قطب الدین ایبک غلامی سے حکمرانی تک

تحریر : روہیل اکبر
میو ہسپتال لاہور سے انار کلی کی طرف جائیں تو راستے میں ایبک روڈ آتا ہے جہاں دنیا کا عظیم حکمران آسودہ خاک ہے جو ہم جیسے غلاموں کے لیے ایک مثال بھی ہے اور اس مثال کا عملی نمونہ بھی کہ انسان کوشش اور محنت سے غلامی کی زنجیریں توڑ کر دنیا کو حیرت میں ڈال سکتا ہے سلطان قطب الدین ایبک 1150ء میں ترکستان ( ترک، ترکی پھر ترکیہ) کے غریب گھر میں پیدا ہوئے جن کا تعلق قطب کے گھرانے کا ایک غلاموں پر مشتمل ’’ ایبک‘‘ نامی قبیلے سے تھا وہ دور جہالت تھا اور قطب الدین کا ابھی لڑکپن ہی تھا والدین پر غریبی کا سایہ تھا جنہوں نے اپنے لخت جگر کو اپنے سے جدا کر کے نشاپور میں لگنے والی غلاموں کی منڈی میں بولی لگا کر اسے بیچ ڈالا جسے فخرالدین عبدالعزیز کوفی، قاضی، تاجر اور ابوحنیفہ کی اولاد میں سے ایک نے خرید لیا گھر پہنچ کر قاضی نی بچے سے اس کا نام پوچھا تو کمسن غلام نے نام بتانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر نام بتا دیا تو یہ میرے نام کی توہین ہو گی اب آپ کا غلام ہوں جس نام سے پکاریں گے وہی میرا نام ہو گا قاضی کو بچے سے ایسے جواب کی امید نہیں تھی حیرت ہوئی اور اس کا جواب اچھا لگا کہ ابھی بچہ ہے غلام ہے اور عزت نفس کا کتنا خیال رکھتا ہے رحمدل قاضی نے مشقت لینے کی بجائے اس کی اچھی تربیت، تعلیم اور پرورش کرنے کا فیصلہ کیا اور چھوٹے غلام پر خاص توجہ دی بچہ شروع سے ہی بہادر تھا، جنگجو مشاغل کھیلنے سے شوق رکھتا بہت کم عرصے میں تعلیم کی ساتھ ساتھ گھڑ سواری، تلوار، نیزہ بازی اور تیراندازی میں مہارت حاصل کر لی قاضی غلام کی صلاحیتیں دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ سلطان شہاب الدین غوری غزنی کا شہنشاہ ایک روز شاہی گھڑ دوڑوں کا مقابلہ دیکھ رہا تھا قاضی غلام کو لے کر سلطان کے پاس پہنچ گیا اور کہا سرکار ساری سلطنت میں اس غلام کا گھڑ سواری میں کوئی مقابل نہ ثانی ملے گا سلطان خوبصورت، صحت مند، سانولہ، پرکشش رنگت والے نوجوان غلام کو دیکھ کر مسکرایا جنگلی گھوڑا وحشی تصور کیا جاتا ہے جسے تربیت دینا مشکل ترین کام ہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غلام سے پوچھا گھوڑے کو کتنا تیز دوڑا سکتے ہو؟ غلام نے نہایت ادب کے ساتھ جواب دیا حضور گھوڑے کو تیز دوڑانے میں کوئی مہارت نہیں اصل مہارت اسے اپنا تابع بنانا ہے۔ سلطان نے ستائشگی سے غلام کو دیکھا ایک بہترین گھوڑے کی لگام غلام کے ہاتھ میں تھما دی وہ اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ گیا کچھ دور دوڑا کر واپس لے آیا انتہائی انوکھی بات یہ ہوئی کہ گھوڑا واپسی پر اپنے سْموں کے جن نشانات پر چل کر گیا تھا انہیں قدموں پر واپس لایا یہ سب دیکھنے والوں کے لیے نہایت ناقابل یقین تھا اس سے پہلے ایسی مہارت کبھی کسی میں نہیں دیکھی گئی تھی سلطان غلام کی مہارت سے نہایت متاثر ہوا جو جانور کو اپنا تابع و مطیع بنا سکتا ہے اس کے لیے انسانوں کو فرمانبردار بنانا مشکل نہیں ہو گا سلطان نے اسی وقت غلام کو منہ بولے دام دے کر مصائب خاص میں شامل کر لیا ایک روز سلطان دربار میں بیٹھا خوش ہو کر غلاموں کو تحائف تقسیم کر رہا تھا، غلام خاص نے وہ تمام تحائف ضعیف غلاموں میں بانٹ دئیے سلطان یہ دیکھ کر اسے مزید پسند کرتے اعلیٰ ترین عہدے ’’ امیر خور‘‘ پر ترقی دے دی پھر شاہی اصطبل کا سربراہ مقرر کر دیا، جہاں سیکڑوں مال بردار اور جنگی تربیت یافتہ گھوڑوں کو ہمہ وقت سلطنت کی حفاظت کرنے کی تربیت دی جاتی تھی غلام نے رفتہ رفتہ قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کا سکہ سلطان پر بٹھا کر اس کا مزید قرب حاصل کر لیا۔ 1192ء کو سلطان محمد غوری نے دہلی اور اجمیر فتح کیا ،42سالہ غلام کو پہلے یہاں کا گورنر اور پھر شاہی افواج کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔ اگلے سال نوجوان غلام سپہ سالار نے سلطان کے حکم پر پڑوسی دشمن قنوج پر چڑھائی کر دی پہلے سے بڑھ کر سپہ گری کا بھرپور مظاہرہ کیا سلطان نے غلام کو اپنا فرزند بنا کر ’’ فرمان فرزندی‘‘ کے اختیارات دے دئیے اور دو میں سے ایک نایاب ترین قیمتی سفید ہاتھی اسے انعام میں دیا۔ یہ وہ دور تھا جب اسلام اپنے عروج پر اور سارا یورپ جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبا پڑا تھا، اسلامی تاریخ کا ایک بہادر غلام سپہ سالار قطب الدین ایبک پھر وہ عظیم حکمران بنا، جس نے دہلی فتح کر کے یہاں سب سے پہلی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی، یہاں سے غلام قطب الدین کا ستارہ مزید چمکا اور اس کی افواج گجرات، راجپوتانہ، گنگا جمنا، دوآبہ، بہار اور بنگال میں اسلام کا سبز پرچم لہراتی داخل ہو گئیں 15مارچ 1206کو سلطان محمد غوری کو جہلم کے قریب گکھڑ قبیلے کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا غلام پاس نہیں تھا اور سلطان شہاب الدین غوری مارا گیا جس کے بعد 23جون 1206ء کو لاہور میں قطب الدین ایبک کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا قطب الدین ایبک کی زندگی کا سارا زمانہ فتوحات میں گزرا کبھی شکست نہیں کھائی تخت پر بیٹھ کر سب سے پہلے عظیم ترین سلطنت پر توجہ دی بیشتر وقت نوزائیدہ اسلامی سلطنت کا امن و امان قائم رکھنے میں گزرا عالموں کا قدر دان، فیاضی اور داد و درویشی سے تاریخ میں ’’ لکھ بخش‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یکم نومبر 1219لاہور میں چوگان ( پولو) کھیلتے گھوڑے سے گر کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور پھر انہیں انار کلی بازار لاہور کے ایک کوچے ایبک میں دفنا دیا گیا جو اب ایبک روڈ کہلاتا ہے۔ قطب الدین ایبک کے مزار کے باہر اب قبضہ گروپوں کا راج ہے اور مزار کا احاطہ بھی اتنا شاندار نہیں جتنا ہونا چاہیے قطب الدین ایبک آج بھی اپنے مزار سے ہم جیسے غلاموں کو دیکھ رہا ہوگا جو آزاد ہوتے ہوئے بھی غلامی کا طوق اپنے گلے میں پہنے ہوئے ادھر سے ادھر گھوم پھر رہے ہیں اور ہم اپنی غلامی پر اس قدر خوش ہیں کہ آزاد ہونے کا نام لینا بھی توہین سمجھتے ہیں ایک وہ غلام تھا جس نے اپنی غلامی کو بہادری، جرات اور ہمت سے حکمرانی میں تبدیل کر دیا اور ایک ہم ہیں کہ جو غلام در غلام بنے ہوئے ہیں کاش آج کے اس دور میں بھی کوئی غلام قطب الدین ایبک کی طرح اپنے غلامی کو مات دیکر ہمیں آزادی کی نعمت سے مالا مال کر دے۔