ایک ووٹ دنیا کی تقسیم کا باعث

ایک ووٹ دنیا کی تقسیم کا باعث
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی امن، سلامتی اور تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایسی تنظیم کی ضرورت پر زور دیا گیا جو دنیا بھر کے مسائل کا حل تلاش کرے اور ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی معاونت فراہم کرے تاکہ دنیا بھر میں امن کو قائم رکھ سکے ۔ 24اکتوبر 1945ء کو ایک چارٹر تیار کیا گیا، جس پر دنیا بھر سے 50ممالک نے دستخط کیے۔ اقوام متحدہ کا منشور سان فرانسسکو کانفرنس (25اپریل تا 26جون 1945ء ) میں تیار کیا گیا۔ اس وقت 193ممالک اقوام متحدہ کے رکن ہیں، جو جنرل اسمبلی کے ارکان ہیں۔ سلامتی کونسل 15ارکان پر مشتمل ہے، جن میں 5مستقل ارکان ( امریکا، چین، فرانس، روس، برطانیہ) شامل ہیں۔ یہ ارکان ویٹو پاور رکھتے ہیں، باقی 10ارکان غیر مستقل ہوتے ہیں جو دو سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ جبکہ جنرل اسمبلی میں دنیا بھر کے 193ممالک شامل ہیں، جنہیں ایک ووٹ کا حق حاصل ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ جنرل اسمبلی کے فیصلے اکثریتی رائے سے ہوتے ہیں۔ لیکن امن سے متعلق فیصلے مستقل ارکان کرتے ہیں۔ ان کا رضا مند ہوا ضروری ہے ۔ اقتصادی و سماجی کونسل ترقیاتی اور سماجی مسائل پر کام کرتی ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف ممالک کے درمیان تنازعات حل کرتی ہے۔ اقوام متحدہ اپنے ذیلی اداروں سے ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی امداد اور ترقیاتی پروگرام مہیا کرتی ہے۔
2030ء تک غربت، بھوک اور عدم مساوات ختم کرنے کے لیے 17اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ لیکن امن قائم رکھنے کے لیے پانچوں مستقل ارکان کا متفق ہونا لازم ہے۔ اس ویٹو پاور کو لے کر دنیا بھر، خاص طور پر اسلامی ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک، خاص طور پر مسلم اکثریتی ممالک جیسے پاکستان، ترکی اور ملائیشیا نے امریکی ویٹو کی شدید مذمت کی ہے۔ دنیا اقوام متحدہ کی غیر جانبداری اور انصاف کے اصولوں پر سوال اٹھا رہی ہے۔ پاکستان نے غزہ میں جنگ بندی کی قراردادوں پر امریکی ویٹو کو ’’ انسانی ضمیر پر داغ‘‘ قرار دیا۔ عالمی جنوبی ممالک کا خیال ہے کہ ویٹو پاور کو بڑی طاقتیں اپنے اتحادیوں ( جیسے امریکا نے اسرائیل کے لیے) کے تحفظ کے لیے استعمال کرتی ہیں، جبکہ کمزور ممالک جیسے فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ امریکا کے ویٹو ووٹ نے دنیا بھر میں مایوسی اور تفریق کو بڑھا دیا ہے۔ اسرائیل کی غزہ پر بمباری، ہزاروں انسانوں کی شہادت، انصاف کا قتل ہے۔ عالمی برادری میں مایوسی بڑھ رہی ہے کہ اقوام متحدہ تنازعات کے حل میں ناکام ہو رہی ہے۔ عالمی برادری میں تقسیم نمایاں ہو رہی ہے، جس میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ویٹو کے استعمال پر غم و غصہ میں اضافہ ہو رہا ہے ، یہ انسانیت کے خلاف اقدام سمجھا جا رہا ہے۔ بظاہر امریکا کا ویٹو ووٹ مسلمانوں کے خلاف سمجھا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے ویٹو کے استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ غزہ میں انسانی بحران جیسے قحط، بے گھری اور اموات کو روکنے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے بنیادی چارٹر کے مقاصد ( امن و سلامتی، انسانی حقوق) کے اصولوں کے منافی ہے۔ امن کی بات کرنے والوں نے اپنے ووٹ سے جنگ اور تقسیم کو بڑھاوا دیا ہے۔ ویٹو پاور کے خاتمے یا اس کے استعمال کو محدود کرنے کے مطالبات دن بہ دن زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور تجزیہ نگاروں کے مطابق ویٹو پاور ایک غیر جمہوری شق ہے جو اکثریتی رائے کو نظر انداز کرتی ہے، یہ غیر جمہوری شق دنیا کو تقسیم کر دے گی۔ میرے مطابق پانچ مستقل ارکان اگلے سالوں میں دنیا کا نقشہ بدل دیں گے۔ آنے والے سالوں میں بارڈر، ٹیرف اور دفاعی ٹیکنالوجی ممالک کو مزید تقسیم کرے گی۔ سب سے زیادہ نقصان سپر پاور کو ہوگا۔ مدِمقابل چین جس رفتار سے مارکیٹ شیئر حاصل کر رہا ہے اور دفاعی مارکیٹ میں اپنا حصہ بڑھا رہا ہے، یہ ایک واضح پیغام ہے۔ حالیہ پاکستان، بھارت معرکہ سے واضح ہو گیا کہ پاور تقسیم ہو رہی ہے۔ چین اور روس ایک پیج پر ہوں گے، فرانس بھی آنے والے سالوں میں چین اور روس کے ساتھ کھڑا نظر آئے گا۔ پاکستان کی طرف سے فرانسیسی رافیل کو نشانہ بنانا بھی ایک واضح پیغام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ پاکستان اسلامی ممالک کی قیادت کرے گا۔ ترقی پذیر ممالک ایک پلڑے میں اکٹھے ہوں گے۔
آج امریکا ہر لمحے پاکستان کا نام لے رہا ہے، کیونکہ طاقتور کو بھی سمجھ آ رہی ہے کہ طاقت تبدیل ہو رہی ہے۔ اس تبدیلی میں پاکستان کا اہم کردار ہوگا۔ پاکستانی قیادت نے بھی دنیا بھر کو ’’ ہارڈ اسٹیٹ‘‘ کا پیغام دیا ہے کہ اگر کسی نے ہماری سالمیت پر حملہ کیا تو ہم بھرپور جواب دیں گے، خاموش نہیں رہیں گے۔ اس پیغام کی عملی تصویر گزشتہ دنوں کی جنگ میں نظر آئی، اور بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔