ColumnQadir Khan

بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے خون سے رنگے علاقے

تحریر : قادرخان یوسف زئی
پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ ایک پیچیدہ اور گہرا بحران ہے، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے قومی سلامتی کو ہلا کر رکھے ہوئے ہے۔ اس نے نہ صرف بے گناہ شہریوں کی جانوں کا نقصان کیا ہے، بلکہ معاشی، سماجی اور سیاسی سطح پر بھی مملکت کو سخت مشکلات میں مبتلا کر رہا ہے۔ جنوری 2025ء میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں ایک نیا اضافہ دیکھنے کو آیا، جس نے خوف اور بداعتمادی کی نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ یہ نہ صرف ملک کے عوام کے لیے ایک سنگین چیلنج بن گیا ہے بلکہ ملک کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔
وطن عزیز کے مختلف حصوں میں، خاص طور پر قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں، دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ فتنہ الخوارج اور بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے) جیسے گروہ اپنے آپریشنز کو وسعت دیتے ہوئے نہ صرف سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ عام شہریوں کی زندگی بھی اجیرن بنا دی ہے۔ ان گروپوں کی کارروائیاں ایک طرف قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں تو دوسری طرف معاشرتی اور سیاسی استحکام کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ جنوری 2025ء میں عسکریت پسندوں کی طرف سے 74حملے کیے گئے جن میں 120افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں 52سیکیورٹی اہلکار، 20سویلین اور48عسکریت پسند شامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ 120افراد زخمی ہوئے جن میں 53سیکیورٹی اہلکار، 54عام شہری اور 13عسکریت پسند شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار سرد اور بے رحم ہیں، مگر اس کے پیچھے چھپے انسانی کہانیاں زیادہ تکلیف دہ اور دلگداز ہیں۔ ہر شہید ہونے والا فرد ایک کہانی کا حصہ ہے، اور ہر زخمی انسان کی زندگی میں ایک نیا درد اور غم شامل ہوتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے سیٹلڈ اضلاع میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں 27حملی ہوئے جن میں 19افراد شہید ہو گئے۔ ان میں سیکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کا خون شامل ہے، جن کے خاندانوں کی زندگی میں ایک اندھیرا چھا گیا ہے۔ایک کہانی کسی عام شہری کی ہو سکتی ہے، جس کا بھائی ایک حملے میں شہید ہوا۔ اس کے خاندان کے لیے وہ دن ایسا دن بن گیا جس کے بعد ان کی زندگی کا توازن ہی بگڑ گیا۔ ایک سیکیورٹی اہلکار کی بیوی کا درد بھی کم نہیں، جو اپنے شوہر کی قربانی پر فخر محسوس کرتی ہے مگر جب رات کے وقت وہ اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں اکیلی ہوتی ہے، تو دل میں ایک خوف چھپتا ہے۔ یہ خوف اسی دہشت گردی کا ہے جس کا شکار پورا پاکستان بن چکا ہے۔ بلوچستان میں بھی دہشت گردوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی ( بی ایل اے) نے 24حملوں میں 55افراد کی جان لے لی، جن میں 28سیکیورٹی اہلکار، 6عام شہری اور 21عسکریت پسند شامل ہیں۔ ان حملوں میں قلات کے علاقے میں ایک حملہ خاص طور پر دردناک تھا، جہاں 18سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شہید ہوئے۔ یہ حملہ گزشتہ ایک سال کے دوران کسی ایک حملے میں ہونے والی سب سے بڑی جانی نقصان کی عکاسی کرتا ہے۔ بلوچستان کی سرزمین بھی خون کی ندیاں بہا چکی ہے، اور اس کے لوگوں کی چیخیں اب بھی خاموش نہیں ہو پائی ہیں۔
یہ جو حالات ہیں، یہ اس امر کا غماز ہیں کہ دہشت گردی نہ صرف فوج یا حکومت کے خلاف ایک جنگ ہے، بلکہ یہ ایک پورے سماج کی تباہی کا سبب بن رہی ہے۔ ان حملوں کے اثرات ہماری معاشرتی تانے بانے پر گہرے ہیں، اور یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معقول نتائج کو بھی سوالیہ نشان بنا رہی ہے۔ کیا ان کارروائیوں کو صرف طاقت کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے؟ کیا ان گروپوں کی عصبیت کا علاج صرف فوجی آپریشنز سے ممکن ہے؟ یہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کے ذہن میں گونجتے ہیں، اور ان کا جواب تلاش کرنا اب ایک قومی ضرورت بن چکا ہے۔ اب تک حکومت کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف متعدد فوجی آپریشن کیے گئے ہیں۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں کچھ حد تک کامیابیاں ملی ہیں، مگر دہشت گردی کی جڑیں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ انہیں ختم کرنا ایک طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنے داخلی اور خارجی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ محض فوجی آپریشنز سے اس بحران کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ ہمیں معاشی استحکام، سیاسی مفاہمت، اور عوامی شعور کی سطح پر بھی کام کرنا ہوگا۔
جنوری میں دہشت گردی کے حملوں کے بعد کی صورت حال میں ایک اور پہلو دہشت گردوں کی پراپیگنڈا مہم بھی قابل ذکر ہے ۔ یہ گروہ سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے عوام میں خوف اور بد اعتمادی پیدا کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد صرف عسکریت پسندوں کی موجودگی کا تاثر دینا نہیں بلکہ حکومت اور عوام کے درمیان تعلقات کو بھی خراب کرنا ہے۔ اس کے رد عمل میں حکومت نے ڈیجیٹل دہشت گردی کے خلاف اقدامات اٹھانے شروع کیے ہیں، مگر یہ حکمت عملی بھی کسی حد تک تنقید کی زد میں ہے۔ حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اصطلاح حکومت کے خلاف جائز تنقید کو دبانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے، اور سوشل میڈیا پر قابو پانے کی کوششیں صرف آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی کا باعث بن سکتی ہیں۔ بہرحال، ان اقدامات کے پیچھے ایک بڑا مقصد عوام کو سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی جھوٹی خبریں اور افواہوں سے بچانا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حملوں اور ان کے نتائج نے ایک نیا چیلنج سامنے رکھا ہے، جس کا حل نہ صرف عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کے میدان میں بلکہ معاشرتی اور سیاسی سطح پر بھی ہونا چاہیے۔ قومی مفاہمت، اقتصادی استحکام، اور تعلیمی میدان میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ان مسائل کی جڑوں تک پہنچا جا سکے۔ اگر ہم ان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ لمحہ ایک نیا موڑ ہے۔ ہمیں اپنی سیاست، اپنی معیشت، اور اپنی سکیورٹی کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس چیلنج کا مقابلہ کر سکیں۔ صرف عسکری طاقت سے کچھ نہیں ہوگا؛ یہ جنگ ایک ذہنی تبدیلی، ایک سیاسی اتفاق رائے اور ایک معاشرتی عزم کی جنگ بن چکی ہے۔ پاکستان کا عوام اور اس کی فورسز دہشت گردوں کے خلاف اس جنگ میں اپنے خون کا نذرانہ دے رہے ہیں، اور ان قربانیوں کی قدر کر کے ہمیں اس وطن کو امن اور سکون کا گہوارہ بنانا ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button