نشانہ
تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)
ریاستوں کے باہمی تعلقات کا انحصار ریاستی مفادات میں پوشیدہ ہوتا ہے اور ریاستی مفادات ہی تعلقات کی حیثیت طے کرتے ہیں تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ سفارتی آداب و کوششیں ان تعلقات کی گرم جوشی و گہرائی کو مزید وسعت دیتی ہیں۔ عالمی سطح پر ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ کوئی ریاست اپنے تعلقات بہتر کرنے کے لئے، کسی دوسری ریاست کے تعلقات میں بدگمانیاں پیدا کرے، شکوک و شبہات پیدا کرے تاکہ اپنی ریاست کے مفادات حاصل کئے جا سکیں۔ اس طرح کا رویہ ہم عام زندگی میں انفرادی سطح پر بھی دیکھتے ہیں کہ کوئی نووارد ،ذاتی مفادات کے لئے دو بہترین دوستوں کے درمیان شکوک و شبہات و بدگمانیاں پیدا کرکے، اپنی قربت کو یقینی بنا لیتا ہے اور فریقین سے بیک وقت اپنے مفادات کشید کرتا رہتا ہے یا بصورت دیگر صرف کینہ پروری، بغض، حسد یا کمینگی دکھاتے ہوئے، دو دوستوں میں تفریق پیدا کر دیتا ہے۔ اس قسم کے روئیے کو بالعموم ٹانگ کھینچنا کہتے ہیں اور جنوب مشرقی ایشیا میں ایسی حرکتیں بالعموم بھارت کی جانب سے دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جو بزعم خود اس خطے کا چودھری بننے کے خواب دیکھتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے اس کا بالخصوص نشانہ پاکستان رہتا ہے اور سفارتی محاذ کے علاوہ بھارت کھیلوں کے مقابلوں میں بالخصوص کرکٹ میں پاکستان کی ٹانگ کھینچنے میں کبھی نہیں چوکا۔ کرکٹ چونکہ دونوں ملکوں میں انتہائی پسندیدہ کھیل ہے اور دنیائے کرکٹ دونوں ممالک کے درمیان کانٹے دار کرکٹ دیکھنے کی متمنی رہتی ہے لیکن بدقسمتی سے بھارت نے گزشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں سے دوطرفہ کرکٹ کا یکطرفہ بائیکاٹ کر رکھا ہے جبکہ عالمی مقابلوں میں بھی پاکستان کے میدانوں میں کرکٹ کھیلنے سے کتراتا ہے۔ 2017ء کی چمپئنز ٹرافی کے مقابلوں میں بھی ، بھارت کی بہت سی نامورشخصیات سے جس طرح پاکستانی کرکٹ کے متعلق ہرزہ سرائی کی،وہ کبھی نہ بھولی جانے والی ہے لیکن پاکستان کی شکست کے پس پردہ جو محرکات رہے،جس طرح بھارت ان مقابلوں میں اثرانداز ہوتا رہا ہے، آج بھی ہونے کی کوششوں میں رہتا ہے،کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔تاہم اس چمپئنز ٹرافی کے فائنل سے قبل جس طرح کی ہرزہ سرائی اور متکبرانہ انداز بھارت کی جانب سے سامنے آیاتھا،اس نے نہ صرف ارباب اختیار بلکہ کرکٹ کے کرتا دھرتائوں کے لئے منہ چھپانے کی کوئی جگہ نہ چھوڑی تھی،اور انہیں کرکٹرزکو اپنے صحیح کھیل ،کھیلنے کی اجازت دینے پر مجبور کردیا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھرپور جان لڑا کر وہ فائنل جیت کر،بھارتی غرور کو خاک میں ملا دیا تھا۔بہرکیف یہ تذکرہ موجودہ حالات کے تناظر میں برمحل ہی ہے کہ ریاستیں اپنے پڑوسی نہیں بدل سکتی اور انہیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ہی رہنا ہوتا ہے خواہ کچھ بھی ہو جائے تاہم اپنے ملک کے اندر حالات کو معمول کے مطابق رکھنے کے لئے،اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ بااعتماد اور گرم جوش رکھنا ہوتا ہے تا کہ پڑوسیوں کی جانب سے کسی قسم کی بدامنی کی شرارت نہ ہوسکے۔ جو کامیاب خارجہ پالیسی ہی کی بدولت ممکن ہے۔
پاکستان کے خارجہ تعلقات کے حوالے سے کبھی بھی ایسا گمان نہیں گزرا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسیاں ،پاکستان کے دوستوں میں اضافے کا باعث بنی ہوں۔ بالعموم یہی سننے کو ملا ہے کہ حکمرانوں نے فلاں ریاست کو ناراض کردیا یا فلاں ریاست ہم سے ناراض ہو گئی،فلاں سے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہو گئی یا فلاں نے پاکستان کو ’’ ڈو مور‘‘ کہہ دیا، یا پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی ایک ریاست کے زیر اثر ہے اور آزاد نہیں،لہذا ہم ایک ریاست کو خوش کرنے کے چکر میں کئی دوسری ریاستوں کو ناراض کر بیٹھتے ہیں۔خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہمارے تاریخی حقائق کیا ہیں، بیشتر پاکستانی اس سے بخوبی واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ ریاست پاکستان کی خارجہ پالیسی کن کے ہاتھوں میں رہی ہے اور کیونکر غیر متوازن رہی ہے۔سراٹھا کر جینے کے لئے یا آزاد خارجہ پالیسی رکھنے کے لئے ،سب سے پہلی مطلوبہ حقیقت، مضبوط معیشت ہے،جس کا ریاست پاکستان میں شدید فقدان ہے کہ اس کے بغیر اقوام عالم میں سراٹھا کر جینا ممکن ہی نہیں اور نہ ہی قرض کی مے پینے والے اپنی آزاد خارجہ پالیسی اختیار کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان نے اپنی معیشت کی بنیاد جس چیز میں ڈھونڈی ہے،وہ وقتی تو رہی ہے لیکن وہ کسی بھی ریاست کے لئے مستقل معاشی مضبوطی کی بنیادتصور نہیں ہو سکتی۔ جنرل ضیاء کے دور سے شروع ہونے والی اس معاشی پالیسی نے ریاست پاکستان کو اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہونے دیا جبکہ رہی سہی کسر جنرل ضیاء کی لگائی سیاسی پنیری نے پوری کر رکھی ہے کہ آج ہماری معیشت کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کا طفیلی بنا چکی ہے۔ سب سے بڑا نقصان امریکہ کی جنگوں میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرکے ڈالر وصول کرنے کی صورت ہوا ہے کہ جنرل ضیاء نے اپنے دورحکومت کو بچانے کے لئے جس طرح افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت کا چورن امریکہ کو بیچ کر ،پاکستان کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیلا،اس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ہم سوویت یونین کے حصے بخرے کرنے کا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جن مجاہدین،تب کے مجاہدین اور امریکی جارحیت میں وہی دہشت گرد، کی آڑ میں ہم نے یہ کھیل کھیلاتھا،وہی مجاہدین،آج ہمارے خلاف کیوں ہیں؟کتنی عجیب بات ہے کہ افغان مہاجرین کو سب سے زیادہ سہولت پاکستان نے دی لیکن انہی افغان مہاجرین کی اکثریت آج پاکستان کے خلاف دکھائی دیتی ہے،پاکستان اور پاکستانی مقتدرہ کے خلاف ان کی نفرت ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، حتی کہ کھیلوں کے میدان میں ابھرنے والی افغان ٹیموں کے بیشتر کھلاڑیوں کو کھیل کی بنیادی سہولتیں و مواقع سرزمین پاکستان نے فراہم کئے لیکن عالمی میدانوں میں افغانیوں کا رویہ ،ہر دوصورت جیت یا ہار،حیران کن طور پر پاکستان کے خلاف دکھائی دیتا ہے۔ افغان طالبان حکومت ،جسے ماضی میں بھی پاکستان نے تسلیم کیا تھا ،جب کسی بھی دوسرے ملک نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا اور آج بھی امریکی فوجی انخلاء کے بعد،کس نے کابل میں چائے پیتے ہوئے کامیابی کا جشن منایا تھا؟ دو ؍ اڑھائی سال میں معاملات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں،اس کا اندازہ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ سب کا یہی گمان تھا کہ پاکستان کی ایک سرحد اب لمبے عرصہ کے لئے محفوظ ہو گئی ہے لیکن اس وقت پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ اسی سرحد کی طرف سے ہے۔ اب تو افغان وزیر خارجہ کی ملاقاتیں بھارتی سیکرٹری خارجہ سے بھی ہورہی ہیں ،جن میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہر ریاست کو حق حاصل ہے کہ وہ ساری دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے بالخصوص افغانستان حکومت کے لئے یہ اور بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی ماضی کی روایات کے برعکس عالمی معاملات کو سمجھتے ہوئے، تمام ریاستوں کے ساتھ ساتھ جلد ازجلد بہتر تعلقات قائم کرے لیکن ان تعلقات کے نتیجہ میں پاکستان کو نقصان پہنچانے سے گریز کرے۔ جیسا کہ ماضی میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور حکومت میں، بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھاتے ہوئے افغانستان نے بھارت کو پاکستان کی سرحد کے ساتھ قونصلیٹ کی سہولتیں فراہم کی، جہاں سے بھارت ،افغانستان کی زمین استعمال کرتے ہوئے ،پاکستان کے اندر دہشت گردی کرواتا رہا۔
یہ کس نے سوچا ہو گا کہ امریکہ افغان سرزمین پر رسوا ہونے کے بعد ،اتنی جلدی افغانستان پر اتنا مہربان ہو جائے گا ،میڈیا ذرائع کے مطابق،کہ اسے تین سالوں میں اکیس بلین ڈالرز عنایت کردے گا؟اس سے بھی اہم بات کہ اتنی بڑی رقوم کا استعمال کہاں اور کس مقصد کے لئے ہو رہا ہے، اس میں اب کوئی شک و شبہ نہیں رہ گیا اور یہ حقائق بھی اب سمجھ آ رہے ہیں امریکہ اپنا جدید ترین اسلحہ کیوں افغانستان میں چھوڑ گیا تھا۔ کیوں ٹی ٹی پی کے جتھوں کو دوبارہ پاکستان میں لایا گیا تھا، ان کو لانے والے کون تھے، کم از کم میڈیا پر اب یہ حقائق سامنے آ چکے ہیں اور میں ان پر بوجوہ بات نہیں کرنا چاہتا کہ یہ وقت اس بحث کا ہرگز نہیں ہے کہ ٹی ٹی پی کے ان جتھوں نے جو گھناؤنی حرکت، پاکستان اٹامک انرجی کے سترہ، کم و بیش، ملازمین کو اغوا کرکے کی ہے، اورجس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آٹھ ملازمین کو بازیاب کروا لیا ہے، وہ قابل تحسین و قابل ستائش ہے اور امید ہے کہ تحریر شائع ہونے تک باقی مغویان کو بھی بحفاظت ان دہشت گردوں سے چھڑا لیا جائیگا ان شاء اللہ۔ ایسے مزید واقعات کی روک تھام کے لئے افغان حکومت کو واضح پیغام بھیجا جا چکا ہے کہ ایسی گھنائونی حرکت میں ملوث ٹی ٹی پی کی قیادت افغان سرزمین استعمال کر رہی ہے، اگر اسے روکا نہ گیا تو پاکستان خود ان کے خلاف کارروائی کرے گا اور اس سے قبل بطور نمونہ ایک کارروائی بھی کی جا چکی ہے، تاہم اس سے معاملات مزید الجھیں گے۔ پس پردہ حقیقت یہی ہے کہ امریکی عنایات ہوں یا بھارت کے ساتھ ازسرنو تعلقات ،’’ نشانہ‘‘ پاکستان ہی ہے، باقی سب بہانے اور ٹھکانے ہیں یہی جنرل حمید گل مرحوم نے کہا تھا۔