٹی میں دودو تین تین طرف کھیلنے والے بھرے ہوئے ہیں اور اب بھی بہت سے ترجمان بدلنے کے باوجود کسی ترجمان کو پارٹی کا حتمی ترجمان نہیں کہا جاسکتا ۔
فیصلہ کن تحریک کا اعلان کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی نے یہ پیغام دیا ہے کہ کسی کو اسلام آباد نہیں بلائوں گا کیوں کہ یہاں اسنائپرز بٹھائے جاتے ہیں۔ پتا نہیں فیصلہ کن تحریک اسلام آباد میں نہیں تو کیا ملتان میں چلے گی؟، واضح رہے کہ علیمہ خان نے یہ ساری باتیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل جاتے ہوئے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہی تھیں، علیمہ خان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے بانی بات چیت کے لیے تیار ہیں، کچھ لو اور کچھ دو کے لیے بھی تیار ہیں، ہمارے بھائی نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ بتائیں بانی پی ٹی آئی کیا چیز چھوڑ دیں کہ آپ انہیں رہا کریں؟ یعنی اب سب سے بڑی تبدیلی رہائی ہے !! کہتی ہیں کہ پیچھے نہ بیٹھیں، سامنے آکر بات کریں، ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں، چھپ چھپ کر بات نہیں ہوگی ، پارٹی کی اندرونی کہانی علیمہ خان کے اس جملے سے بھی ظاہر ہورہی ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان کے پاس خوش خبری ہے تو ہمیں بھی بتا دیں، بیرسٹر گوہر سے پوچھیں کیوں انہوں نے کہا بانی 5جون کو رہا ہوں گے۔ یہاں معاملہ ظاہر کر رہا ہے کہ اب بھی کچھ لوگ وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں، پھر کس پر اعتبار کریں۔ اور خان صاحب کو حقوق تو حاصل نہیں لیکن انہوں نے اعلان کیا ہے کہ میں خود جیل سے احتجاجی تحریک کی قیادت کروں گا۔ اس پر تو ساری دنیا کے سیاسی قیدی رشک کر رہے ہونگے۔