ColumnImtiaz Aasi

معتوب پی ٹی آئی مظلوم بن گئی

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
وہ اسلام آباد فتح کرنے نہیں آئے تھے ان سے یہی سلوک کرنا تھا تو انہیں وفاقی دارالحکومت داخل ہونے کیوں دیا۔ پنجاب کا ضلع اٹک انہوں نے عبور کیا وہاں کی پولیس کہا ں تھی ۔ ڈی پی او نے بڑے بڑے دعوے کئے تھے احتجاجیوں کو ضلع اٹک سے آگے نہیں آنے دیا جائے گا۔ وہ اتنے ہی خطرناک تھے تو پنجاب پولیس نے انہیں روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی۔ گھر گھر صف ماتم بچھا ہوا ہے وہ جن کے پیارے خواہ وہ سیکورٹی فورسز کے جوان تھے یا پی ٹی آئی کے ورکرز تھے ان کے اہل خاندان پر قیامت صغریٰ گزر گئی ۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں کسی کو نہ جلسہ نہ جلوس کرنے کی آزادی ہے۔ وہ کب تک ڈی چوک قیام کرتے نہ انہیں کھانا دینے والا نہ ہی کمبل دینے والا تھا ایک رات گزرانے کے بعد وہ خود ہی چلے جاتے۔ پی ٹی آئی معتوب تو تھی ہی اسے مظلوم بنا دیا گیا ہے ۔ وفاقی دارالحکومت کو پی ٹی آئی سے خطرہ تھا تو ڈی پی او اٹک سے پوچھا جائے انہیں پنجاب میں داخل کیوں ہونے دیا۔ ظلم ظلم ہوتا ہے چھپ نہیں سکتا ایک نہ ایک روز حقیقت عوام پر آشکار ہوجائے گی۔ ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا احتجاج میں افغان شہری شامل تھے۔ افغانوں کو چار عشروں سی زیادہ مدت سے کس نے یہاں قیام کی اجازت دی ۔ لاکھوں غیر قانونی افغان شہری دندناتے پھرتے ہیں ہماری وزارت داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟ وفاقی وزیر داخلہ نے افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کا نیا اعلان کیا ہے حالانکہ اسی حکومت میں پہلے ایک بار غیر قانونی افغانوں کو نکالنے کا اعلان ہوا جس پر پوری قوت سے عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ آئیے ہم بتاتے ہیں غیر قانونی اور جعلی شناختی کارڈ والے افغان شہری کہاں رہ رہے ہیں۔ افغانوں کو قومی شناختی کارڈ کس نے بنا کر دیئے جو ذمہ دار ہیں انہیں جیلوں میں رکھا جائے۔ کے پی کے عوام دہشت گردی کا شکار تو تھے ہی اپنے پیاروں کے لاشے کب تک اٹھاتے رہیں گے۔ ہم تو کہیں گے اس ملک میں حالات کی خرابی کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ہیں۔ اقتدار کی ہوس نہیں انہیں اندھا کر دیا ہے۔ ملک میں لاقانونیت کی بنیاد سیاسی رہنمائوں نے رکھی ہے۔ طاقتور حلقوں کو مورد الزام کیوں گردانتے ہو۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی نہیں چاہتے تو گلہ کس بات کا۔ آئین کا حلیہ بگاڑ دیا ہے عدلیہ میں آزادی کا کچھ عنصر تھا وہ آئینی ترامیم سے ختم کر دیا گیا ہے۔ دو مخصوص خاندانوں نے ملک کو ناقابل تلافی معاشی نقصان پہنچایا ہے۔ اندرون اور بیرون ملک ان کے بڑے بڑے اثاثے ہیں کسی نہ آج تک انہیں پوچھا نہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے پی ٹی آئی رہنما کسی قسم کے احتجاج کے لئے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ہدایت لئے بغیر کوئی لائحہ عمل اختیار نہیں کرتے۔24 نومبر کو وفاقی دارالحکومت میں ہونے والا احتجاج عمران خان کی ہدایت کی روشنی میں ہونا تھا کہ بدقسمتی سے یہ دن ہماری سیاسی تاریخ کا المناک باب ثابت ہوا۔
سانحہ اسلام آباد میں ہلاک ہونے والوں جن میں سیکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی شامل تھے شناخت کے بعد اپنے اپنے آبائی علاقوں میں سپرد خاک کئے جا چکے ہیں۔ عمران خان ایک سال سے جیل میں ہیں سانحہ اسلام آباد سے قبل انہیں تھانہ نیوٹائون کے ایک پرانے مقدمہ میں شامل تفتیش کیا گیا اسی دوران اسلام آباد کا دلخراش سانحہ پیش آگیا۔ قدرتی بات ہے وفاقی دارالحکومت میں پیش آنے والے سانحہ کے بعد پی ٹی آئی رہنمائوں اور وکلاء نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کرنا تھی۔ عمران خان سے ملاقات سے انکار ممکن نہیں تھا البتہ ایک ایسا عذر پیش کیا گیا جس سے پی ٹی آئی رہنمائوں اور وکلا کی بانی سے ملاقات ناممکن ہو گئی۔ ریمانڈ کے دوران ملزمان سے ملاقات بارے قانون خاموش ہے ۔ ریمانڈ کے دوران ملزمان سے ملاقات کا یہ عذر پیش کیا جا سکتا ہے وہ کہیں ملاقاتیوں سے کسی بات کا انکشاف نہ کر دے۔ عمران خان کے وکلاء نے عدالت سے بانی سے ملاقات کی درخواست کی تو عدالت نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے رابطہ کرنے کو کہہ دیا۔ سپرنٹنڈنٹ نے یہ کہہ کر ٹال دیا عمران خان تو نیو ٹائون پولیس کی حراست میں ہے۔ یہ بات درست ہے وہ نیو ٹائون پولیس کے پاس ریمانڈ میں ہے بلکہ ریمانڈ ختم ہونے کے بعد چھ روزہ مزید ریمانڈ لے لیا گیا ہے جس کے بعد عمران خان سے ملاقات آئندہ ہفتہ بھی ممکن نہیں ہے۔ عمران خان پولیس کے ریکارڈ میں نیو ٹائون تھانہ کی حراست میں ہے نیو ٹائون اس ناچیز کی قیام گاہ سے ایک سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے ٹھیک کہا ہے عمران خان واقعی پولیس کی حراست میں ہے لیکن اس نے یہ نہیں بتایا وہ جیل کے اندر ہی ریمانڈ میں ہے۔ جب تک پی ٹی آئی رہنمائوں اور وکلا کی عمران خان سے ملاقات نہیں ہوتی آئندہ کے لائحہ عمل بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ پی ٹی آئی ورکرز کی ہلاکتوں پر کے پی کے حکومت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا وہ جن کے پیارے آخرت کو سدھار گئے وہ واپس نہیں آئیں گے۔ ان کی مائیں بیویاں اور بچے بین کر رہے ہوں گے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ہلاک ہونے والے کارکنوں کے اہل خاندان کو ایک ایک کروڑ مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔ سیکیورٹی اداروں کے جو اہل کار زخمی ہوئے ہیں انہیں سی ایم ایچ میں علاج معالجہ کے لئے رکھا گیا ہے وہ بھی ہمارے اپنے ہیں۔ پی ٹی آئی کے جو کارکن زخمی ہیں وہ اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ انسانی جانوں کا مدوا ممکن نہیں خواہ ان کا تعلق سیاسی جماعت یا سیکورٹی اداروں سے ہو۔ سانحہ اسلام آباد نے ملک کے عوام پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ حکومت نے مستقبل قریب میں وفاقی دارالحکومت میں ممکنہ کسی لاقانونیت سے نپٹنے کے لئے نئی ٹاسک فورس قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جو اس امر کا غماز ہے وفاقی پولیس کسی قسم کی لاقانونیت سے عہدہ برا ہونے کے لئے ناکافی ہے۔ سانحہ اسلام آباد نے جہاں پی ٹی آئی معتوب جماعت تھی کو مظلوم بنا کر اس کی طاقت میں اور اضافہ کر دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button