Abdul Hanan Raja.Column

مرشد، باغی مرید اور تین صد لاشیں

عبدالحنان راجہ
مرشد کی وجہ شہرت روحانیات، مستقبل بارے پیش گوئیاں اور طویل چلہ کشیاں تھیں۔ ان دنوں کپتان کو امپائر کی انگلی نہ اٹھنے کا قلق تو تھا ہی مگر دوسری اہلیہ ریحام خان سے تعلقات میں بگاڑ نے بھی قائد کو مضطرب و بے سکون کر رکھا تھا۔ ایسے میں پہلے پہل مرشد کی صحبت میں گزرے چند لمحے بھی ان کے لیے شفا بخش ثابت ہوتے مگر رفتہ رفتہ لمحات گھنٹوں میں بدلتے گئے۔ بقول کپتان وہ مرشد سے ملاقات کے بعد قلبی سکون محسوس کرتے۔ شو مئی قسمت کہ ان دنوں سیاسی پرواز بھی بلندی پر تھی اور بڑے بڑے سیاسی نام و الیکٹیبلز خزاں رسیدہ پتوں کی طرح ان کی جھولی میں گر رہے تھے اور کپتان اسے مرشد کے کمالات جان کر صدق دل سے دل و جاں اس حد تک نچھاور کر بیٹھے کہ وزیر اعظم بننے کی پیش گوئی اور اس کے لیے شرط عقد میں قبل از وقت بندھن میں بندھ گئے مگر بعد ازاں احساس پر تجدید بھی کر ڈالی۔ مرشد سے بے ترتیب ملاقاتیں دائمی رفاقت میں بدلیں تو کپتان کے سیاسی رنگ بھی بدلنے لگے۔ ان دنوں کپتان کا ستارہ ایسا بلندی پر تھا کہ کپتان کی مخالفت نے ماضی کے بدترین سیاسی مخالفین کو یک جا کیا، کہ ایک کو جئے بھٹو کا نعرہ بھول گیا تو دوسرے کو قائد کا پاکستان بنانا۔ کپتان دونوں جماعتوں کی قبولیت و مقبولیت کی راہ میں ایسی چٹان ثابت ہوئے کہ مخالفین کے تمام سیاسی حربے اور وسائل عاجز آ گئے۔ دوران اقتدار خان مخالفین کے لیے خطرناک ثابت ہوئے تو اقتدار سے علیحدگی کے بعد محسنین کے لیے۔ اس وقت کسی نے کہا تھا کہ کپتان مخالفین سے تو ہارے گا نہیں، البتہ اپنی مقبولیت کے بوجھ تلے ضرور دبے گا۔ سیاسی درویش کی بات سچ ثابت ہوئی اور مقبولیت کے باوجود پے در پے غلط فیصلوں اور ضد سے وہ آج پابند سلاسل، پارٹی بکھیرتی ہوئی اور کارکن در بدر۔ مگر اس پر بھی کھلاڑی رکے نہیں اور اسے استقامت اور حق کا استعارہ قرار دیکر من کو تسلی دینے لگے۔ اب غیر سیاسی مرشد نے رہائی کے بعد رنگ دکھانا شروع کیے تو کھلاڑی ہکا بکا رہ گئے۔ کپتان سمیت کھلاڑیوں پر چند روز قبل تک مرشد کا سحر پہلی بار اس وقت ٹوٹا جب محترمہ بشریٰ بی بی کی ریکارڈ شدہ تقریر جاری کی گئی۔ برادر اسلامی ملک پر ان کے الزام سے مخالفین تو مخالفین پارٹی قیادت بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ پردے کے پیچھے پارٹی قیادت کو ڈھکے کھلے الفاظ میں تنبیہ بھی سب کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہ ہوئی۔ کرامات اور معاملات کا رہا سہا بھرم ڈی چوک جانے کے فیصلے اور کارکنوں کو سنگین حالات میں چھوڑ کر فرار ہو جانے کے بعد تو ٹوٹ ہی گیا۔ وہ کہ جس کے سامنے کھلاڑی تو کھلاڑی کپتان بھی سر تسلیم خم رکھتے تھے مگر پارٹی قیادت کی کور کمیٹی اجلاس میں سلمان اکرم راجہ نے مرشد سے بغاوت کا پہلا پتھر دے مارا اور صاحبزادہ حامد رضا بھی دوری پر مجبور ہوئے۔ یہ نوبت کپتان تک کب پہنچتی ہے معلوم نہیں مگر یہ سچ ہے کہ کھلاڑیوں پر مرشد کا ٹوٹا بھرم اب مزید دائم نہیں رہ سکتا۔ فائنل کال ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے نادان ساتھی بھی کب ہار ماننے والے تھے کہ ان کا سارا ڈھانچہ ہی بہتان تراشی و جھوٹ پر کھڑا ہے.۔ ناکامی چھپانے کے لیے لاشیں گرنے کی دوڑ شروع ہو گئی جس میں شہباز گل 300کے عدد کے ساتھ پہلے، لطیف کھوسہ 278کے عدد کے ساتھ دوسرے، شیر افضل مروت 100اور سلمان اکرم راجہ 20کے عدد کے ساتھ آخری نمبر پر رہے۔ صحافیوں کی تیسری جنس بھی اس دوڑ میں حسب توفیق شامل اور سب سے بڑھ کر باشعور سپورٹرز ان سب روایات پر ایمان کی حد یقین کے ساتھ امتیازی پوزیشن پر۔ ایسے میں حقیقت لکھنے اور کہنے والا بے شعور کیا کہے اور کیا لکھے سوائے ماتم کے. زرا سی عقل و خرد کا حامل شخص بھی نہیں مان سکتا کہ رات دس بجے شروع ہونے والے آپریشن کے کم و بیش دو گھنٹے بعد وفاقی وزرا ٹھیک اسی جگہ پریس کانفرنس کرتے دکھائی دئیے جبکہ اردا گرد بیسیوں کیمرے، صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ موجود اتنے قلیل وقت میں تین سو لاشوں کو غائب کرنا کہ جس کے لیے بیسیوں ایمبولنسسز اور ٹرکوں کی ضرورت، مگر وہاں موجود نمائندگان اور عینی شاہدین نے ایسا کچھ بھی رپورٹ نہ کیا ۔ یہ لاشیں یا ڈی چوک کی زمین کھا گئی یا پھر مرشد کی کرامت کی نذر ہو گئیں پی ٹی آئی ہی اس بارے وضاحت دے سکتی ہے کہ کسی بے شعور کی عقل بھی یہاں عاجز ہے۔ پی ٹی آئی دور حکومت میں جب تحریک لبیک کے احتجاج پر طاقت کا استعمال کیا گیا تو اس وقت لبیک والوں نے بھی یہی غلطی کی کہ جاں بحق ہونے والے کارکن40 تک بتاتے رہے مگر کل اعداد و شمار چھ تھے، جبکہ مظاہرین کے تشدد سے شہید ہونے پولیس اہل کاروں کی تعداد چار.۔ اس وقت بھی انہی سطور میں لبیک کے 40کے دعویٰ کی مخالفت کر کے اپنے پہ حکومتی و بکائو صحافی کا الزام سہا مگر اب تو عدد ہی تین صد تو اب الزامات کا لیول کیا ہو گا یہ آپ بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ جھوٹ کے علمبرداروں کو یہ پتہ نہیں کہ قتل ناحق ایک کا بھی بھاری اور ناقابل قبول۔ ان نادانوں نے جھوٹا پراپپگنڈا کر کے نہ صرف اپنا کیس کمزور کیا بلکہ 300قتل ثابت نہ کر سکنے پر اپنا اخلاقی جواز ایسا کھو بیٹھے کہ نااہل حکومت دلیرانہ انداز میں چیخ چیخ کر پی ٹی آئی سے مقتولین کی فہرست مانگ رہی ہے مگر پی ٹی آئی قیادت ثبوت پیش کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا منہ تک رہی ہے۔ ان کو جھوٹ کی نخوست کا ادراک ہے نہ بہتان کا وبال۔ یہ تو اپنی دھن کے ایسے پکے کہ انہیں پارا چنار اور کرم ایجنسی میں ایک سو سے زائد لوگوں کا خون نظر آ رہا ہے اور نہ اس پر آج تک انہیں رسمی کلمات تک کہنے کی توفیق۔ فی الوقت ہمیں فائنل کال کی ناکامی پر کلام ہے اور نہ مارچ کے مسلح شرکا پر، احتجاج کی آڑ میں ہونے والی سمگلنگ زیر بحث ہے اور نہ غائب ہی ٹی آئی قیادت موضوع بحث. افسوس اس پر کہ پی ٹی آئی کب تک جھوٹے بیانیے گھڑتی، مخلص کارکنوں کے جذبوں کا خون اور بے نام لاشوں میں اپنی ناکامی چھپاتی رہے گی کہ سیاست کے نام پر سچی جذبات اور لاشوں کی سیاست اب بند ہونی چاہیے۔
جھوٹ بولا تو اس پہ قائم بھی رہو ظفر
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button