Column

پاک ترک دوستی زندہ باد

پاک ترک دوستی زندہ باد
ضیاء الحق سرحدی
قوموں کی زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جب آزمائش کی گھڑی میں ساتھ دینے والے ہاتھ صدیوں یاد رکھے جاتے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت جنگی صورتحال میں، ترکیہ نے جس انداز سے پاکستان کا بھرپور، غیر مشروط اور بے خوف ساتھ دیا ہے، وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام کیلئے فخر کا باعث ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں جہاں بیشتر اسلامی ممالک نے خاموشی اختیار کی یا رسمی بیانات پر اکتفا کیا، وہیں ترک صدر رجب طیب اردوان نے دو ٹوک انداز میں پاکستان کے حق میں آواز بلند کی۔ اُن کا کھل کر اور واضح انداز میں پاکستان کی حمایت کا اعلان وہ تاریخی لمحہ تھا جس نے پاکستانی عوام کے دل جیت لیے۔ ترک صدر نے کسی سفارتی لفاظی یا نپی تلی زبان کے بجائے، برادرانہ محبت اور اخلاص سے بھرپور انداز میں پاکستان کے موقف کی حمایت کی اور وزیراعظم شہباز شریف کو اپنا بھائی قرار دے کر تعلقات میں جذباتی گہرائی کا اظہار بھی کیا۔ ترکیہ کی حمایت صرف زبانی یا علامتی نہیں رہی۔ جنگ کے دوران پاکستان کی جانب سے ترکیہ کے تیار کردہ جدید ترین ڈرونز کا استعمال ایک عملی مثال بن کر سامنے آیا۔ ان ڈرونز نے بھارتی تنصیبات کو کامیابی سے نشانہ بنایا اور دشمن کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان تنہا نہیں۔ ان ڈرونز کی بدولت پاکستان کو نہ صرف عسکری برتری حاصل ہوئی بلکہ دشمن کے حوصلے بھی پست ہوئے۔ ترکیہ وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے پاکستان کی مکمل اور ببانگ دہل حمایت کی۔ چاہے سفارتی محاذ ہو یا میڈیا، چاہے عسکری تعاون ہو یا عوامی ہمدردی، ہر سطح پر ترکیہ نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔
یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں ترکیہ کا سر فخر سے بلند ہے۔ ترک حکومت اور عوام نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ترکیہ صرف ایک ملک نہیں، ایک نظریہ ہے، اُمتِ مسلمہ کے اتحاد، غیرت، اخوت اور وفاداری کا نظریہ ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف نے استنبول میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کی، اس موقع پر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور وفاقی وزراء بھی موجود تھے، وفد کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں دونوں ممالک نے پاک ترک اسٹرٹیجک شراکت داری کو مزید بلندیوں تک لے جانے پر اتفاق اور علاقائی امن کیلئے ملکر کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا، وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت سے کشیدگی کے دوران حمایت اور مسئلہ کشمیر پر ساتھ دینے پر ترک حکومت اور عوام کا شکر یہ ادا کیا، صدراردوان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں تعاون دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے، دونوں رہنماں نے غزہ میں جاری انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور فوری جنگ بندی اور متاثرہ فلسطینی آبادی تک بلا تعطل انسانی امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا، دونوں ممالک نے دو طرفہ تجارت کا حجم 15ارب ڈالر تک کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ ترکیہ اور پاکستان کا رشتہ محض دو ریاستوں کا تعلق نہیں بلکہ دلوں کا رشتہ ہے۔ یہ وہ تعلق ہے جو تاریخ، عقیدہ، قربانی اور اخلاص کے ستونوں پر قائم ہے۔ جب کبھی پاکستان پر کڑا وقت آیا، ترکی نے اپنے رویے، بیانیے اور عملی اقدامات سے ہمیشہ یہ ثابت کیا کہ وہ نہ صرف ہمارا برادر ملک ہے بلکہ ایک ایسا سچا دوست بھی ہے جو ہر امتحان میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوتا ہے، ایسا ہی معاملہ پاکستان کی جانب سے بھی ہے۔ حالیہ جنگی حالات میں ترکی نے نہ صرف پاکستان کے موقف کی غیر مشروط حمایت کی بلکہ اپنے سفارتی، اخلاقی اور سٹریٹجک ذرائع سے بھی پاکستانی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ ترکی نہ صرف ہمارا تاریخی اتحادی ہے بلکہ موجودہ عالمی تناظر میں ہمارا قدرتی سٹریٹجک شراکت دار بھی ہے۔ ترکی کی قیادت، بالخصوص صدر رجب طیب اردوان، نے جس جرأت مندی سے نہ صرف امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل، بلکہ پاکستان جیسے دوست ممالک کے درد کو عالمی فورمز پر اٹھایا، وہ قابل تحسین ہی نہیں، قابل تقلید بھی ہے۔ ان کی شخصیت عالم اسلام میں اس وقت ان چند آوازوں میں شامل ہی جو نہ دبتی ہیں، نہ بکتی ہیں اور نہ جھکتی ہیں۔ کشمیر ہو یا فلسطین، افغانستان کا بحران ہو یا اسلامو فوبیا کا عروج، ترکی نے ہمیشہ اصولی اور جبری موقف اپنایا۔ اور ہر اس جگہ پر پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا جہاں سچ بولنے کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ترکی اور پاکستان کی دوستی کسی وقتی مفاد یا سیاسی مصلحت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ان نظریات کا تسلسل ہے جن کی بنیاد پر ترک خلافت کے خاتمہ کے خلاف مسلمانان برصغیر نے ایک بھر پور تحریک چلائی قربانیاں دیں اور ترک مجاہدین کی عملی اور مالی مدد بھی کی، کہا جاسکتا ہے کہ ترکیہ اور پاکستان کا رشتہ جدید ترکیہ اور پاکستان کے قیام سے بھی پہلے کا ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے جو قوموں کی بقاء عزت اور خود داری سے جڑا ہوا ہے۔ ترکی کا کردار ہر اس وقت روشن ہوا جب پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر سہارے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اقوام متحدہ کے اجلاس ہوں یا او آئی سی کی قراردادیں ترکی نے بیشہ پاکستانی موقف کی نہ صرف تائید کی بلکہ اس کی ترجمانی بھی کی۔ آج جب دنیا تقسیم در تقسیم کی طرف بڑھ رہی ہے، اور مسلم دنیا انتشار اور بیرونی دبا کا شکار ہے، ایسے وقت میں ترکی اور پاکستان کی قربتیں، ان کا اتحاد اور ان کی باہمی ہم آہنگی نہایت خوش آئند اور قابل تقلید ہے۔ یہ اتحاد صرف دو ملکوں کے درمیان نہیں، بلکہ پوری امت کے لیے امید، حوصلے اور بیداری کا پیغام بن سکتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کا حالیہ دورہ جنگ کے دوران ترکیہ کے تعاون کا شکر یہ ادا کرنے کی خاطر ہے، جس میں سٹریٹجک تعاون کو بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یقیناً یہ تعاون پاکستان اور ترکی دونوں کے لیے طاقت، تحفظ اور ترقی کا ذریعہ ہے، اور پوری مسلم دنیا کے لیے ایک مضبوط، با اعتماد اور فعال اتحاد کا امکان پیدا کرتا ہے۔ دونوں ملک جدید ہتھیار، ڈرون، اور عسکری تربیت میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں، جو اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے میں مددگار ہوگا۔ بھارت، اسرائیل اور یونان جیسے مخالف بلاکوں کے مقابلے میں مشترکہ محاذ سے دونوں ممالک کو سیاسی و دفاعی وزن ملے گا۔ مشترکہ سرمایہ کاری، تجارت خصوصاً دفاعی اور توانائی شعبوں اور انڈسٹریل تعاون سے دونوں معیشتیں مضبوط ہوں گی۔ او آئی سی، اقوام متحد ہ اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر باہمی حمایت سے دونوں ملک اپنا موقف موثر طریقے سے منوا سکتے ہیں۔ ترکیہ پاکستان کا سب سے قریبی اور سچا دوست ہے۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے ترکیہ کے خلاف چلائی گئی منفی مہم کو مکمل نظر انداز کیا، بلکہ اس کا دو ٹوک جواب پاکستان کی غیر متزلزل حمایت سے دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس پر ترک صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُنہیں پاکستان کا سچا دوست اور برادر قرار دیا۔ یہ جذباتی اور دل سے نکلے ہوئے الفاظ دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان نہ ختم ہونے والے رشتے کی تجدید ہیں۔ ترکیہ اور پاکستان کے مابین محبت کی یہ فضا کوئی نئی نہیں، بلکہ اس کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں۔ تحریک خلافت سے لے کر آج تک، دونوں ممالک نے ایک دوسرے کیلئے اپنی محبت، وفاداری اور تعاون کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان کے عوام آج جب ترکیہ کے ان جذبوں، امداد، عسکری تعاون اور اخلاقی حمایت کو دیکھتے ہیں، تو اُن کے دل فخر سے لبریز ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب پاکستانی نوجوان ترکیہ کے جھنڈے کے رنگ اپنے چہروں پر سجاتے ہیں تو ترک نوجوان’’ جیوے جیوے پاکستان‘‘ قومی نغمہ گنگنا کر اور خوشی سے سرشار ہو کر پاکستان کی فتح کو اپنی فتح قرار دیتے ہیں۔ کشمیر ہو یا اقوام متحدہ کے فورمز، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)ہو یا سیلاب زدگان کی امداد، ہر موقع پر ترکیہ نے اپنی دوستی کا حق ادا کیا ہے۔
پاک ترک دوستی زندہ باد

جواب دیں

Back to top button