ColumnImtiaz Aasi

ہائبرڈ جمہوریت

تحریر : امتیاز عاصی
ملک میں مارشل لاء ہے نہ جمہوریت ہابئرڈ جمہوری نظام رائج ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں سیاسی جماعتوں کے جلسے اور جلوس جمہوریت کی رو ح ہوتے ہیں جو موجودہ حکومت کے دور میں اس کی اجازت نہیں۔ گو بظاہر جمہوریت ہے مگر سیاسی آزادیاں اور اظہار رائے پر قدغن ہے۔ اخبارات ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے بانی کے نام سے خبر شائع نہیں کر سکتے نہ حکومت پر کھیل کر تنقید کر سکتے ہیں۔ آئے روز پرائیویٹ چینلز کے اینکرز کو ملازمت سے فارغ کی جا رہا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو جس طرح کا ماحول موجودہ دور حکومت میں ہے مارشل لاء دور میں دیکھنے میں نہیں آیا۔ سیاسی جماعتوں کو جلسے اور جلوس کرنے سے روکا جائے تو اسے ماحول کو کس جمہوریت کے نام سے یاد کیا جائے۔ ہمیں یاد ہے ستر کے عشرے میں سیاسی جماعتوں کو جلسے اور جلوس نکالنے کی آزادی تھی گلی محلوں میں سیاسی جماعتوں کے جلسوں کا انعقاد ہوا تھا البتہ اس دور میں سیاسی جماعتوں کو طلبہ تنظیموں کی بڑی سپورٹ حاصل تھی جو موجودہ وقت میں ناپید ہے۔ طلبہ تنظیموں کی بدولت سیاست میں نئی قیادت سامنے آتی تھی۔ جب سے ملک میں طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ملکی سیاست میں قیادت کا فقدان ہے۔ ستر کی دہائی پر نظر ڈالیں تو اس دور میں طلبہ تنظیموں سے نوجوان قیادت ابھری جس نے جمہوریت میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ علیحدہ بات ہے بعض سیاست دان مارشل لاء کی پیداوار ہیں اور ایک طویل عرصے سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ایک ادارے کی رپورٹ میں پاکستان کو ہائبرڈ نظام والے ملکوں کی فہرست میں 165میں سے 105ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ گویا ملک میں نہ جمہوریت ہے نہ آمریت ملک میں ہابئرڈ جمہوری نظام ہے لوگوں کو گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے جس کے بعد ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہوتا چادر اور چار دیواری کے تقدس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ حکومت کی تمام تر توجہ ایک سیاست دان پر ہے کسی طرح وہ باہر نہ آجائے۔ ہائبرڈ نظام کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما ہیں ۔ جمہوری نظام میں امن و امان کو ملحوظ رکھتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں کی آزادی ہوتی ہے۔ عجیب تماشا ہے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کو ملک میں کہیں جلسہ اور جلوس کی اجازت نہیں۔ حال ہی میں اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی دارالحکومت کے ایک ہوٹل میں جلسہ کرنے کی کوشش کی تو ہوٹل انتظامیہ نے جگہ دینے سے انکار کر دیا۔ بھلا کبھی ایسا ہوا ہے ہوٹل انتظامیہ کسی جماعت کو کانفرنس کا انعقاد کرنے کی اجازت نہ دے۔ پی ٹی آئی کے اقتدار کا سورج کیا غروب ہوا کہ نام نہاد جمہوریت بھی جاتی رہی۔ سانحہ نو مئی کے بعد ملکی سیاست میں جو طوفان آیا سیاسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا بانی، کہیں رہنما اور ورکر جس میں خواتین کی خاصی تعداد شامل ہے جیلوں میں ہے۔ پی ٹی آئی کے بہت سے ورکرز کو ملٹری کورٹ سے سزائیں ہو چکی ہیں اور بہت سے رہنما سزائوں کے منتظر ہیں۔ پی ٹی آئی کے جن ارکان کے پروڈکشن آرڈر ہوتے ہیں انہیں اسمبلی میں نہیں لایا جاتا جو ہائبرڈ جمہوری نظام کی بدترین مثال ہے۔ بدقسمتی سے ہائبرڈ جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے دہشت گردی میں خاصا اضافہ ہو گیا ہے۔ ملک کے دو صوبے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں مسلح افواج کے بہادر سپوت دہشت گردوں کے آگے بند باندھے ہوئے ہیں اور ملک و قوم کی حفاظت کے لئے جان کے نذراے پیش کر رہے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے مملکت میں دہشت گردی کئی عشروں سے جاری ہے جس کے مستقل سد باب کے لئے حکمت عملی کی اشد ضرورت تھی مگر سیاسی جماعتیں بکھری ہوئی ہیں۔ بلوچستان میں ٹرین کا تازہ ترین سانحہ سیاسی جماعتوں کے ملکی سالمیت کیلئے متحد نہ ہونے کا عکاس ہے۔ سیاست دانوں کو اقتدار کے سو ا کسی سے کوئی غرض نہیں اقتدار کی خاطر وہ جمہوری روایات کو روندنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جمہوری نظام پر متحد ہوتیں تو ملک میں ہائبرڈ جمہوری نظام قائم نہیں ہو سکتا تھا۔ ہائبرڈ جمہوری نظام کی بدولت ملک میں سرمایہ کاری کا فقدان ہے کوئی ملک ہمارے ہاں سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں۔ ہمارا نظام غیر ملکی قرضوں پر چل رہا ہے ۔ ایک جماعت اقتدار میں آتی ہے خراب معاشی حالات کا ملبہ جانے والی جماعت پر ڈال دیتی ہے۔ عوام کو کچھ پتہ نہیں کون سی جماعت معاشی معاملات کو درست کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اقتدار میں آنے والوں کی ترجیحات بیرون ملک اثاثے اور حزب مخالف کے خلاف مقدمات بنانے کے سوا اور نہیں۔ جمہوریہ چین ہمارے بعد آزاد ہوا۔ بھارت ہمارے ساتھ آزاد ہوا بنگلہ دیش کو دیکھ لیں اس کے زرمبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں جب کہ ریاست پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر قرضوں پر چل رہے ہیں۔ ہمارا ملک معاشی طور پر ایک ایسی کھائی میں پڑا ہے جہاں سے نکلنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کو ملک کی خاطر اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر ملک کی ترقی کے لئے سر جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت جو صورت حال ہے جس میں اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو خدشہ ہے کہیں بانی پی ٹی آئی باہر آگیا تو جانے کیا ہو جائے گا حالانکہ کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ سیاست دان جیلوں میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے بشمول پی ٹی آئی تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کے لالچ کو پس پشت رکھتے ہوئے ملک کی معاشی حالت کو سدھارنے کی سوچیں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے ملک و قوم کے مستقبل کی فکر کریں۔ تاسف ہے جمہوریت کے دعویٰ داروں نے پہلے نیب قوانین میں ترامیم کیں، جس کے بعد آئین میں ترمیم کرکے عدالتی نظام کا ستیاناس کر دیا۔ عدلیہ میں جو ناپسند ہو اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ جن سیاسی رہنمائوں کے خلاف مقدمات ہیں انہیں زیر التواء رکھ کر من پسند ججوں کے سپرد کیا جاتا ہے۔ کیا جمہوری نظام حکومت میں یہی کچھ ہوتا ہے ؟ ملک کا نظام کب تک بیساکھیوں کے سہارے چلتا رہے گا۔ ملک کی معاشی حالت درست کرنے کیلئے سپہ سالار آگے آئے، سیاست دانوں کے لئے باعث شرم ہے۔ سیاست دانوں نے مبینہ کرپشن کے ریکارڈ قائم کرکے اپنی اور ملک کی ساکھ دائو پر لگا دی ہے۔

جواب دیں

Back to top button