ColumnRoshan Lal

شاری بلوچ اور بلوچستان …. روشن لعل

روشن لعل

کراچی یونیورسٹی میں بے گناہ چینی اساتذہ پر خود کش حملہ کر کے ان زندگیوں کے چراغ گل کرنے والی شاری بلوچ کے متعلق میڈیا پر بہت کچھ کہا جاچکا ہے ۔ بعض لوگوں کے نزدیک اس کی حرکت دہشت گردی نہیں بلکہ مجاہدانہ عمل ہی جبکہ کئی لوگ اس کے خود کش حملے کو دہشت گردی کے علاوہ کچھ اور ماننے کے لیے تیار نہیں۔جو لوگ شاری بلوچ کے حق میں بول اور لکھ رہے ہیںان کے نزدیک اگراس کا عمل دہشت گردی ہے تو یہ دہشت گردی اس دہشت سے برآمد ہوئی جو بلوچستان پر کئی دہائیاں پہلے سے مسلط چلی آرہی ہے۔ شاری بلوچ کے عمل کو چاہے کوئی جیسا بھی جواز مہیا کرنے کی کوشش کرے مگر موجود ہ دور میں تہذیبی ارتقا کے دوران خاص مقام تک پہنچ چکے انسانی شعور کے مطابق کسی بھی وجہ اور مقصد کے تحت کی گئی دہشت گردی کو کسی بھی طرح جائز تصور نہیں کیا جاسکتا۔ فسطائیت کے عملی مظاہرے کرنے والوں کے ازدحام میں تہذیب اور شعور کی باتیں عام لوگوں کو سمجھ آنا یا انہیں سمجھانا آسان کام نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیںکہ اگر حق اور سچ کو جھٹلایاجارہا ہو تو ایسا کرنے والوں کے سامنے خاموشی اختیار کر لی جائے۔ شاری بلوچ کے حوالے سے حق اور سچ کی پہچان پیچیدہ ہو سکتی ہے مگر بلوچستان کا تلخ سچ پیچیدہ نہیں بلکہ بہت واضح اور شفاف ہے۔شاری بلوچ کے عمل کو اگر تہذیب اور شعور کے ارتقا کے معیار پر پرکھا جارہا ہے تو ضروری ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی اور وہاں انسانی حقوق کی پامالی کو بھی عہد حاضر کے شعوری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے۔
شاری بلوچ نے جو کردار ادا کیا ، تاریخ میں اس طرح کے کردار کی حامل خواتیں کی کئی مثالیں موجود ہیں۔قدیم دور سے بیسوی صدی کے وسط تک ایسا ہوتا رہا کہ شاری بلوچ جیسی خواتین کو ان کی موت کے بعد قومی ہیرو کے طور پر یاد رکھا گیا یا ان کے نام پر کوئی یادگار تعمیر کی گئی ۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں اور خاص طور پر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کے دور میں شاری بلوچ جیسا کردار ادا کرنے والی خواتین کی ایک دو مثالیں ضرور ملتی ہیں مگر کہیں بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ خود کش حملے جیسا کام کرنے والی کسی خاتون کا نام ابھی تک زندہ ہو یا اسے ہیرو کی طور پر یاد کیا جاتا ہو۔
جو کچھ شاری بلوچ نے کیا اس سے ملتا جلتا کام تھنموزی راجا رتنم نام کی ایک لڑکی نے اپنی جان
دے کر اور پندرہ معصوم لوگوں کی جان لے کر کیا تھا۔ آج کتنے لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ تھنموزی راجا رتنم کون تھی اور اس نے کس مقصد کے لیے اپنی جان دی ۔ آج کسی کو بھی تھنموزی راجا رتنم کا پس منظر بتائے بغیر صرف اس کی عمل کے متعلق پوچھا جائے تو ہر کوئی بغیر زیادہ سوچ و بچار کے یہی کہے گا کہ وہ بدترین دہشت گردی کی مرتکب ہوئی ۔ تھنموزی راجا رتنم وہ نسوانی کردار ہے جس نے مئی 1991 میں شاری بلوچ کی طرح خود کش حملہ کرتے ہوئے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی جان لی تھی۔ تھنموزی کا تعلق سری لنکا سے جافنا کی آزادی کے لیے بنائی گئی تنظیم تامل ٹائیگرز سے تھا ۔ سال 2009 میں تامل ٹائیگرز کے خاتمے تک تو اس تنظیم کے لوگ تھنموزی راجا رتنم کو یاد کرتے رہے مگر اب اس کی خود کش دہشت گردی کو قربانی قرار دے کر یاد کرنے والی نہ کوئی تنظیم اور نہ ہی کوئی گروہ نظر آتا ہے۔
جس تنظیم نے شاری بلوچ کو استعمال کیا اس کے متعلق سوچا جارہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ اس نے خود کش دہشت گردی کے لیے مزید خواتین بھی تیار کر رکھی ہوں۔ یہ تنظیم مزید کیا کرتی ہے یا مستقبل میں اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے یہ تو اب آنے والے وقت میں ہی پتا چل سکے گا ۔ ماضی میں اس طرح کی تنظیمیں کیا کرتی رہیں اور کس طرح اپنے لوگوں کی قیمتیں جانیں گنوا کر دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونوں کی طرح استعمال ہوتی رہیں ، اس حوالے سے بہت تلخ حقائق سامنے آچکے ہیں۔ بھولی بسری تاریخ کا حصہ بن چکی تامل ٹائیگرز  مضبوط ہوئے تو بھارتی حکومت نے خطرہ محسوس کیا کہ تامل علیحدگی پسندوں کی تحریک سری لنکا کا سمندر عبور کر کے بھارت کے تامل علاقوں تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ اس خطرہ کے پیش نظر بعد ازاں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اسی تامل ٹائیگرز کی سرکوبی کے لیے سری لنکن صدر جے وردھنے سے فوجی تعاون کا معاہدہ کیا جس تامل ٹائیگرز کو پہلے وہ پیرا شوٹ آپریشن کے ذریعے امدادی سامان پہنچاتے رہے۔ یاد رہے کہ راجیو گاندھی پر تامل ٹائیگرز کی علیحدگی پسند تحریک کے حوالے سے دو حملے ہوئے۔ ان میں سے ایک حملہ سری لنکن سنہالی نیوی کیڈٹ نے راجیو گاندھی پر گارڈ آف آنر کے دوران اپنی بندوق کا بٹ مار کر کیا تھا کہ وہ علیحدگی پسند تامل ٹائیگرز کی مدد کرتا رہا جبکہ دوسرا حملہ خود کش دہشت گردی کی شکل تھنموزی راجا رتنم نے اس جواز کے تحت کیا کہ تامل ٹائیگرز کی سرکوبی کے لیے بھارت نے سری لنکا کے ساتھ کیوں فوجی تعاون کا معاہدہ کیا۔واضح رہے کہ تامل ٹائیگرز کے حوالے سے دنیاکے سامنے یہ سبق عیاں حقیقت کے طور پر موجود ہے کہ اس طرح کی تنظیمیں چاہے جس بھی مقصد کے لیے قائم کی گئی ہوں ، وہ نہ تو کسی دوسرے ملک کے تعاون کے بغیر قائم ہو سکتی ہیں، نہ اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہیں اور نہ ہی اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہیں۔ ان تنظیموں کی سرگرمیاں اور وجود جن ملکوں کے تعاون کا مرہون منت ہوتا ہے وہ ملک جب چاہیں ایسی تنظیموں کو ٹشو کی طرح استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں۔
تامل ٹائیگرز جیسی تنظیمیں اگر بلوچستان میں بھی کام کر رہی ہیں تو ان کے وجود اور سرگرمیوں سے متعلق نہ تو تامل ٹائیگرز کے وجود اور سرگرمیوں سے مختلف کوئی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی تامل ٹائیگرز کے انجام سے مختلف انجام کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ مگر یاد رہے کہ اس طرح کی تنظیمیں اگر بلوچستان میں موجود ہیں تو ان کی وہاں موجودگی کو بلوچستان کی پسماندگی اورمسائل سے علیحدہ رکھ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ بلوچستان کے مسائل اور پسماندگی کی الجھی ہوئی ڈور کا ایک سرا اگر بلوچستان میں تو دوسرا راولپنڈی اور اسلام آباد میں ہے ۔ تامل ٹائیگرز جیسی تنظیمیں اس الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کی بجائے محض مزید الجھانے کا باعث بن سکتی ہیں مگر یہ ڈوڑ جتنی بھی الجھے گی اس کے الجھنے کا الزام کسی اور کی بجائے صرف اور صرف راولپنڈی اور اسلام آبادپر ہی آئے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button