ColumnTajamul Hussain Hashmi

اللہ اللہ خیر صلا

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
میرے ساتھ ایک مسئلہ رہا ہے، اس کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کی اور کافی حد تک تو کامیاب رہا لیکن انسان ہوں، ابھی بھی سمجھتا ہوں کہ مجھ میں بہت ساری کمی ہے۔ مسئلہ کوئی کچھ خاص نہیں لیکن مسئلہ بھی ہے لیکن اس کی وجہ سے کافی متاثر رہا۔ میں نے دیکھا ہے زمانے کی مار اور حالات سے متاثر انسان باادب نہیں رہتا اور اس کے پاس سبق سکھانے اور تجربات کا چیپٹر ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، میری والدہ کہتی تھی کہ میرا بیٹا بہت سیدھا ہے، اس کو زمانے کی چالاکیاں نہیں آتیں اس لئے مشکل میں آجاتا ہے۔ مجھے جب کوئی بہن بھائی یہ کہتا تھا کہ یہ بڑا سیدھا ہے اس کو سمجھ نہیں کہ زمانے کے ساتھ کیسے چلنا ہے، مجھے بھی اپنے سیدھے پن کی سمجھ نہیں تھی کہ یہ سیدھا پن کیا ہوتا ہے؟ مجھ میں کون سی کمی تھی اس کی سمجھ نہیں تھی۔ زندگی میں محبت، اخلاق، پیار سب تھا لیکن پھر بھی میں الجھو تھا، سب کچھ کرنے کے بعد بھی کوئی مجھ سے خوش یا مطمئن نہیں تھا۔ لیکن میں بھی بڑا پکا تھا۔ لوگوں کی باتوں کے باوجود اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ خوب محنت کی، کئی کاروبار کئے، کامیابی نہیں ملی، ہمت نہیں ہاری۔ اب جبکہ آدھی عمر گزر چکی ہے۔ والدہ بھی نہیں رہیں۔ زمانے کے ساتھ چل رہے ہیں۔ ہمیں اپنے اس سیدھے پن کی سمجھ آگئی ہے، جو میری والدہ جی کہتی تھیں۔ ان باتوں کی سمجھ آ گئی جو وہ بتایا کرتی تھیں۔ آج میں آپ کو اس سیدھے پن کی حقیقت بتاتا ہوں کہ سیدھا پن کس چیز کا نام ہے، جس کی وجہ سے بہت ساری مشکلات کا سامنا رہا۔ اس سادھے پن سے چھٹکارے کا آسان طریقہ کار ہے اور میرے جیسے کئی سیدھے پن والے سکون اور اطمینان سے رہ سکتے ہیں۔ مجھے دو رخی تعلق پسند نہیں تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ انسان کو ایک رخ والا ہونا چاہئے، صاف رویے والا ہونا چاہئے۔ ہاں یا ناں میں فیصلہ کرے۔ میں سب کو اپنی سوچ جیسا چاہتا تھا۔ اس بات کو لے کر میرے ساتھ اپنی ہی فیملی، احباب اور دوستوں کے ساتھ مسائل رہتے تھے، کیوں کہ رشتے ناتے یا دنیا کبھی بھی ایک رخ پر نہیں چلتی۔ اس بات کی سمجھ اب آئی ہے۔ ازل سے ابد تک انسان کے دو رخ ہی ہیں اور رہیں گے۔ اس کو کوئی کبھی تبدیل نہیں کر سکتا۔ دوسرے انسان کو اپنی سوچ جیسا تصور کرنا کم عقلی ہے۔ یہی کمی ہے جس کا ہم جیسے سادھے لوگ شکار ہوجاتے ہیں۔ انسان ایسے حالات سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے، اس کیلئے پہلا کام کہ انسان کو اپنی فیصلہ سازی میں بہتری لانی چاہئے۔ فیصلہ کیلئے اسے پہلے ایسے فرد سے مشورہ کرنا چاہئے جو انسانوں کے دو رخوں، رویوں کی سمجھ کا ماہر ہو، یہ فیصلہ سازی آپ کی کامیابی کی راہ متعین کرے گی۔ ہم لوگ اکثر اس میں مار کھا جاتے ہیں، ان افراد کو شامل کر لیتے ہیں جو یا تو وہ آپ کے ہمدرد نہیں ہوتے یا پھر وہ مشورہ کے اہل نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں سب کام بغیر سوچے سمجھے کئے جاتے ہیں، دوسرے کی باتوں سے متاثر ہوکر اپنی زندگی کو متاثر کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ پاک نے ہر فرد کو دوسرے سے مختلف رکھا ہے۔ ایکشن کے بعد سوچنے بیٹھتے ہیں۔ انتہا کی انا کا شکار ہیں۔ ایک واقعہ یاد ہے لیکن ملک اور شخص کا نام بھول گیا ہوں۔ ایک بڑے مشہور وکیل تھے، وہ کہتے تھے ’’مسلمان اور ہندو مقدمے کیلئے میرے پاس آتے تھے لیکن ہندو بات بہت جلد سمجھ جاتا تھا۔ میں اس کا کیس دیکھ کر اس کو مشورہ دیتا تھا کہ آپ مخالف سے صلح کرلو بہتر ہے، آپ کیس ہار جائو گے۔ وہ میری بات مان لیتا اور اگر کسی مسلم کو یہ مشورہ دیتا تو وہ اس مشورے کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ کہتا کہ میں اور میری نسل اس کیس کو چلائے گی، بس آپ کیس تیار کرو‘‘۔
حقیقت یہی ہے کہ ہم سال ہا سال تعلقات ختم رکھتے ہیں اور اپنا اور دوسرے کا نقصان بھی کرتے ہیں، یہ مشورہ منافق کیلئے نہیں ہے، اس سے دوری اچھی۔ ایک بابا نے مجھے کہا کہ بیٹا انسانوں کے چکر میں رہو گے تو کہیں کے نہیں رہو گے، اللہ کے چکر میں جائو، جہاں سب کچھ ملے گا۔ انسان سے نفرت مت کرو، ہر انسان خوبی اور خامی کا مالک ہے۔ اس کی خامی سے دور رہو۔ ایک خامی کو لے کر پورے انسان سے نفرت اچھی بات نہیں، میں سچا، میں سچا اور میں، میں، کی رٹ انسان کو تنہا کر دیتی ہے۔ میں نے یہ بات اپنے پلے باندھ لی۔ اب میں مشکل میں اپنے اللہ کے پاس جاتا ہوں، رب سے باتیں کرتا ہوں، اپنے سکھ دکھ سناتا ہوں۔ اس سے مدد مانگتا ہوں۔ دنیا کا ہر انسان اپنی زندگی کے مطابق دوسرے سے تعلق استوار رکھنا چاہتا ہے۔ ہمارے قریبی دوست کہتے ہیں کہ کتنی تکلیف دہ بات ہے، ہمارے کئی دوست مجھے اپنے لیول پر لانے کی کوشش میں رہتے ہیں، دیکھو بھائی جو انسان چوتھی سیڑھی پر کھڑا ہو وہ کیسے پہلی سیڑھی پر آئے گا، ہر کوئی دوسرے کو اپنے لیول پر لانے میں لگا ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے تعلقات اور رشتوں میں اختلافات، افراتفری میں اضافہ ہے، بے سکونی ہے۔ سب ایک انجان دوڑ میں بھاگ رہے ہیں۔ ایک پل کا کسی کو پتہ نہیں کہ وہ جی پائے گا یا نہیں۔ انسان ذہنی دبائو کا شکار انہی وجوہات سے ہے، دبائو سے نجات اور سکون کے چکر میں موبائل کا استعمال بڑھ چکا ہے، جس کے انسانی دماغ پر کئی طرح کے اثرات مرتب ہورہے ہیں، فمیلیز کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔
آپ ذہنی کشمکش سے نکلنے کیلئے سائیکالوجسٹ سے مدد لے رہے ہیں۔ سائیکالوجسٹ نے مجھے بتایا کہ کسی بھی چیز پر اس قدر غیر ضروری انحصار ذہنی اور جسمانی لحاظ سے غیر صحت مند ثابت ہوسکتا ہے، لہٰذا اس پر توجہ دینا ہوگی۔ عمومی طور پر انسان کو اپنی زندگی کی اور خصوصی طور پر اپنے رشتوں اور سوشل لائف کی کوالٹی بہتر کرنے کا مشورہ دیا۔ ہمیں سوشل میڈیا کم کرکے دیگر مشاغل یعنی کتابوں، اسلامی عبادات اور ورزش میں دل لگانا چاہئے۔ ذہن سے بادل چھٹنا شروع ہو جائیں گے۔
سالوں کا منفی غبار کم سے کم ہوگا، کوشش جاری رکھیں، آپ کا سیدھا پن بہتر ہو جائیگا۔
باقی اللہ اللہ خیر صلا!

جواب دیں

Back to top button