Column

پاکستان میں دہشت گردی کی آبیاری کس طرح سے ہوئی؟

قاضی سمیع اللہ

بلاشبہ پاکستانی ریاست سیاسی اور معاشی اعتبار سے عدم استحکام کا شکار ہے۔ ایسا کیوں ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔اس ضمن میں سب سے پہلے تو سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت پیش آئے گی اور اس کے بعد دوسرے سابق ڈکٹیٹر جنرل ( ر) پرویز مشرف کی حکومتی پالیسیوں کا پوسٹ مارٹم کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ آج ریاست کو اندرونی اور بیرونی دہشت گردی کا سامنا ہے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومت اور عسکری ادارے دو بڑے آپریشن ( آپریشن ضرب عضب،آپریشن ردالفساد) کر چکے ہیں اور تیسرے آپریشن کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں جسے ’’ آپریشن عزم استحکام‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم اس موضوع پر آگے بڑھیں یہ بیان کرتے چلیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں، اس ضمن میں ہمیں سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے دوران افغانستان میں ہونے والے امریکی فوجی آپریشن پر نظر ڈالنی پڑے گی۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی طرف سے آپریشن سائیکلون جو 3 جولائی 1979ء کو شروع کیا گیا تھا جبکہ سوویت یونین ( روس) کی فوجیں 24دسمبر 1979ء کو افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ اس آپریشن کا مقصد افغانستان میں بر سر پیکار مجاہدین کو 1979ء سے 1989ء کے درمیان ہتھیار فراہم کرنا تھا۔ آپریشن سائیکلون دراصل امریکہ کی سابق سویت یونین ( روس) کے خلاف پروپیگنڈا جنگ تھی جس کو ’’ گرم پانی‘‘ تک رسائی جیسے مفروضوں سے تراشا گیا۔ امریکہ کی اس نام نہاد جنگ میں امریکہ کے سعودی عرب اور پاکستان دو بڑے اتحادی تھے۔ اسی جنگ کی بدولت پاکستان میں افغان مہاجرین ہی نہیں بلکہ منشیات اورکلاشنکوف کلچر بھی ساتھ آئے۔ اس دور میں افغانستان میں امریکہ کی جنگ لڑنے والوں کو ’’ مجاہدین‘‘ کہا جاتا تھا اور ملک میں انھیں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہو تی تھی۔ ہم اس جنگ کا حصہ کیوں بنے؟، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کیے بغیر ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
اکتوبر 1999ء میں سابق ڈکٹیٹر جنرل ( ر) پرویز مشرف اقتدار پر قابض ہوتے ہیں اور اس دور میں سال 2001ء میں امریکہ کے اتحادی ہوتے ہوئے یک دم مخالف سمت میں پلٹا کھانا پڑتا ہے۔ امریکہ کی یہ نام نہاد نئی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب ستمبر 2001ء کونیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی بلند و بالا عمارتوں سے دو مسافر بردار طیارے ٹکرائے گئے۔ امریکہ کی طرف سے حادثے کا ذمہ دار القاعدہ کو ٹھہرا یا گیا جس کے سربراہ اسامہ بن لادن تھے جو افغانستان میں مقیم تھے، امریکہ نے اسامہ کی حوالگی کے لیے افغان حکومت سے مطالبہ کیا لیکن افغان حکومت کے امیر مُلا عمر نے امریکی مطالبہ کو مسترد کر دیا۔ اس موقع پر امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کو ایک عالمی مسئلہ بناکر پیش کیا گیا اور اس کی آڑ میں امریکہ نے افغانستان اور عراق پر جنگ مسلط کردی، جسے ’’ وار آن ٹیرر‘‘ کا نام دیا گیا اور اس جنگ کا پہلا ہدف افغانستان کو بنایا گیا۔ اس دوران سابق ڈکٹیٹر جنرل ( ر) پرویز مشرف کی طرف سے امریکی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے پاکستان کو امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنایا گیا۔ یہی وہ موقع تھا جب مشرف نے ’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ متعارف کرایا تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد ملی تاہم اس کی وجہ سے ملک میں بد امنی اور دہشت گردی کا ایک نیا باب بھی کھلا۔ اس طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں جنہیں مجاہدین کہا جاتا تھا اب وہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر دیئے گئے، جو کل تک مجاہدین کی حیثیت سے پذیرائی حاصل کرتے تھے وہ آج خود کو چھپاتے پھر رہے تھے۔ ایک بار پھر وہی سوال ہمارے سامنے ہے کہ ایسا کیوں ہے؟، یہی وہ سوالات ہیں جو ہمیں معاملے کی جڑ تک پہنچا سکتے ہیں اور اس کے بعد اس کا سد باب بھی ممکن ہو سکے گا۔
پاکستان میں دہشت گردی کی لہر اب بھی موجود ہے اس ضمن میں پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی سالانہ رپورٹ 2023کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جس میں کہا گیا گیا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ سال2023 میں دہشت گردی کے 306حملوں میں 693 لوگ اپنی جانوں سے گئے اور1124افراد زخمی ہوئے۔ 2022کے مقابلے پر 2023میں دہشت گردی کے واقعات میں 17فیصد اضافہ ہوا جبکہ جانی نقصان 2022کے مقابلے میں 65فیصد زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 39 فیصد اضافہ ہوا ہے، گزشتہ سال کے تناسب کے حوالے سے دیکھا جائے تو پنجاب میں دہشت گردی میں 100فیصد اضافہ ہوا ہے اور سندھ میں یہ اضافہ 87فیصد ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں 3فیصد ہے مگر دہشت گردانہ حملوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان میں خیبر پختونخوا سب سے آگے ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ آج سے 10سال پہلے تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ ریاست کے خلاف متحرک تھے مگر اب طالبان کے ساتھ داعش خراسان اور بلوچستان لبریشن آرمی کی کارروائیاں نہ صرف یہ کہ مسلسل بڑھ رہی ہیں بلکہ ملک میں 82فیصد حملوں کے ذمہ دار یہ تینوں گروہ ہیں۔رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے ان واقعات میں سب سے بڑا حصہ مذہبی عسکریت پسندوں کا ہے جن میں تحریک طالبان پاکستان، تحریک جہاد پاکستان، حافظ گل بہادر گروپ داعش خراسان شامل ہیں، جنہوں نے گذشتہ سال ہونے والے کل 306حملوں میں سے 208حملے کیے ہیں جن میں 579جانیں گئیں۔ رپورٹ کے مطابق خیال کیا جا رہا تھا کہ پاکستان شدت پسندی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے قریب ہے اب یہ تاثر نہ صرف ختم ہو رہا ہے بلکہ یہ پہلے سے بڑے پیمانے پر اور ملک کے زیادہ حصے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا بیج کیسے بویا گیا اور اس کی آبیاری کس طرح سے ہوئی جس کی وجہ سے پاکستان مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے، معیشت ادھار پر چل رہی ہے، مہنگائی اور بے روزگاری قوم کا مقدر بن چکی ہے۔ بہر کیف دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کا تعین کیے بغیر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جتنے بھی آپریشن کیے جائینگے وہ کامیاب تو ہوسکتے ہیں لیکن پائیدار نہیں ہونگے۔
پاکستان میں جس طرز کی دہشت گردی جاری ہے اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ اُن پالسیوں کا نتیجہ ہے جو پہلے سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق اور بعد میں سابق دکٹیٹر جنرل ( ر) پرویز مشرف کی طرف سے اپنائی گئیں تھیں، حالانکہ دونوں جرنیلوں کی پالیسیوں میں زاویاتی تضاد بھی تھا، یعنی اول ذکر مذہبی تو دوسرا لبرل ازم کے لبادہ اوڑھے ہوا تھا۔ بھاڑے کی اس جنگ سے ملکی معیشت کو تو کیا فائدہ ہونا تھا اور کیا ہوا ہوگا لیکن اس کا نتیجہ اس قدر بھیانک نکلا کہ جس کی توقع یقینا مذکورہ دونوں فوجی آمروں نے بھی نہیں کی ہوگی۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج پاکستان دہشت گردی کی صورت میں جو کچھ خمیازہ بھگت رہا ہے وہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل ( ر) پرویز مشرف کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان آمروں کی پالسیوں پر تنقید کیے بغیر ہم بڑھ سکیں۔
ماضی میں جو کچھ بھی ہوا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان کو درپیش چیلنجوں میں ایک سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی بھی ہے جس سے نمٹنا ہر صورت ہوگا، اس کے لیے اگر ’’ آپریشن عزم استحکام‘‘ کرنا پڑتا ہے تو کیا جائے، ضرورت پڑتی ہے تو بار بار کیا جائے، لیکن پاکستان کو دہشت گردی کے ناسور سے ہر صورت پاک کیا جائے اور ساتھ ہی یہ عہد بھی کیا جائے کہ پاکستان آئندہ کسی کی بھی پرائی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔

جواب دیں

Back to top button