بھارت کی ریاستی دہشتگردی 5کشمیری شہید

مسئلہ کشمیر دُنیا کا قدیم اور سُلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ 76سال قبل اس کے حل سے متعلق اقوام متحدہ میں قراردادیں منظور ہوئی تھیں، عالمی ادارہ سات عشروں سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اپنے ہاں منظور کردہ قراردادوں پر بھارت سے عمل درآمد نہیں کراسکا ہے۔ بھارت ان قراردادوں پر عمل سے ہمیشہ کتراتا رہا ہے۔ بھارت دُنیا کی درندہ صفت، ظالم ترین اور دہشت گرد ریاست ہے، جس نے اپنی دہشت گرد کارروائیوں اور ریاستی ظلم و جبر کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ مودی کے 10سالہ دورِ اقتدار میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم انتہائوں پر پہنچ چکے ہیں۔ اسی نامُراد کے دور میں 5اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے سب سے بڑا ظلم کیا گیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کو دُنیا کی سب سے بڑی جیل کہا جاتا ہے۔ پچھلے 76سال سے زائد عرصے سے یہ جنت نظیر لہو لہو ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ بھارتی مظالم میں مزید شدّت آتی چلی جارہی ہے۔ دو لاکھ 37ہزار سے زائد کشمیری مسلمانوں کو بھارت کی درندہ صفت فورسز شہید ک رچکی ہیں۔ یوں مقبوضہ جموں و کشمیر کا ہر گھر شہید کا گھرانہ ہے۔ مقبول بٹ، برہان وانی آزادی کے متوالے کشمیریوں کے ہیروز ہیں۔ ہر کشمیری مسلمان کی یہی آرزو ہے کہ وہ بھارتی تسلط سے آزادی پائے۔ اس کے لیے اُن کی جانب سے عظیم جدوجہد آزادی جاری ہے، جسے دبانے کے لیے بھارت نے ہر ہتھکنڈا اور حربہ آزما لیا، لیکن کشمیری مسلمانوں کو تحریک آزادی سے باز نہ رکھ سکا۔ اُن کا جذبہ حریت روز بروز توانا ہورہا ہے۔ اُن پر ہر طرح کے مظالم ڈھالیے، پیاروں کو شہید کر ڈالا، اُن کے حقوق غصب کر ڈالے، اُن پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کر ڈالیں، پیاروں کو گرفتار کرکے لاپتا کروادیا جو سالہا سال گزرنے کے باوجود تاحال گھر واپس نہ آسکے ہیں۔ نامعلوم وہ زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔ کتنی ہی خواتین نیم بیوگی کی زیست گزار رہی ہیں، کتنے ہی بچوں کو یتیم کیا جا چکا، کتنی ہی مائوں کی گودیں اُجاڑ ڈالیں۔ درندہ صفت بھارت کی جانب سے کشمیریوں کو آزادی کے مطالبے سے ہٹانے کے لیے معلوم تاریخ میں ہر طرح کے مظالم ڈھالیے گئے، لیکن ظالم نامُراد رہا۔ پوری کشمیری حریت قیادت کو قید اور نظربند کردیا گیا۔ اُن کو جیلوں میں ہر طرح کی ایذائیں پہنچائی جارہی ہیں۔ ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے، لیکن سلام ہے کشمیری حریت پسند رہنمائوں اور عوام پر جو ظالم و جابر کے سامنے استقامت کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ آزادی سے کم پر کسی طور آمادہ نہیں اور ہر ظلم و جبر کے باوجود اُن کا جذبۂ حریت جوان اور توانا ہے۔ گزشتہ روز بھی بھارت نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جعلی مقابلے میں 5 کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا۔ کشمیری میڈیا کے مطابق قابض بھارتی فورسز نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے بارہ مولا میں جعلی مقابلے میں 5نوجوانوں کو شہید کیا۔ گھر گھر تلاشی کے دوران متعدد نوجوانوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ بھارتی فوج نے بارہ مولا اور نواحی علاقوں کا محاصرہ کرکے موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کردی جبکہ لوگوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے کا حکم دیا گیا۔ دوسری جانب اننت ناگ کے علاقے میں نامعلوم افراد کے حملے میں 2بھارتی فوجی مارے گئے۔ حملے کے بعد علاقے میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کیا گیا۔ فائرنگ میں 4بھارتی فوجی زخمی بھی ہوئے۔ علاقے کے محاصرے اور بھارتی فوج کی بدسلوکی کے خلاف احتجاج کے لیے گھروں سے نکلنے والے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔پانچ کشمیری نوجوانوں کی شہادت انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ بھارت کشمیری مسلمانوں کو زندگی سے محروم کرکے اُن کی بدترین نسل کشی کرکے کسی طور کامیاب نہیں ہوسکتا، وہ اپنے مذموم ہتھکنڈوں سے کشمیری مسلمانوں کو ڈرا نہیں سکتا۔ وہ اپنی آزادی کے مطالبے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، وہ آزادی حاصل کرکے ہی دم لیں گے۔ کوئی بھی رُکاوٹ اور مذموم اقدام اُن کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتا۔ کشمیری مسلمانوں کے عزائم بلند اور نیک ہیں اور سچے مقاصد میں تندہی سے مصروف رہنے والوں کو کامیابی ضرور ملتی ہے۔ پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کا تصفیہ 76سال قبل اقوام متحدہ میں منظور کردہ قراردادوں کے مطابق کیا جائے۔ لگ رہا ہے کہ عالمی ضمیر سویا ہوا ہے اور اُسے کشمیر میں جاری بھارتی ظلم و ستم کسی طور نظر نہیں آتے۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی پر عالمی برادری آخر کیوں خاموش ہے۔ کشمیری مسلمانوں پر جاری بھارتی ظلم و ستم پر اُن کے دل میں حقوق انسانی کے درد آخر کیوں نہیں اُٹھ رہے۔ عالمی ضمیر کو خواب غفلت سے بیدار ہونا چاہیے۔ جانوروں پر ہونے والے ظلم پر درد سے کانپ اُٹھنے والے مہذب ممالک اور لوگ آگے آئیں اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کریں۔ اقوام متحدہ ہر صورت اپنے ہاں کشمیری تصفیے سے متعلق 76سال قبل منظور کی گئی قراردادوں پر عمل کرائے۔ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی اور وہ بھارتی تسلط سے آزادی حاصل کرکے آزاد زندگی بسر کریں گے۔
پنجاب اور سندھ حکومتوں کے مستحسن فیصلے
عوام کو آسانی فراہم کرنا اور اُن کی زندگیوں کو سہل بنانا اچھی حکومتوں کا مطمع نظر ہوتا ہے۔ عوام کی سہولت کے لیے وہ اقدامات یقینی بناتی ہیں۔ عوام کو اپنا درد دل میں محسوس کرنے والے حکمرانوں سے خصوصی لگائو ہوتا ہے اور وہ اُن کو کبھی فراموش نہیں کر پاتے۔ اچھے حکمرانوں کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام کی مشکلات اور مسائل کا ناصرف ادراک رکھتے، بلکہ اُن کے حل کے لیے کوشاں بھی رہتے ہیں۔ امسال فروری میں عام انتخابات ہوئے۔ پنجاب میں عوام نے ن لیگ کے حق میں ووٹ دئیے جب کہ سندھ میں پی پی بازی لے گئی۔ اقتدار ملنے کے بعد ان دونوں صوبوں کی حکومتوں کی جانب سے عوامی سہولت اور آسانی کے لیے اقدامات متواتر دیکھنے میں آرہے ہیں۔ بہت کم وقت میں ان دونوں صوبوں میں حکومتوں نے کئی مثالی اقدامات کیے ہیں۔ خصوصاً مریم نواز کے دور اقتدار میں پنجاب میں بڑے پیمانے پر عوامی مفاد میں اقدامات یقینی بنائے جارہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت پنجاب نے کورٹ فیسز میں کمی کر دی ہے۔ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کی منظوری کے بعد بورڈ آف ریونیو پنجاب کی طرف سے عدالتی فیسوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سول کورٹ سے آرڈر یا فیصلے کی مصدقہ کاپی کے لیے ون ٹائم 100روپے کورٹ فیس مقرر کی گئی ہے جبکہ ہائیکورٹ سے آرڈر یا فیصلے کی مصدقہ کاپی پر ون ٹائم کورٹ فیس 500روپے رکھی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پنجاب ٹیننسی ایکٹ 1887کے تحت بورڈ آف ریونیو یا کمشنرز کو نظرثانی درخواست پر ون ٹائم 500روپے کورٹ فیس جبکہ سی پی سی سیکشن 15کے تحت ہائیکورٹ میں نظرثانی درخواست پر ون ٹائم فیس 500روپے مقرر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کسٹم، ایکسائز، لینڈ ریونیو، سول کورٹ 10ہزار روپے سے کم ویلیو والے کیسز میں درخواست پر کورٹ فیس 10روپے اور کورٹ ریونیو یا رینٹ درخواست پر کورٹ فیس 500روپے سے کم کر کے 10روپے مقرر کردی گئی ہے۔ دوسری جانب حکومت سندھ نے پیدائش کے اندراج کی سہولت مفت فراہم کرنے کا تاریخی فیصلہ کرلیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ کی زیر صدارت اجلاس میں سندھ کابینہ نے پیدائش کے اندراج کی سہولت مفت فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ سینئر وزیر اور صوبائی وزیر برائے اطلاعات، ٹرانسپورٹ، ایکسائز، ٹیکسیشن و نارکوٹکس کنٹرول شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پیدائش کے اندراج کے نئے اقدام کا مقصد رجسٹریشن کے عمل کو آسان اور پس ماندہ طبقوں کے لیے قابل رسائی بنانا ہے، اندراج فیس کے خاتمے سے پسماندہ اور کم آمدن والے افراد کو بچوں کی رجسٹریشن اور درست ڈیموگرافک ڈیٹا اکٹھا کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ دونوں انقلابی اقدامات ہیں۔ اس پر پنجاب اور سندھ حکومتوں کی جتنی توصیف و تعریف کی جائے، کم ہے۔ دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو بھی ایسے فیصلوں کی تقلید کرنی چاہیے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ بھی اسی طرح عوامی مفاد اور بہتری کے لیے اقدامات ممکن بنائے جائیں گے۔