مکین کوئی مدت پوری نہیں کرتا …. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی
(گذشتہ سے پیوستہ)
محرم سے مجرم بنتے دیر نہیں لگتی، گذشتہ کالم میں فقرہ کچھ یوں تھا، جنرل ضیا الحق نے سیاست دانوں کے پر زور اصرار پر آرمی چیف کے عہدے کو خیرباد تو نہ کہا، انہوں نے اپنے نائب جنرل اسلم بیگ مرزا کو کچھ ذمہ داریاں سونپیں مگر اہم معاملات اپنے ہاتھ میں ہی رکھے، وہ تادم شہادت آرمی چیف رہے، البتہ جنرل پرویز مشرف کو جب احساس ہوا کہ معاملات پر اُن کی گرفت بہت مضبوط ہوگئی ہے تو انہوں نے وردی اُتاردی اور سویلین صدر بن گئے،انہوںنے جنرل کیانی کو آرمی چیف بنایا، میرے خیال کے مطابق اُسی روز سے اُن کا زوال شروع ہوگیا تھا، انہی ایام میں راقم نے ایک کالم میں لکھا کہ سب سیاست دان مل کر پرویز مشرف کو شیر سے قالین کا شیربنادیں گے، بعد ازاں ان کا انجام یہی ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے میرے تحریر کردہ فقرے کا بہت برا منایا، جنرل پرویز مشرف نے جمالی صاحب کو وزیراعظم بنایا، وہ فقط ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوئے، انہیں دو برس سے بھی کچھ کم عرصہ وزیراعظم ہائوس میں رہنا نصیب ہوا، ان کے بعد قرعہ چودھری شجاعت حسین کے نام نکلا جو مختصر ترین مدت کے لیے وزیراعظم بنے، وہ دو ماہ سے بھی کم عرصہ میں رخصت ہوگئے۔
پرویز مشرف نے ہمایوں اخترکو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا اسی خیال کے تحت انہیں الیکشن بھی جتوائے گئے ورنہ ان کی حالت پتلی تھی۔ جنرل مشرف اس عہدے کے لیے فریش فیس(تازہ چہرہ)دنیا کے سامنے لانا چاہتے تھے لیکن ایک بااثر ترین گروپ نے اِن سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ جناب ایک جرنیل صدر پاکستان اور دوسرے جرنیل کا بیٹا وزیراعظم بنا تو آپ کی حکومت کے بارے میں دنیا بھر میں اچھا تاثر نہ جائے گا یوں آپ کی جمہوریت کے معاملے میں بھی سوال اٹھیں گے۔ انہیں یہ بھی کہاگیا کہ ایسی صورت میں ہم آپ کو زیادہ سپورٹ نہ کرسکیں گے، پس جنرل پرویز مشرف اپنا فیصلہ بدلنے پرمجبور ہوگئے۔یوں وزارت عظمیٰ ہمایوں اختر کو چھوکر گذر گئی، وہ جنرل مشرف کے ہم نوالہ ہم پیالہ افراد میں اُن کے بہت قریب تھے۔ اِس مرحلے پر آقائوں کے نامزد اور سابق وزیر خزانہ شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ہو، انہیں خصوصی انتظامات کے تحت ایسے علاقے سے منتخب کرایاگیا جہاں وہ زندگی میں ایک بار بھی نہ گئے تھے، ان کے ووٹ فقط چند ہزار تھے لیکن وہ الیکشن جیتے اوروزیراعظم پاکستان بن گئے، وہ قریباً سوا تین برس وزیراعظم ہائوس میں موج میلہ کرنے کے بعد رخصت ہوئے، نئے انتخابات اور نئے انتظامات کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی، نواز لیگ نے انہیں سپورٹ کیا، سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بننے میں کامیاب رہے،انہوںنے کئی مضبوط امیدواروں کو پچھاڑ دیا اور وضع داری سے کام چلایا، عدالت عالیہ نے انہیں ایک مقدمے کے سلسلے میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس حکومت کو ایک خط لکھنے کا کہا جو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی لکھنا نہ چاہتے تھے، انہوںنے قانون کا کہا نہ مانا، وہ ٹال مٹول کرکے وقت کو دھکا دیتے رہے اور اپنے پارٹی صدر و صدر پاکستان سے تعلق نبھاتے رہے، عدالت نے انہیں توہین عدالت میں طلب کیا اور سزادی، یوسف رضا گیلانی بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکےاوروزیراعظم ہائوس چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ نئے وزیراعظم کے لیے ایک مرتبہ پھر میدان گرم ہوا، پیپلز پارٹی کے نئے اور پرانے ممبران قومی اسمبلی اس منصب کو حاصل کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے متمنی نظر آئے، بعض کو ممبران قومی اسمبلی کے بڑے بڑے گروپوں کی حمایت حاصل تھی، بعض راولپنڈی کی چٹھی بھی لے آئے تھے لیکن راجہ پرویز اشرف خوش قسمت ٹھہرے اور آصف علی زرداری نے انہیں یہ ذمہ داریاں سونپیں۔ان کے انتخاب پر اپنے پرائے واضح اور دبے دبے لفظوں میں ان کے خلاف اظہار خیال کرتے نظر آئے کیوں کہ راجہ پرویز اشرف کے خلاف کچھ ایسے مقدمات زیرسماعت تھے اور سمجھا جاتا تھا کہ ان کا دامن اُجلا نہیں۔ راجہ پرویز اشرف کہنے کو تو پنجاب سے تعلق رکھتے تھے، وہ سیاست کے ساتھ ساتھ رئیل سٹیٹ کاروبار سے بھی منسلک تھے لیکن پنجاب کے ساتھ ساتھ اُن کے سیاسی و کاروباری روابط سندھ میں بھی بہت گہرے تھے، یوں انہیں صدر پاکستان آصف علی زرداری کی قربتیں حاصل ہوئیں۔ زرداری صاحب کا خیال ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ وہ بھی سید یوسف رضا گیلانی کی طرح تابعدار وزیراعظم ثابت ہوں گے، بعد ازاں ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے اپنی قیادت کو خوش رکھا، وہ قریباً نو ماہ تک وزیراعظم پاکستان کے منصب پر فائز رہے، انہوں نے زرداری صاحب کی توقع کے مطابق ڈیلوری دی، یوں وہ بھی وزیراعظم ہائوس سے رخصت ہوئے۔
2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نون کو اکثریت حاصل ہوئی، نتائج چارٹر آف ڈیموکریسی کے عین مطابق تھے، یعنی پیپلز پارٹی کے بعد نواز لیگ کو اقتدار ملنا تھا، نوازشریف اِس سے قبل دو مرتبہ وزیراعظم پاکستان رہ چکے تھے، اُن کے ہوتے ہوئے کوئی اور حتیٰ کہ ان کا بھائی بھی وزیراعظم پاکستان بننے کا خواب نہ دیکھ سکتا تھا، کوئی خواب دیکھ بھی لیتا تو
اُسے تعبیر نہ ملتی۔ نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے میں کامیاب رہے یوں وہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کرگئے، ان کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے میں بینظیر بھٹو مرحومہ کا بھی ہاتھ تھا، جو پرویز مشرف سے مذاکرات میں تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے میں پابندی ہٹواگئی تھیں اور ایک موقعہ پر خود بھی اس کی امیدوار تھیں لیکن ان کی قسمت میں یہ نہ لکھا تھا۔ وزیراعظم نے اپنے پرانے سٹائل سے حکومت جاری رکھی، ان کے حامی ان سے بے حد خوش اور ان کے مخالفین ان سے بے حد ناراض تھے لیکن وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے کیوں کہ ان کے ذہن میں تھا کہ وہ انتخاب جیت کر وزیراعظم بنے ہیں، ان کے زمانہ اقتدار میں ہی پانامہ سکینڈل آگیا، وہ بہت آرام سے بچ سکتے تھے لیکن ان کے دوست نما دشمنوں نے انہیں پھنسادیا ، انہی دوستوں کے کہنے پر وزیراعظم نوازشریف نے پارلیمنٹ میں وہ تقریر کی جسے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا ، یہ ہیں وہ ذرائع جن سے یہ اثاثے بنے، عدالتی فیصلہ آنے سے قبل انہیں دوستوں نے باور کرایا کہ سادہ اکثریت سے فیصلہ ان کے حق میں آئے گا، مگر اس کے الٹ ہوا، وہ نااہل قرار دے دیئے گئے، انہیں اپنا منصب اور وزیراعظم ہائوس مدت پوری کرنے سے قبل چھوڑنا پڑا۔ ان کی جگہ ان کی خواہش پر شاہد خاقان عباسی نے لی، عجیب اتفاق ہے وہ بھی قریباً نو ماہ وزیراعظم پاکستان رہے، انہوں نے دھیمے سروں میں وزارت عظمیٰ چلائی، یوں وہ بھی وزیراعظم ہائوس سے رخصت ہوئے، 2018ء کے عام انتخابات کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے اور کوئی نہ مانتا تھا کہ الیکشن کیسے بنایاگیا اور کیسے جتوایاگیا لیکن اس حوالے سے ایک اہم اور ذمہ دار ترین شخصیت نے اپنے ایک خطاب میں تمام ابہام دور کردیئے۔ وزیراعظم عمران خان سے بے حد توقعات وابستہ کی گئیں، انہوں نے اپنے بیشتر وعدوں سے یوٹرن لیا
گھر کا حال بھی خانۂ دل سا ہے
مکین کوئی مدت پوری نہیں کرتا