Column

ثنا خوان تقدیس ’’ ریاست‘‘ کہاں ہیں؟

تحریر : حافظ محمد قاسم مغیرہ
تقدیس ریاست کے ترانے گنگنانے کی رت آگئی ہے اور دانشور خون دل میں انگلیاں ڈبو کر ریاست کی تقدیس کے نغمے لکھ رہے ہیں۔ یہ گیت جب ’’ ریاست کی رٹ‘‘ کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں تو سماعتوں میں رس گھولتے ہیں لیکن ایک طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ریاست کی تقدیس کے ان ترانوں کا شور اتنا زیادہ ہے کہ ریاست کی ذمہ داریوں کی صدا کسی کو سنائی نہیں دیتی، اگر سنائی دیتی ہے تو سمجھ نہیں آتی، اگر سمجھ آتی ہے تو عمل کی توفیق نہیں ہوتی۔ عموماً ریاست کی ذمہ داریوں پر بات نہیں ہوتی، دانشور اس موضوع پر اپنے قلم کو جنبش نہیں دیتے اور ریاست کی ذمہ داریاں کسی بیانیے کا حصہ نہیں بنتیں، سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں بھی ریاست کی ذمہ داریاں شامل نہیں ہیں، ان کے نزدیک سیاست ریاست کے نظم و نسق کے بجائے صرف اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کا نام ہے۔ یہ نکتہ غور طلب ہے کہ ریاست کی رٹ جو قائم ہے اور ریاست کا تقدس جو برقرار ہے، پر اتنے زور و شور سے بات کیوں ہوتی ہے جبکہ ریاست کی ذمہ داریوں پر بات کرنا جذباتیت اور کج فہمی کیوں کہلاتا ہے؟ دانشور، لوگوں کے ذہنوں میں ریاست کا ایک ایسا تصور، جس کی رو سے ریاست صرف جبر کا نام ہے، کیوں راسخ کرنا چاہتے ہیں؟، اور ریاست کے تقدس کا یہ شور اتنا بلند ہے کہ ریاست کی ذمہ داریوں کی بات کرو تو لوگ ہونکوں کی طرح دیکھتے ہیں کہ ہائے یہ کیا کہہ دیا۔
امر واقعہ یہ کے کہ پاکستان کے عام آدمی نے کبھی ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کیا، کبھی اس کے تقدس کو مجروح نہیں کیا۔ لوگ بروقت یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی کر دیتے ہیں، ٹریفک کے اشارے پر رک جاتے ہیں، عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے کے باوجود چوری اور ڈکیتی نہیں کرتی۔ ریاست کی نااہلیوں کے باوجود عوامی سطح پر ایک ٹھہرائو اور سکون کا ماحول ہے، اضطراب کی کوئی کیفیت لوگوں کے دلوں میں ہو تو ہو، لیکن اب تک وطن عزیز کے تمام ریاستی ادارے عوام کے غیظ و غصب سے محفوظ ہیں۔ عوام کی طرف ریاست کے تقدس کی حفاظت کی بھرپور یقین دہانی کے باوجود ، ریاست عوام سے کیا سلوک کرتی ہے؟۔
کیا ریاست اینٹ گارے سے بنی سرکاری عمارتوں کا نام ہے؟، کیا کسی شخصیت کا نام ریاست ہے؟، کیا کسی شخصیت کا وجود اتنا بڑا ہے کہ اس پر تنقید ریاست سے بغاوت کے زمرے میں آتی ہے؟، یہ کس قانون کے تحت روا ہے کہ ریاست کے تقدس کے نام پر کسی پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے؟، صرف ریاست کے تقدس کا ہی شور کیوں ہے؟ ، ریاست کی ذمہ داریوں پر بات کیوں نہیں ہوتی؟، آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ریاست جس کے تقدس کی حفاظت کے لیے تمام اخلاقی اور قانونی ضابطے پس پشت ڈال دئیے جاتے ہیں، کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور ریاست تمام وسائل اور صلاحیت رکھتے ہوئے ان کی انجام دہی میں کتنی سنجیدہ ہے؟۔
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو معیاری علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرے۔ ریاست اس ذمہ داری کو کس حد تک پورا کرتی ہے اس سوال کا جواب وطن عزیز کے ہر شہری کو معلوم ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ریاست نے عوام کو معیاری علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کبھی اتنی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جتنی سنجیدگی اور تن دہی سے یہ اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ اتنی مقدس ریاست کے ہوتے ہوئے لوگ نجی ہسپتالوں سے علاج کرتے ہیں۔ ریاست کی اس نالائقی پر ریاست کے تقدس کا کوئی قصیدہ گو اپنے قلم کو جنبش نہیں دیتا۔ اس المیے پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ دانشوروں کے لبوں پر مہر سکوت ثبت ہے۔ آخر وجہ کیا ہے کہ جس ریاست کے نزدیک اینٹ گارے سے بنی عمارتوں کا اتنا تقدس ہے، عام آدمی کا وقار اتنا سستا کیوں ہے؟۔
یہ مقدس ریاست تعلیم کی فراہمی میں اتنی سنجیدہ ہے کہ اس کا تعلیمی نظام طبقاتی تقسیم پیدا کرتا ہے۔ ایک نظام تعلیم سے پڑھنے والے بچے ڈاکٹر، انجینئر اور بیوروکریٹ بنتے ہیں جبکہ دوسرے نظام سے پڑھنے والے بچے مقابلے کی دوڑ سے ہی باہر ہوجاتے ہیں۔ 90ء کی دہائی کے آخر تک سرکاری سکول شان دار نتائج کے حامل تھے، ریاست کی خصوصی دل چسپی کے باعث رفتہ رفتہ یہ ذمہ داری نجی شعبے نے سنبھال لی۔ اب سرکاری سکولوں کے معیار کی بحالی سے ریاست کو اتنی دلچسپی ہے کہ نجکاری کا عمل جاری ہے۔ گزشتہ برسوں میں سرکاری سکولوں کی رگوں میں نیا خون دوڑا دینے والے ایجوکیٹرز کی مستقلی ریاست کو قومی خزانے پر بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ اس مقدس ریاست کو کبھی افسر شاہی، عدلیہ، ارکان اسمبلی اور عساکر پاکستان کی تنخواہیں اور مراعات قومی خزانے پر بوجھ محسوس نہیں ہوتیں۔
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو فوری اور سستا انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ انصاف اتنا فوری ہوتا ہے کہ مقدمات کے فیصلے ہونے میں عمریں بیت جاتی ہیں اور اتنا سستا ہے کہ عمر کی پونجی اس میں خرچ ہوجاتی ہے۔
ثنا خوانان تقدیس ریاست یہ سوال کیوں نہیں اٹھاتے کہ قوم پر آئے پی پیز ایسا عفریت کیوں مسلط ہے؟۔ یہ کہاں کا دستور ہے کہ عوام اس بجلی، جو اس نے استعمال ہی نہیں، کی رقم ادا کریں، ریاست ٹیکسز کی بھرمار سے لوگوں کا جینا دوبھر کر دے ، بجلی بحران پیدا کرکے بے روزگاری میں اضافہ کرے اور لوگوں کے چولہے ٹھنڈے کر دے؟۔
ایک ایسی ریاست جس نے طے کر رکھا ہے کہ قربانی عوام دیں گے اور مراعات سے اشرافیہ لطف اندوز ہوگی، اپنی تقدیس پر اتنی مصر کیوں ہے؟، جس ریاست نے یہ بندوبست کر رکھا ہے کہ عوام الناس ملکی ترقی کے لیے ٹال ٹیکس ادا کریں گے جبکہ برہمن اس ٹیکس سے استثنیٰ ہے، صرف رٹ پر ہی اصرار کیوں کرتی ہے؟، ریاست کی رٹ جسے اشرافیہ کے علاوہ کبھی کسی نے چیلنج نہیں کیا، کے شور شرابے میں ریاست کی ذمہ داریاں کہیں کھو گئی ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ نجی سکولوں اور کالجوں کا معیار سرکاری سکولوں اور کالجوں سے بہتر ہے، نجی رہائشی کالونیاں، ریاست کی ذمہ داری کے دائرہ کار میں آنے والے علاقوں سے زیادہ صاف ستھری ہیں، نجی ادارے اربوں روپے کا منافع کما رہے ہیں جبکہ سرکاری ادارے خسارے میں ہیں، نجی ہسپتال اربوں روپے کما رہے ہیں جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات انتہائی محدود پیمانے پر دستیاب ہیں۔ جو حکومت عوام کو صحت، تعلیم، انصاف اور عزت نفس فراہم نہ کر سکے، تھوڑی سی تنقید پر کیوں گھبرا جاتی ہے، ریاست کے تقدس اور ریاست کی رٹ کا کارڈ کیوں کھیلنا شروع کر دیتی ہے؟، ریاست صرف سزائوں، جرمانوں اور تعزیرات کا نام نہیں ہے۔ ریاست قانون کی بالادستی ، انصاف، خوش حالی، عزت نفس، تعلیم اور پائیدار ترقی بھی ہے۔ ریاست کی رٹ قائم ہے، ریاست اس کی فکر نہ کریں۔ اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دیں۔

جواب دیں

Back to top button