سپیشل رپورٹ

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو رہی؟

قطر کی میزبانی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ بات چیت بعض مسائل پر اہم اختلافات کے درمیان مشکل مرحلے میں دکھائی دیتی ہے۔

حماس جنگ کے مستقل خاتمے، اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء اور بے گھر لوگوں کی اپنے گھروں کو واپسی کے بدلے مرحلہ وار تقریباً 100 اسرائیلی اسیران کی رہائی کی تجویز پیش کر رہی ہے۔

الجزیرہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے جنگ کے خاتمے اور غزہ سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔

اسرائیلی مذاکرات کاروں نے کہا کہ وہ روزانہ صرف 2000 فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دیں گے، یعنی تمام بے گھر فلسطینیوں کو رفح سے نکلنے میں دو سال سے زیادہ کا وقت لگے گا۔

اسرائیل چاہتا ہے کہ تمام اسرائیلی اسیران کو فوری رہا کیا جائے۔ حماس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں صرف خواتین اور بچوں کو رہا کرے گی۔

حماس کے ایک عہدیدار باسم نعیم نے الجزیرہ کو بتایا کہ اسرائیلی مذاکرات کار غزہ پر جنگ ختم کرنے کے عزم کے بغیر قیدیوں کو رہا کرنا چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ حماس نے ثالثوں کو بتایا کہ گروپ "مزید کسی تجویز پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے”۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی امریکی قرارداد مسترد ہو گئی۔ روس نے موقف اپنایا کہ قرارداد کا مقصد اسرائیل کو رفح میں حملوں کی اجازت دینا ہے جب کہ چین نے کہا کہ بلامقصد قراردادوں سے غزہ میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ 15میں سےگیارہ ممالک نےقراردادکےحق میں ووٹ دیا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کی ہے اور غزہ کی جنگ میں جنگ بندی اور دو ریاستی حل کی حمایت کے مطالبے کا اعادہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا قطر میں ہونے والے مذاکرات میں ایک معاہدے کے لیے زور دے رہا ہے، وہاں تک پہنچنے کے لیے مشکل کام ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ اب بھی ممکن ہے یہ مشکل دن ہیں لیکن یہ صرف بہتر دن حاصل کرنے کی خواہش کو تقویت دیتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button