آخری لوگ
تحریر : علیشبا بگٹی
1999 ء سے قبل پیدا ہونے والے لوگ خوش نصیب لوگ ہیں۔ کیونکہ یہ وہ آخری لوگ ہیں۔ جنہوں نے کالے کپڑے کا بستہ استعمال کیا۔ ٹاٹوں پر بیٹھ کر سکول میں تعلیم حاصل کی۔ جنہوں نے سکول کی گھنٹی بجانے کو اعزاز سمجھا۔ سکول کی آدھی چھٹی کا لطف اٹھایا۔ سلیٹ پر سلیٹی سے سوال حل کئے۔ تختی کو گاچی لگائی۔ عاد اعظم کے ریاضی کے سوال نکالے۔ سکول میں استاد کے ہاتھوں ڈنڈے کھائے۔ تختی کے لیے بازار سے قلم خرید کر اسکی نوک چاقو سے کاٹ کر درمیان میں ایک کٹ لگایا۔ خوش خطی کے لیے مارکر کی نب کاٹی۔ ہولڈر استعمال کیا۔ رف کاپی استعمال کی۔ دوستوں کا ہوم ورک لکھا۔ مالٹے کے چھلکے دبا کر اس سے دوستوں کی آنکھوں پر حملہ کیا۔ چلوسک ملوسک، عمرو عیار، ٹارزن، چھنگلو منگلو کی کہانیاں پڑھیں۔ کاغذ کے اوپر نیچے سکے رکھ کر اس کی تصویر بنائی۔ ڈاک کے ذریعے خط بھیجے۔ جنہوں نے اپنے پیاروں کیلئے اپنے احساسات کو خط میں لکھ کر بھیجا۔ عید کارڈ وصول کیے۔ دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے عید کارڈ بھی اپنے ہاتھوں سے لکھ کر بھیجے۔ لکڑی کے لٹو ڈور سے چلائے۔ بنٹے اور پٹھو گرم کھیلا۔ پانی کے ٹب میں موم بتی والی کشتی چلائی۔ رسی لپیٹ کر لاٹو چلایا۔ گلی ڈنڈا کھیلا۔ والی بال دیکھا۔ لڈو کھیلتے ہوئے انتہائی خطرناک موقع پر تین دفعہ چھ آتے دیکھا۔ تاش کیرم بورڈ اور ڈرافٹ بھی کھیلا۔ غلیل استعمال کیا۔ سہراب کی سرخ سائیکل چلائی۔ سائیکل پر نئی گھنٹی بھی لگوانے کا خوشی اور مزہ دیکھا۔ گراہم فون، ریڈیو، کیسٹ والا ٹیپ ریکاڈر، بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی، وی سی آر چلایا۔ پی ٹی وی دیکھنے کے لیے اینٹینا کا رخ ٹھیک کیا۔ اسکول جانے سے پہلے صبح سات بجے ٹوم اینڈ جیری کارٹون دیکھا۔ کرائے کا وی سی آر لا کر فلم دیکھا۔ سکہ اور روپیہ استعمال کیا۔ بلی مارکہ اگر بتی خریدی۔ لالٹین میں مٹی کا تیل بھروایا۔ گرمی کی راتوں کو ایک سٹینڈ والا پنکھا لگا کر گھر کے صحن میں چارپائی ڈال کر سوئے۔ رات کو آسمان کے تارے گنے۔ جنہوں نے مٹی کے بنے گھروں میں سردیوں کی راتوں میں چارپائی پر لیٹ کر رضائی میں گھس کر پریوں کی کہانیاں سنیں۔ اور کبھی سرکٹے انسان کی افواہیں سنی۔ گرمیوں میں مشکیزے سے ٹھنڈا پانی پیا۔ مٹی کے گھڑوں کا پانی پیا۔ پانی کے بہتے نالے بھی دیکھے۔ بیری کے درخت پر پھتر مار مار کر بیر توڑ کے کھائے۔ بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا۔ آگ کی راکھ میں آلو پکا کر
کھائے۔ وہ لوگ ہیں جو گلے میں مفلر لٹکا کر گلی میں خود کو بابو سمجھتے تھے۔ وحید مراد کی فلمیں دیکھتے تھے۔ رات سات بجے ریڈیو پر بی بی سی اردو کی خبریں سنتے تھے رات آٹھ بجے پی ٹی وی پر ڈراما دیکھتے تھے اور رات 9بجے پی ٹی وی پر خبریں دیکھتے تھے۔
یہ لوگ اب بوڑھے ہو رہے ہیں۔ کیونکہ یہ ساری چیزیں اس وقت کی ہیں جب زندگیوں میں عجیب طرح کا سکوں ہوا کرتا تھا۔ لوگ ہنسنے اور رونے کی لذت سے آشنا تھے۔ لڑائی کبھی جنگ کا روپ نہیں دھارتی تھی۔ رشتے اور تعلقات جھوٹی انا کے مقابل طاقتور تھے، تب غریب کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔ جب نہ کسی کے پاس موبائل تھا۔ نہ کوئی کسی کو بلاک کرتا تھا۔ نہ کوئی اپنی لوکیشن شیئر کر سکتا تھا۔ لیکن سب رابطے میں ہوتے تھے۔ سب کو پتا ہوتا تھا کہ اس وقت کون کہاں ہے۔ کیونکہ اس زمانے میں نیٹ نہ ہو کے بھی سب کا نیٹ ورک ایک ہوتا تھا۔ یہ وہ خوش نصیب لوگ ہیں۔ جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔ مگر اب وہ دور بیت گئے۔ منجی چارپائی بھی چھوٹ گئے۔ سچے رشتے بھی ٹوٹ گئے۔ بہت خوبصورت خالص رشتوں کا دور لوگ کم پڑھے لکھے اور مخلص ہوتے تھے اب زمانہ پڑھ لکھ تو گیا۔ مگر بے مروت مفادات اور خود غرضی میں کھو گیا۔ اب پڑھا لکھا دور آگیا۔ مگر دراصل منافقت مفاد پرستی حسد اور جہالت کا زمانہ آگیا۔ اب فارغ ہو کے بھی سب مصروف ہیں۔ کیونکہ اب بچے سے بڑے سب کے ہاتھ میں ٹچ موبائل نیٹ گیم ٹک ٹاک یو ٹیوب گوگل جو آگیا۔
پرانے لوگ پرانے راستے پرانے خیالات۔ سب کچھ پرانا ہی اچھا تو تھا۔ کیونکہ پرانے وقتوں کی ہر چیز میں خلوص تھا۔ اور ہر چیز خالص تھا۔ محبت تھی۔ وفا تھی۔ لوگوں میں شرم و حیا تھی۔ سادہ لوگ سادہ ماحول اور صحت بخش غذائیں ہوا کرتی تھی۔ اب تو سب کچھ ملاوٹ دکھاوا فحاشی فیشن کا زمانہ آگیا۔ پرانے لوگ دکھ سکھ کی خبر پاتے تو فوراً وہاں پہنچ جاتے تھے۔ اب تو موبائل اور نیٹ کا زمانہ ہے۔ مگر سب ایک دوسرے سے دُور اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ سے بے خبر ہیں۔ بس نام کی رشتے داری ہے۔
شاعر کہتا ہے کہ
ہم پرانے لوگوں میں ایک ہی خرابی ہے
ہم جدید رنگوں سے آشنا نہیں ہوتے
ہم جدید لہجوں سے آشنا نہیں ہوتے
ہم نئے زمانے کو
دیکھتے ہی رہتے ہیں
سوچتے ہی رہتے ہیں
اور سمجھ نہیں پاتے
آنسوئوں کو پیتے ہیں
اور مسکراتے ہیں
دل میں درد کتنا ہے
ہم کہاں بتاتے ہیں ؟
کس نے کب ، کہاں لوٹا ؟
داستان ماضی کی خود کو ہی سناتے ہیں
خود سے جنگ کرتے ہیں
خود سے ہار جاتے ہیں
ہم پرانے لوگوں میں
ہم قدیم دنیا کی آخری نشانی ہیں
آخری اشارہ ہیں
آخری کہانی ہیں
کل کی یاد ہیں ہم بھی
آج کا بھی اک پل ہیں
کل کو ہم نہیں ہوں گے
ہم پرانے لوگوں میں ایک ہی خرابی ہے
پرانے لوگ سمجھدار تھے، تعلقات سنبھالتے تھے۔ پھر لوگ پریکٹیکل ہو گئے اور تعلق سے فائدہ نکالنے لگے۔ اب لوگ پروفیشنل ہیں، فائدہ ہو تو تعلق رکھتے ہیں۔
شاعر کہتا ہے کہ
یہ ارتقا کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے ہیں
وقت اپنی فطری رفتار سے گزر رہا ہے۔ موت و حیات کا کھیل ہر لمحہ جاری ہے۔ پرانے لوگ بھی اب موت کے ہاتھوں ختم ہی ہوتے جارہے ہیں۔