۔رات کا تیسرا پہر اور مصالحتی کمیٹیاں۔۔۔

تحریر : امجد آفتاب
ایک دفعہ بغداد میں ایک وزیر نے بڑھیا کے مال و اسباب پر دست درازی کی اس کے حقوق و اموال ضبط کر لیے، بڑھیا بیچاری روتی پیٹتی اس کے گھر گئی اور ظلم و جبر کا ذکر کیا مگر اس نے کوئی پروا نہ کی اور نہ توبہ کی، بڑھیا نے کہا میں تجھے بددعا دوں گی۔ تب وہ بڑھیا کا مذاق اُڑانے لگا اور بولا جاجا رات کے تیسرے پہر میں بددعا دینا، اس نے اپنے فسق و طاقت کے غرور میں ایسا کہا تھا لیکن بڑھیا نے اس پر عمل شروع کر دیا کچھ ہی دنوں بعد وہ معزول ہوا اس کے اموال چھین لیے گئے۔ جائیداد ضبط ہوئی اور بیچ بازار کوڑے لگائے جانے لگے کیونکہ لوگوں پر خوب ظلم ڈھائے تھے۔ بڑھیا وہاں سے گزری اور اُس سے کہا ’’ تو نے صحیح مشورہ دیا تھا، رات کے تیسرے پہر کو میں نے بہت اچھا پایا‘‘۔
رات کا یہ حصہ بہت ہی قیمتی اور گراں قدر ہے اس میں رب العزت فرماتا ہے:’’ کوئی مانگنا والا ہے میں اسے دوں، کوئی مغفرت چاہتا ہے میں اس کی مغفرت کروں، کوئی پکارنے والا ہے میں اُس کی پکار سنوں‘‘۔
یقین جانیں یہ پہر بندے اور خدا کے درمیان انتہائی سعادت والی گھڑی ہوتی ہے اب بندے کو چاہیے وہ اسے پائے اور اپنے پروردگار سے مغفرت بھی حاصل کرے اور بے شمار نعمتیں بھی۔
میں نے جب سے کالم لکھنے شروع کیے تب سے میرا واسطہ اس پہر سے زیادہ پڑا ہے۔ اب یہ میرا معمول ہے کہ جب میں کسی موضوع پر کالم لکھنے کا فیصلہ کرتا ہوں تو رات کو جلد ہی سو جاتا ہوں تاکہ پانج چھ گھنٹے کی نیند کے بعد جاگ جائوں اور منتخب کردہ موضوع پر لکھنا شروع کر دوں۔ ایک بات بتاتا چلوں میں نے آج تک جتنے بھی کالم لکھے ہیں اُن میں سے تقریبا نوے فیصد اسی پہر کے لکھے ہیں، اور اب یہ کالم جو میں لکھ رہا ہوں وقت رات کے پونے تین بج چکے ہیں۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس پہر کو انسان کا دماغ دن کی نسبت زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے اور اگر کوئی لکھاری اس وقت سے فائدہ اُٹھائے تو یہ اُس کے لیے بہت بہتر رہے گا رب العزت سے بات کا شرف بھی، اور وہ اپنی تحریر بھی بہتر طریقے سے لکھ پائے گا۔
اب میں اپنے دوسرے موضوع کی طرف آتا ہوں گزشتہ ماہ کی 26تاریخ کو تمام اخبارات نے ایک کانفرنس کو نمایاں کوریج دی جو لاہور ہائیکورٹ بار کے زیر اہتمام مصالحتی کانفرنس کے عنوان سے منعقد کی گئی۔ جس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ بھی شرکت کی، انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ لوگ سالہا سال کیس چلنے سے تنگ آچکے، مصالحتی نظام کیلئے ٹریننگ جاری ہے، کچھ ہماری، زیادہ تر وکلاء کی وجہ سے مسائل ہیں، ہڑتال وغیرہ کے باعث مقدمات لٹک جاتے ہیں ، جسٹس منصور علی شاہ اپنے خطاب میں مزید فرمایا کہ مصالحتی نظام ہمارے کلچر کے مطابق ہے جو مسائل کو اچھے طریقے سے حل کر سکتا ہے، اس نظام سے معاشرتی مسائل بھی پیدا نہیں ہوں گے، اس نظام کے لیے قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں، ہم لوگوں کو ٹریننگ کرا رہے ہیں جو احسن طریقے سے مصالحت کرائیں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ 2023میں پورے پاکستان میں 17لاکھ کیسز کا فیصلہ کیا، ہمارے کیسز آج بھی ویسے ہی پڑے ہیں، ہمیں سائلین کے لیے راستہ نکالنا پڑے گا، ہمیں لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے متبادل طریقے اپنانے پڑیں گے، اس وقت 10لاکھ لوگوں کے لئے صرف 13جج ہیں، ججوں کی تعداد بہت کم ہے، موجودہ عدالتی نظام کے اپنے مسائل ہیں، زیادہ تر مسائل وکلا کی وجہ سے ہیں ہماری وجہ سے بھی ہیں، مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے، ہمارے ہاں ہڑتال سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے مقدمات لٹک جاتے ہیں، ہمیں پرانا کلچر چھوڑنا پڑے گا، اہم مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے کیونکہ دیگر کیسز کی بھرمار ہے، اب سوچنا یہ ہے کہ صرف ایک ہی عدالت کا دروازہ نہیں، ثالثی اور مصالحتی نظام کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، مصالحتی نظام اپنانا اب لازم ہو چکا ہے، سائل کے پاس حق ہو کہ پہلے مصالحتی طریقہ اپنائے، عدالتی اور مصالحتی نظام میں بہت بڑا فرق ہے، مصالحتی نظام میں فیس کم ہو گی اور لوگوں کے مسائل زیادہ حل ہوں گے، اس نظام سے وکلا کے لیے معاشی مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔
اس نظام کے تحت ایک ہی دن میں کیسز کے فیصلے ہو سکتے ہیں، مصالحتی نظام ہمارے کلچر کے مطابق ہے جو مسائل کو اچھے طریقے سے حل کر سکتا ہے، اس نظام سے معاشرتی مسائل بھی پیدا نہیں ہوں گے۔
اس نظام کے لیے قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں، ہم لوگوں کو ٹریننگ کروا رہے ہیں جو احسن طریقے سے مصالحت کروائیں گے، مصالحت کے نئے قانون کے بعد عدالتیں ایک سائیڈ پر چلی جائیں گی، عوام سالہا سال کیس چلانے سے اب تنگ آ چکے ہیں، لوگوں کو بتائیں کہ مصالحتی نظام ان کے مسائل کا حل ہے۔ جسٹس جواد کانفرنس اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمیں وکلا کی ذہنیت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، مصالحت 2گھنٹوں یا 2دنوں میں ہو سکتی ہے، سپریم کورٹ نے ایک ٹاسک فورس بنائی کہ ہمیں کیسز کا بیک لاگ ختم کرنے کی ضرورت ہے، ہر قانون کہہ رہا ہے کہ پارٹیوں کو مصالحت کی جانب جانا چاہیے مگر اس میں لازمی مصالحت کا لفظ نہیں ہے، پاکستان میں مصالحت کے قوانین موجود ہیں مگر لوگوں کے اختیار کے باعث ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا، سپریم کورٹ نے 5فیصلے جاری کیے کہ ہر شخص کو مصالحت کی جانب جانا چاہیے، ہم واحد ملک رہ گئے ہیں جو پرانے 1940ء کے مصالحتی ایکٹ کو لے کر چل رہے ہیں، انڈیا نے 1996 ء میں کیا اپنا نیا مصالحتی ایکٹ بنا لیا تھا، گزشتہ 84سالوں میں1940ء کے مصالحتی ایکٹ کے حوالے سے صرف 56فیصلے آئے، صرف لاہور ہائیکورٹ میں گزشتہ سال 20فیصلے مصالحت کے حوالے سے جاری ہوئے۔ جسٹس سلطان تنویر احمد نے کہا وکلاء کو مصالحتی سینٹرز سے مالی معاملات متاثر ہونے کے ڈر سے باہر آنا ہوگا، آپ ان مراکز سے پیسہ کما سکتے ہیں، یہ وکلا کی ذمہ داری ہے کہ سائلین کو مصالحت کی جانب لے جائیں، سائل کے پاس حق ہو کہ پہلے مصالحتی طریقہ اپنائے، عدالتی اور مصالحتی نظام میں بہت بڑا فرق ہے، مصالحتی نظام میں فیس کم ہو گی اور لوگوں کے مسائل زیادہ حل ہوں گے، اس نظام سے وکلا کے لیے معاشی مسائل پیدا نہیں ہوں گے، اس نظام کے تحت ایک ہی دن میں کیسوں کے فیصلے ہو سکتے ہیں۔ اب معزز جج صاحبان کے مصالحتی نظام کے حق میں تجزیے سے بہتر نہ تجزیہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی عوام کی ترجمانی، بس پاکستان کا عام آدمی اس بات کے لیے پر امید ہے کہ بہت جلد مصالحتی نظام کے اس سسٹم کو عملی جامع پہنایا جائے گا تاکہ عام عوام کو جلد انصاف مل سکے۔