Uncategorized

ملک میں گردوں کے سالانہ ایک ہزار ٹرانسپلانٹ, 500 غیر قانونی

پاکستان میں گردوں کے آدھے سے زیادہ ٹرانسپلانٹ غیر قانونی طور پر کیے جا رہے ہیں، ملک میں گردوں کے سالانہ ایک ہزار ٹرانسپلانٹ ہوتے ہیں جن میں سے 500 کے قریب غیر قانونی طور پر کیے جاتے ہیں، پنجاب میں لاہور اور راولپنڈی جبکہ اسلام آباد غیر قانونی گردوں کی پیوندکاری کے گڑھ ہیں۔ اسلام آباد میں بھی گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری بڑی تعداد میں کی جا رہی ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں بعد از مرگ اعضاء کو عطیہ نہ کرنے کا رجحان ہے۔ ایک انسان کے اعضاء سے 11 افراد کی جان بچ سکتی ہے جبکہ بعد از مرگ گردے عطیہ کر کے ایک فرد دو افراد کی جان بچا سکتا ہے۔
یہ باتیں صدر پاکستان ٹرانسپلانٹ سوسائٹی اور کڈنی ٹرانسپلانٹ سرجن پروفیسر سعید اختر نے ایک انٹرویو میں کہیں . انہوں نے کہا گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری شرعی طور پر بھی حرام ہے، جس کا میڈیکل رزلٹ بھی اچھا نہیں آتا کیونکہ غیر قانونی پیوندکاری کرنے والے بہت ساری باتوں کا خیال نہیں رکھتے جس کی وجہ سے مریض کا جسم گردے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ ہزاروں افراد اعضاء کی پیوند کاری نہ ہونے کے سبب جاں بحق ہو رہے ہیں، جبکہ صرف دل کے بعد از مرگ عطیہ نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان میں سالانہ سیکڑوں نوجوان جاں بحق ہو رہے ہیں۔ لوگ بعد از مرگ اعضاء عطیہ کرنے کے لیے اپنی زندگی میں ہی وصیت کریں۔ ان کے اندازے کے مطابق پاکستان میں 10 لاکھ افراد کو دل کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے، پاکستان میں صرف سالانہ 25 ہزار دل کے آپریشن ہوتے ہیں جبکہ لاکھوں افراد دل کی سرجری نہ ہونے کے سبب اپنے گھروں میں ہی انتقال کر جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button