تحریر : سی ایم رضوان
دہشت گردی دراصل کسی بھی ملک کی سلامتی سے کھلواڑ ہوتی ہے۔ آج کل خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ملکی دفاع کے ساتھ کھلواڑ قرار دیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی اس صوبہ میں براجمان صوبائی حکومت کو بھی ذمہ دار قرار دینے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہئے خاص طور پر اس صورت میں کہ جب اس صوبے کا وزیر اعلیٰ اور اس کی کابینہ بات بہ بات لڑنے مرنے اور مارنے مرنے پر آمادہ ہو جاتے ہوں۔ پھر یہ بھی کہ پورے صوبہ کے عوام ایک خاص نوعیت کی مذہبی اور سیاسی حساسیت کے حامل ہوں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ایسے صوبے میں ایک ایسے وزیر اعلیٰ کو نامزد کیا جاتا جو اس حساسیت کو اعتدال میں لانے کی کوشش کا قائل ہوتا مگر طالبان کے محبوب قائد بانی پی ٹی آئی نے اس بندے کو وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا جس کے لئے اسلحہ اور شہد گویا کھلونے ہوں۔ بہرحال گزشتہ روز یہاں بنوں کے فوجی علاقے میں ایک دہشت گردانہ حملے میں 10سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تو ملک بھر کے سنجیدہ اور محب وطن حلقوں میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا گیا جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر نے پیر کو بنوں کینٹ پر ہونے والے حملے کی تفصیلات جاری کیں۔ اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب رورل ہیلتھ سینٹر پر حملے میں بھی دو بچوں اور خواتین سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ جن کے بعد دہشت گردوں کے خلاف جوابی کارروائیوں میں 13دہشت گرد مارنے کا دعویٰ سامنے آیا۔ آئی ایس پی آر نے پیر کو بنوں میں فوجی چھانی پر حملے کے ایک دن بعد واقعے کی تصدیق کر دی کہ بنوں کینٹ پر جن 10دہشت گردوں نے حملہ کیا وہ جوابی کارروائی میں مارے گئے۔ دہشت گردوں نے بارود بھری گاڑی کینٹ کی دیوار سے ٹکرائی تھی جس کے باعث آٹھ اہلکار ہلاک ہوئے۔ فوج کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ پاکستانی طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ نے کیا۔ اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان میں رورل ہیلتھ سینٹر پر دہشت گرد حملہ پیر اور منگل کی درمیانی شب ہوا۔ ہلاک ہونے والوں میں دو لیڈی ہیلتھ ورکرز، دو بچے اور ایک چوکیدار شامل ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف ایک اور کارروائی میں تین دہشت گرد بھی مارے گئے۔ اس دوران فوج کے دو اہلکار شہید ہوئے۔
یاد رہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے حملوں میں تیزی ایسے وقت میں سامنے آئی جب پاکستان نے حال ہی میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جب سے پاکستان کی موجودہ عسکری و سول رجیم کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اقدامات میں تیزی آئی ہے افغان طالبان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ حکومت پاکستان اصولی طور پر ملک میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں افغان سرزمین استعمال ہونے کا الزام عائد کرتی آئی ہے اور افغان طالبان پر مسلسل دبائو ڈالا جاتا رہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی سرحد پار کارروائیوں کو روکے اس کے رہنماں کو حراست میں لے اور پاکستان کے حوالے کرے جبکہ افغان طالبان کا موقف رہا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور افغان طالبان پر الزامات لگانے کی بجائے پاکستان ہی کو اسے حل کرنا چاہیے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی رپورٹ ہے کہ ٹی ٹی پی نے بتدریج پاکستان کے خلاف حملوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ 2021میں کیے گئے 573حملے 2023میں بڑھ کر 1203ہو گئے اور اضافے کا یہ رجحان 2024میں بھی جاری ہے۔
طالبان اور دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کی سالمیت پر مذکورہ حملے ایک طرف جبکہ دوسری طرف سے ملکی سیاست میں بھی ملکی سالمیت کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور اس سازش میں جو لوگ استعمال ہو رہے ہیں وہ پاکستانی ہیں یعنی اس ملک کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد اور مرحوم عبدالستار ایدھی پاکستان کی غیر جانبدار شخصیات تھیں جنہوں نے بانی پی ٹی آئی کی اصلیت وزیراعظم بننے سے بہت پہلے عیاں کر دی تھی۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے واضح طور پر بتا دیا تھا کہ موصوف اسرائیل اور یہودیوں کے اشاروں پر چل رہے ہیں جبکہ عبدالستار ایدھی بھی ان کی سازشوں کی نشاندہی کر چکے تھے کہ وہ کس طرح شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت گرانے کے لئے ان کے پاس حمید گل کے ساتھ آئے تھے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر اسرار احمد اور عبدالستار ایدھی کی ویڈیو کلپس بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اسی طرح ایک سوال یہ بھی ہے کہ سابق صدر عارف علوی پی ٹی آئی کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کے وقت کیوں خاموش رہے، بعدازاں تو وہ اقوام متحدہ کو ملکی مفاد کے خلاف سالمیت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو خط لکھتے رہے مگر انہوں نے اس وقت خط کیوں نہیں لکھے جب عدم اعتماد کی تحریک کے بعد غیر آئینی اقدامات کئے گئے۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ بعدازاں عارف علوی کا بیٹا سوشل میڈیا سیل کی سربراہی کرتا رہا اور اداروں کے خلاف مہم چلانے میں سب سے آگے رہا، یاد رہے کہ سابق صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی غیر آئینی رولنگ پر قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔ ان کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف اب تک آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ سانحہ ساہیوال میں چھ ملزمان کو ثبوت نہ ہونے پر کیوں بری کر دیا گیا حالانکہ چھے معصوم لوگوں کو قتل کیا گیا تھا۔ کیا سی ٹی ڈی اہلکاروں کو تحفظ فراہم کیا گیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب کون تھے صدر مملکت کی اس وقت اپنی آنکھیں کیوں بند تھیں، انسانی حقوق کی بات تب کیوں نہیں کی۔ اب بھی وقت ہے کہ اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیا جائے کہ ان سب کھلیوں میں کون کون ملوث تھا اور ان غیر آئینی اور غیر قانونی کاموں کو کمیشن کے تحت دیکھا جائے۔ اب بھی یہ جماعت کسی شخص، کسی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ملک کے خلاف گھناونی سازشیں کر رہی ہے۔ بیرونی سازشوں میں اندرونی لوگ استعمال ہو رہے ہیں اور یہودی لابی کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ اس لارجر گیم کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ مرحوم ارشد شریف نے بھی اپنے پروگرام میں پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ پر سوالات اٹھائے تھے اور پی ٹی آئی کو بھارت اور اسرائیل سے ملنے والی فنڈنگ کے شواہد اپنے پروگرام میں دکھائے تھے مگر انتہائی ہوشیاری سے اب ان کے قتل کو مخالفوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ ان سب چیزوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے، عوام سوچیں کہ ملکی سالمیت کے ساتھ کھلواڑ کو سیاست کا نام کون دے رہا ہے۔
میتھیو ملر کے حالیہ بیانات کے بعد تو اب بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے واضح ہو گیا ہے کہ غیر ملکی قوتیں کس کے حق میں ملک میں مداخلت کر رہی ہیں۔ بیرونی ایجنٹ کا چہرہ عوام کے سامنے آ گیا ہے، مقام شکر ہے کہ یہ پہلے ہی نااہل ہو چکے ہیں۔ یہ تو اپنی بیٹی کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ قانون کے طالبعلموں کو چیلنج ہے وہ بتائیں کہ کیا اپنے بچوں کو چھپانا نااہلی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما کو اس بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے خاندان کے افراد کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا تھا۔
دہشت گردانہ کارروائیوں میں حالیہ اضافے اور شدت پسندی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافے کی موجودہ صورت میں چاہئے تو یہ کہ عوام سکیورٹی فورسز اور پولیس کے دہشت گردوں کے خلاف اقدامات کی حمایت کریں ان سے تعاون کریں اور اس حوالے سے اگر کوئی غیر معمولی آپریشن بھی شروع کیا جائے تو اس کی حمایت کریں اور اداروں کے ساتھ تعاون کریں مگر ایک مخصوص قسم کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے کے پی کے شہر بنوں میں جمعے کو ہڑتال کر دی گئی۔ پی ٹی آئی، جے یو آئی ف اور ٹی پی ایم کی اکثریتی حامی آبادی کے اس شہر میں ہزاروں شہری سفید پرچم تھامے شہر کی سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے بنوں کینٹ کی جانب پتھرائو کیا جس کے بعد فائرنگ بھی ہوئی جس میں ایک شخص ہلاک اور 20زخمی ہوئے۔ مقامی ہسپتال نے تصدیق کی ہے کہ ایک شخص کو مردہ حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق صورتِ حال کشیدہ رہی جبکہ ریلی کے مقام پر موبائل فون سروس بھی معطل رہی۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس مارچ میں لکی مروت، کرک اور شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد بھی شریک ہوئے۔ شرکا کا بظاہر مطالبہ تھا کہ بنوں میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ ریلی پر سکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔ تاہم سکیورٹی حکام کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ بنوں کی تاجر برادری نے اس احتجاج کی کال دی تھی اور مظاہرین کو سفید پرچم تھام کر احتجاج کرنے کا کہا گیا تھا۔ بظاہر تاجر برادری کی اپیل پر کئے جانے والے اس مظاہرے کے مقاصد واضح ہیں کہ جس قدر ہو سکے ملکی سالمیت سے کھلواڑ کیا جائے اور اس طرح کی کارروائیاں مقامی حکومت کی سرپرستی میں ہونے میں اگر کوئی شک ہو تو کم از کم یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ یہ صوبائی حکومت کی ناکامی ہے کہ وہ دہشت گردی کی آگ کو مزید ہوا دینے والے اس مظاہرے روکنے میں ناکام رہی اور جلتی پر تیل ڈالنے کی سیاست جاری رہی۔