ColumnTajamul Hussain Hashmi

سیاست والوں کا کھلواڑ

تجمل حسین ہاشمی
ملک کو ایشیا ٹائیگر بنانے کے دعوے کرنے والوں سے ایک ایئر لائن نہ چل سکی۔ پھر کہتے ہیں ایئر لائن چلانا حکومتوں کا کام نہیں، تو کیا ایئر لائن خریدنا حکمران خاندان کا کام ہے۔ تین دفعہ وزیراعظم اور 9سال سے زائد عرصہ حکمران رہنے کا اعزاز پھر قسمت کی دیوی کی مہربانی کہ چھوٹا بھائی دو دفعہ وزیراعظم، جس کی ورکنگ سپیڈ کو عوام مانتی ہے لیکن یہ داغ ضرور ہے کہ ایئر لائن نہیں چلا سکے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ کیسے چلا سکیں گی؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے۔ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کو کہیں کہ ایئر لائن کی حالت بدلو اور اسے کامیاب بنا کے دکھائو؟ لیڈرشپ اسی کا نام ہے۔ میاں صاحب کے اپنی بیٹی کو مشوروں کا مطلب جناب شہباز شریف سے آپ پرامید نہیں کہ وہ ایئر لائن کو کامیاب چلا سکتے ہیں لیکن پھر مریم نواز شریف پی آئی اے خرید کر کیسے کامیاب بنا لے گی؟ یہی اہم سوال ہے، جس ملک میں حکمران خود ہی حکومتی اثاثے خریدنے لگ جائیں گے تو وہاں کے نظام کی بہت بڑی ناکامی ہے بلکہ دنیا کا سب سے بڑا سکینڈل ہے۔ اداروں کو ایکشن لینا چاہئے، اس وقت سخت احتساب کی ضرورت ہے۔ سیاسی مقدمات کو روکا جائے۔ ان کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اس عمل کو روکنا ضروری ہوگا۔ اسی طرح تو چند حکمران خاندان ریاست پر حاوی ہوں گے۔ یہی خاندان ریاست کے وسائل پر بھی قابض رہنا چاہتے ہیں۔ انتہائی خطرہ کی بات ہے۔ نگران حکومت میں لاڈلے وزیر فواد حسن فواد کو نجکاری کمیشن کا وزیر بناکر پی آئی اے کی نجکاری کا منصوبہ تیار کرنے کے پیچھے یہی حکمت عملی کارفرما ہوگی کہ قومی اداروں کا ایسا بیڑا غرق کیا جائے تاکہ پھر اونے پونے قیمت ادا کرکے قوم پر احسان کیا جائے۔ کیا اس طرح قوم کے بوجھ میں کمی ہوگی یا پھر مزید غلامی میں چلے جائیں گے۔ ہمارے ہاں حکمران کی حکمرانی سے لیکر ریاست کے اثاثوں تک سب کچھ اپنے گھر میں رکھنا چاہتے ہیں، سب کچھ آپس میں بانٹنا چاہتے ہیں تو پھر ملکی معیشت میں نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ توشہ خانہ کیس سب کے سامنے ہے، جس کے جو جی میں آیا اپنے گھروں کو لے گئے۔ ذاتی مفادات کی روک تھام کیلئے کوئی قانون سازی نہیں ہوتی۔ وزیر نجکاری علیم خان نے اپنی پریس کانفرنس میں حقائق پر بات کی ہے، یقیناً قوم کو وزیر نجکاری علیم خان کی باتیں سمجھ میں آگئی ہیں۔ علیم خان نے کہا کہ پی آئی اے سے ابھی بھی کمایا جاسکتا ہے۔ قوم کا اثاثہ ہے۔ میری ذمہ داری اداروں کی نجکاری ہے، ان کو چلانا نہیں۔ مجھے چلانا آتا ہے، پی آئی اے کے ان حالات کی ذمہ دار ماضی کی تمام حکومتیں ہیں۔ این ایچ اے واحد خالص منافع بخش ادارہ ہے جو اس وقت 50ارب روپے کما رہا ہے۔ کیا پی آئی اے این ایچ اے کی طرح منافع بخش بن سکتی ہے؟ حکومت کا 777جہازوں کی خریداری کا فیصلہ ایئر لائن کو لے ڈوبا۔ اس خریداری کا مقصد حاصل نہیں ہوا، جس سے نقصان میں اضافہ ہوا ہے۔ ان جہازوں کی خریداری نے ایئر لائن کو ڈبویا ہے۔ گرائونڈ جہازوں کو واپس آپریشنل کرنے سے کرنٹ خسارہ روکا جاسکتا ہے۔ کچھ طیاروں کو عارضی طور پر گرائونڈ کیا گیا تھا۔ وزیر نجکاری علیم خان بالکل درست کہہ رہے ہیں۔ وزیر نے صاف گوئی سے کام لیا ہے۔ اب فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ پی آئی اے کو مزید بہتر کیسے کیا جائے۔ کرنٹ خسارہ سے بچا جاسکتا ہے۔ ہمارے ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی چال بازیوں نے ادارے کو اس نہج تک پہنچایا ہے، ابھی بھی سب بہتر ہوسکتا ہے۔ ماضی کے نقصان کا ازالہ آرام سے ممکن ہوگا لیکن کرنٹ نقصان کی صورت حال میں بہتری ہوسکتی ہے۔ لیکن حکومت نجکاری میں پڑی ہوئی ہے، مزید سیاست کی جارہی ہے، جو نقصان میں اضافہ کا باعث ہے۔ خریداری کیلئے ایک پارٹی منظرعام پر ہے اور دوسری کوئی پارٹی منظرعام پر نہیں۔ ایسا تاثر پیدا کرنا بظاہر سوچی سمجھی سازش لگتی ہے۔ میرے مطابق حکمرانوں کے اعلیٰ اداروں میں بیٹھے سرکاری حمایتیوں کا احتساب ہونا چاہئے، جو ایسے گیم پلان کا حصہ ہیں، ملکی معیشت ایسے ڈاکوئوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ پی آئی اے، سٹیل ملز اور ریلوے جیسے قومی اثاثے کو تباہی کی طرف لے جانے میں سیاسی جماعتوں کے فیصلے اثرانداز رہے۔ اب یہ خود خریدار بھی ہیں، یہ واحد ملک ہے جہاں ایسی پلاننگ کی جاتی ہے۔ بیانوں، نعروں میں ان سے زیادہ محب وطن کوئی نہیں ہے، ان جمہوری 40سالوں میں کوئی بڑا منصوبہ نہیں بنا سکے لیکن اداروں کی بدحالی کی لسٹ کافی لمبی ہے، عوام کو سمجھ آ جانی چاہئے کہ ذمہ دار کون ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button