سپیشل رپورٹ

عمران خان کی رہائی: سابق جنرل٬ دو سابق وزیر متحرک

پاکستان بلاشبہ اس وقت ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ ایک جانب ابتر معاشی صورتحال ہے تو اسکے ساتھ سیاسی عدم استحکام جلتی پر تیل ہے۔ سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنا ہے تو جیل میں قید عمران خان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اسی حوالے سے ایک بڑی خبر سامنے آئی ہے کہ ایک گروپ جس میں ایک معروف سابقہ تھری سٹار جنرل اور دو وفاقی وزرا شامل ہیں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات بنانے کے لئے سرگرم ہے۔ یہ خبر سینیئر صحافی انصار عباسی نے اپنے کالم بعنوان ‘عمران خان کی گارنٹی کون دے گا’ میں دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ معاملات جب بھی طے پائے اس نکتے کو حل کیئے بغیر نہ طے پائیں گے کہ عمران خان کی گارنٹی کون دے گا؟ مزید کہتے ہیں کہ دو دن قبل مجھے ایک سورس سے معلوم ہوا کہ چند اہم شخصیات عمران خان اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات کو سلجھانے کے لیے سوچ بچار کر رہی ہیں۔

اس پر میری ان شخصیات میں سے ایک سے بات ہوئی، جنہوں نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ ’’پاکستان کے خیر خواہوں‘‘ کا ایک گروپ جس میں وہ بھی شامل ہیں نہ صرف عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا معاملہ حل کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے کیلئے سوچ بچار کر رہاہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بھی دشمنی اور نفرت کی سیاست کا خاتمہ چاہتا ہے۔

مجھے بتایا گیا کہ اب تک کم از کم تین ’’پاکستان کے خیر خواہ‘‘ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور آئندہ دنوں میں کچھ اور بھی لوگ اس گروپ میں شامل ہو سکتے ہیں تاکہ قومی ہم آہنگی اور سیاسی استحکام کیلئے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ ابھی تک جو تین لوگ آپس میں اس سلسلے میں رابطے میں ہیں اُن میں سے دو سابق وفاقی وزراء ہیں جبکہ تیسری شخصیت ایک معروف ریٹائرڈ تھری اسٹار جنرل ہیں۔ تینوں جانے پہچانے چہرے ہیں۔مجھے بتایا گیا کہ اس مرحلے پر پاکستان کے یہ خیر خواہ اپنی شناخت ظاہر کرنے کے خواہشمند نہیں لیکن آنے والے دنوں میں وہ سامنے آ سکتے ہیں۔

اس گروپ کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج کوکیونکر ختم کیا جائے اور عمران خان اور دوسری سیاسی جماعتوں کو کیسے ایک ساتھ بٹھایا جائے۔؟ اس سلسلے میں میری ایک خبر گزشتہ روز جنگ اور دی نیوز میں شائع ہوئی۔کل میرا دوبارہ اپنے ذرائع سے رابطہ ہوا جس پر اُن کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اُن کی کوشش کا ایک دو مہینوں میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے یعنی اس بات کا تعین ہو جائے گا کہ آیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے بات کرنے کے لیے تیار ہو گی یا نہیں۔

دو دن قبل مجھے ایک سورس سے معلوم ہوا کہ چند اہم شخصیات عمران خان اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات کو سلجھانے کے لیے سوچ بچار کر رہی ہیں۔

اس پر میری ان شخصیات میں سے ایک سے بات ہوئی، جنہوں نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ ’’پاکستان کے خیر خواہوں‘‘ کا ایک گروپ جس میں وہ بھی شامل ہیں نہ صرف عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا معاملہ حل کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے کیلئے سوچ بچار کر رہاہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بھی دشمنی اور نفرت کی سیاست کا خاتمہ چاہتا ہے۔

مجھے بتایا گیا کہ اب تک کم از کم تین ’’پاکستان کے خیر خواہ‘‘ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور آئندہ دنوں میں کچھ اور بھی لوگ اس گروپ میں شامل ہو سکتے ہیں تاکہ قومی ہم آہنگی اور سیاسی استحکام کیلئے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ ابھی تک جو تین لوگ آپس میں اس سلسلے میں رابطے میں ہیں اُن میں سے دو سابق وفاقی وزراء ہیں جبکہ تیسری شخصیت ایک معروف ریٹائرڈ تھری اسٹار جنرل ہیں۔ تینوں جانے پہچانے چہرے ہیں۔مجھے بتایا گیا کہ اس مرحلے پر پاکستان کے یہ خیر خواہ اپنی شناخت ظاہر کرنے کے خواہشمند نہیں لیکن آنے والے دنوں میں وہ سامنے آ سکتے ہیں۔

اس گروپ کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج کوکیونکر ختم کیا جائے اور عمران خان اور دوسری سیاسی جماعتوں کو کیسے ایک ساتھ بٹھایا جائے۔؟ اس سلسلے میں میری ایک خبر گزشتہ روز جنگ اور دی نیوز میں شائع ہوئی۔کل میرا دوبارہ اپنے ذرائع سے رابطہ ہوا جس پر اُن کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اُن کی کوشش کا ایک دو مہینوں میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے یعنی اس بات کا تعین ہو جائے گا کہ آیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے بات کرنے کے لیے تیار ہو گی یا نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button