Column

جھاڑو

علیشباہ بگٹی
ایک مرتبہ کسی یہودی کے مکان کے قریب حضرت مالک دینار نے مکان کرایہ پر لے لیا اور آپ کے اس مکان کا حجرہ یہودی کے دروازہ سے متصل تھا۔ چنانچہ یہودی نے دشمنی میں ایک ایسا نالہ بنوایا جس کے ذریعے پوری غلاظت آپ کے مکان میں ڈالتا رہتا اور آپ کی نماز کی جگہ نجس ہو جایا کرتی۔ یہودی بہت عرصہ تک یہ عمل کرتا رہا لیکن آ پ نے کبھی اس سے شکایت نہیں کی۔ ایک دن اس یہودی نے خود ہی آپ سے عرض کیا ’’ میرے پر نالے کی وجہ سے آپ کو تو کوئی تکلیف نہیں‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’ پر نالہ سے جو غلاظت گرتی ہے اس کو جھاڑو سے روزانہ دھو ڈالتا ہوں اس لیے مجھ کو کوئی تکلیف نہیں‘‘۔ یہودی نے عرض کیا ’’ آپ کو اتنی اذیت برداشت کرنے کے بعد بھی کبھی غصہ نہیں آیا‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’ جو لوگ غصے پر قابو پا لیتے ہیں ، نہ صرف ان کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں بلکہ انہیں ثواب بھی حاصل ہوتا ہے‘‘۔۔۔۔۔ یہ سن کر یہودی نے عرض کیا ’’ یقیناً آپ کا مذہب بہت عمدہ ہے کیوں کہ اس میں دشمنوں کی اذیتوں پر صبر کرنے کو اچھا کیا گیا ہے۔ اس لیے آج سے میں سچے دل سے اسلام قبول کرتا ہوں‘‘۔۔۔
اروند کیجریوال 16اگست 1968ء کو بھارتی صوبے ہریانہ میں پیدا ہوئے ۔ بی ٹیک ( مکنیکل انجینئر) کی تعلیم حاصل کی۔ اروند کیجروال سرکاری ملازم تھے۔ سرکاری محکموں میں کرپشن دیکھی تو سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیکر سرکاری محکموں میں کرپشن کے خلاف آواز بلند کی. پھر سیاست میں داخل ہوئے اپنی پارٹی ، عام آدمی پارٹی بنائی جس کا انتخابی نشان جھاڑو رکھا۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ بنے۔ وہ 49دن تک دہلی کے وزیر اعلیٰ رہے۔ انہوں نے 28دسمبر 2013ء کو اپنے عہدے کا حلف لیا تھا۔ 14فروری کو اروند کیجریوال نے کرپشن بل منظور نہ ہونے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ ایک دن روڈ شو کے دوران ایک آٹو رکشا ڈرائیور لالی پرشاد نے اروند کیجریوال کو تھپڑ مار دیا۔۔ کیجریوال، اس 38سالہ لالی سے ملنے اس کے گھر کیراری پہنچے اور اسے گلے لگا لیا۔۔ کیجریوال کا رویہ دیکھ کر لالی حیران رہ گیا۔ اس نے کیجروال سے معذرت کی اور بتایا کہ وہ وزارت اعلیٰ کا عہدے چھوڑنے پر ان سے ناراض تھا اور اتنی بڑی غلطی کر بیٹھا۔۔ اس دوران، لالی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کے بعد کیجریوال اس کی نظر میں دیوتا ہیں۔ دلی میں لوڈشیڈنگ تھی، بجلی مہنگی تھی، سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت بری تھی، سڑکوں کی حالت بھی بہت خراب تھی، دلی میں صرف پچاس فیصد پانی کی سپلائی کیلئے پائپ لائن تھی، کیجریوال نے محنت کی۔ اب دلی میں لوڈشیڈنگ نہیں ہے، بجلی فری ہے، سرکاری سکولوں میں تعلیم فری ہے، دلی کے ہسپتالوں میں علاج مفت ہوتا ہے، کیجریوال نے دلی میں محلہ کلینک متعارف کرایا۔ پورے بھارت میں دلی واحد ریاست ہے جہاں مالیاتی خسارہ نہیں، سات سال میں دلی حکومت کا بجٹ 30ہزار کروڑ سے بڑھ کر 75ہزار کروڑ ہوگیا ہے اس دوران دلی کے جی ڈی پی میں 150فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اروندکیجریوال اب تیسری مرتبہ دلی کے وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں، آج دلی کے دو کروڑ شہریوں کو بنیادی سہولیات مفت حاصل ہیں۔ دلی کی سڑکیں شاندار ہیں، انہوں نے دلی کی عورتوں کے لئے مفت ٹرانسپورٹ مہیا کر رکھی ہے۔ کیجریوال جدید ٹیکنالوجی کے قائل ہیں۔ انہوں نے مختلف ایپس بنا رکھی ہیں۔ آپ ہر وقت ایپ کے ذریعے سکول میں گئے ہوئے بچے کو گھر سے چیک کر سکتے ہیں۔ دلی میں لوگوں کی حفاظت کے لئے اتنے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر دیئے گئے ہیں کہ دلی، نیویارک، لندن اور شنگھائی سے اس معاملے میں آگے نکل گیا ہے۔ اروند کیجریوال دلی کے شہریوں کو کرپشن سے بھی بچا رہے ہیں۔ انہوں نے دلی میں یہ طریقہ شروع کر رکھا ہے کہ دلی کا کوئی بھی شہری جس نے پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ڈومیسائل یا پھر کوئی لائسنس بنوانا ہو وہ ایپ یا بذریعہ فون بتائے گا کہ میں فلاں وقت گھر پر ہوں گا اور مجھے ڈومیسائل یا لائسنس بنوانا ہے۔۔۔ شہری نے بتا دیا۔ اب شہری کا کام ختم، اب کیجریوال سرکار کا کام شروع۔ دلی کے شہری کے بتائے گئے مقام پر ایک ٹیم آئے گی، ان کے پاس فوٹو کاپی مشین بھی ہوگی۔ یہ ٹیم اپنی کارروائی کرکے چلی جائے گی، اس کارروائی کے بعد سات دن کے اندر حکومت پابند ہوگی کہ وہ شہری کا ڈومیسائل یا لائسنس اس کے گھر پر مہیا کرے۔ اس طرح شہری کو نہ کہیں جانا پڑا، نہ دفتروں میں دھکی کھانے پڑے اور نہ ہی کسی کو رشوت دینا پڑی۔ اسے جس چیز کی ضرورت تھی وہ اسے گھر پر مہیا کر دی گئی۔
اس وقت دلی کی اسمبلی میں 62نشستیں اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کی ہیں جبکہ مودی کی بی جے پی کے پاس صرف آٹھ نشستیں ہیں۔ دہلی ماڈل دیکھ کر بھارت کی دوسری ریاستوں کے لوگ اپنی اپنی حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ بجلی، اسکول، صحت، ٹرانسپورٹ؟ جواب آتا ہے کہ کیسے کریں؟ لوگ جواباً کہتے ہیں جیسے کیجریوال نے دلی کے لوگوں کو سب مہیا کیا ہے۔ کیجریوال پر بہت دبائو تھا کہ وہ اپنی پارٹی کو دلی سے باہر نکال کر دوسری ریاستوں میں بھی لائیں کیونکہ کیجریوال کہتا ہے کہ ۔۔۔ ’’ میں ہر شہری کا وزیر اعلیٰ ہوں خواہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو، خواہ وہ کسی بھی ذات کا ہو‘‘۔ سیاسی دبائو پر کیجریوال نے پنجاب میں رسک لیا۔
پہلے آپ کو بتا دوں کہ پنجاب ہے کیا؟ 1947ء میں تقسیم سے پہلے پانچ دریائوں کی دھرتی پنجاب کے پانچ ڈویژن تھے۔ لاہور، راولپنڈی اور ملتان ہمارے حصے میں آگئے جبکہ دہلی اور جالندھر بھارت کے حصے میں، انہوں نے دہلی کو الگ ریاست بنایا، پنجاب ہی سے نکال کر ہریانہ کو الگ صوبہ بنایا، ہما چل پردیش کو بھی صوبہ بنایا۔ پنجاب کا بہت سا حصہ راجستھان کو دے دیا۔ اب جو باقی بچا وہی ہندوستان میں بچا کھچا پنجاب ہے۔ اسی سال 2022ء میں اروند کیجریوال نے اپنی پارٹی کو پنجاب میں الیکشن میں اتارا تو اس کی پارٹی نے بڑے بڑے لیڈروں کو ہرا کر 117میں سے 92 سیٹیں جیت لیں۔۔۔ پنجاب کے لوگوں نے بھی دہلی ماڈل کو پسند کیا۔ کانگرس پھر بھی اٹھارہ سیٹیں لے گئی، بی جے پی تو صرف ایک دو سیٹوں تک ہی محدود رہی۔ اب جب حلف کی باری آئی تو پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے بھگت سنگھ کے گائوں میں حلف لیا۔ ویسے بھگت سنگھ نے کہا تھا کہ ۔۔۔ ’’ اگر ہم آزادی کے بعد نظام نہیں بدلیں گے تو کچھ نہیں ہوگا‘‘۔۔۔
’’ عام آدمی پارٹی‘‘ کے امیدوار جو موبائل فون کی دکان پر سیلز مین ہے نے وزیراعلیٰ چرن جیت سنگھ کو شکست دیدی۔ وزیر اعلیٰ کو شکست دینے والے لابھ سنگھ اگو کے والد کھیتوں میں مزدور اور والدہ اسکول میں خاکروب ہیں۔
کیجریوال کہتا ہے کہ ۔۔۔ ’’ ہمارے دیس میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے انگریزوں کا دیا ہوا نظام اپنا رکھا تھا، میں نے اسے بدل دیا ہے‘‘۔۔۔ یاد رہے کہ اروند کجریوال نے الیکشن میں رکشے والوں، دکانداروں، عام غریبوں کو پارٹی ٹکٹ دے کر الیکشن میں کھڑا کیا۔ پنجاب کے ہر گھر کیلئے 300یونٹ بجلی فری یعنی بلا معاوضہ کر دی ہے۔
پاکستان کے سیاست دان کہاں غریب آدمی کا خیال کریں گے یہ لوگ ذاتی مفادات کا سوچتے ہیں، یہ صرف پاکستانی خزانے پر جھاڑو پھیرنے پر ماہر ہیں۔ یہاں سب ترقیاتی کام اور انکا معیار تو دور کی بات ہے۔ بلوچستان کے دور دراز علاقوں کی بات چھوڑیں۔ کوئٹہ جیسے دو چار کلومیٹر کی صفائی کا کام آج تک کوئی وزیر اعلیٰ نہیں کر اسکا۔ آج بھی جگہ جگہ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر پڑ ے ہوئے ہیں۔ کاش ہمارے سیاستدان کیجریوال ہی سے کچھ سیکھ لیں۔۔۔
مگر مثال ہے کہ جھاڑو کی طرح صفائیاں دیتے ہوئے زندگی گزارنے سے کہیں بہتر ہے بیلچہ بنو اور اٹھا پھینکو۔۔ اب تو بندوں کے دل و سوچ میں ہی گندگی کے ڈھیر بن چُکے اب کوئی جھاڑو کیا کوئی vacuum cleanerبھی انسانوں کے اس اندر کے کوڑا کرکٹ کو صاف نہیں کر سکتا۔۔ شاعر کہتا ہے۔
غصے وچ نہ آیا کر. ٹھنڈا کر کے کھایا کر
دن تیرے بھی پھر جان گے، اینوی نہ گھبرایا کر
پیار دی ایسے بوٹے لا، سارے پنڈ تے سایہ کر
اپنے اندروں جھوٹ مکا، سچ دا ڈھول بجایا کر
رکھی سکھی کھا کے توں، سجدے وچ ٹر جایا کر
من اندر توں جھاڑو دے، اندر باہر صفایا کر
مارٹن لوتھر کنگ کا یہ مقولہ سونے سے لکھنے کے لائق ہے۔ ’’اگر کسی شخص کا کام سڑک پر جھاڑو لگانا ہے تو اسے سڑک پر جھاڑو اس طرح لگانا چاہیے گویا مائیکل اینجلو پینٹنگ کر رہا ہے یا بیتھوون موسیقی ترتیب دے رہا ہے یا شیکسپیئر شاعری کر رہا ہے۔
اسے سڑک اس طرح سے صاف کرنا چاہیے کہ زمین و آسمان اس سڑک کی صفائی دیکھنے کے لیے رک جائیں اور یہ کہیں یہاں ایک خاکروب بہترین کام کر کے گیا ہے‘‘۔
مدعا یہ ہے کہ زندگی میں مطلب، مقصد خود پیدا کیا جاتا ہے۔ اپنے کام کو چھوٹا کام سمجھنا درست نہیں- ہر کام بڑا کام ہوتا ہے۔ اسے اپنا مشن سمجھ کے کرنا بہترین ہے۔
بھارتی ریاست بہار میں 40سال سے سڑکوں پر جھاڑو دینے والی خاتون چنتا دیوی اسی میونسپل کارپوریشن میں ڈپٹی میئر منتخب ہوگئی۔ خاتون کو یہ عہدہ علاقے کے عوام کی ان کی شہر کی صفائی کے لیے 40سالہ خدمات کے اعتراف کے طور پر بھاری اکثریت سے کامیاب کرا کے کیا ہے۔ جس کے بعد چنتا جس دفتر کی صفائی کرتی تھیں اب اسی دفتر میں بیٹھ کر صفائی کے منصوبے بنائیں گی چنتا دیوی ناخواندہ خاتون ضرور ہے لیکن وہ صفائی کا شعور رکھتی ہے۔ 40سال سے وہ میونسپل کارپوریشن کی حدود میں سڑکوں پر جھاڑو لگاتی رہی ہے۔ اس دوران اس نے شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے اپنے سر پر گندگی اٹھانے کا کام کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ خاتون عمر بڑھ جانے کے باعث گزشتہ کچھ عرصے سے سبزی فروخت کرنے کا کام کر رہی تھی۔ تاہم بہار کے شہری چنتا اور اس کی خدمات کو نہیں بھولے یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی ریاست بہار کی گیا میونسپل کارپوریشن میں عہدہ خالی ہونے پر بڑے بڑے ناموں کے بجائے چنتا دیوی کو ہی اس کے لیے موزوں سمجھا اور پھر جب چنتا میدان میں اتری تو عوام کی مکمل تائید و حمایت سے ریکارڈ ووٹوں سے کامیابی حاصل کی اور نکیتا راجک کو 27ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دے کر ڈپٹی میئر منتخب ہونے کا تاریخی کارنامہ انجام دے ڈالا۔ چنتا کی اس تاریخی کامیابی پر گیا کے سابق ڈپٹی میئر موہن سریواستو بھی بہت خوش ہوئے اور کہا کہ گند ڈھونے والی خاتون نے ڈپٹی میئر کا الیکشن جیت کر تاریخ رقم کی ہے۔ جس طرح بھگوتی دیوی سر پر ٹوکری لے کر رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی تھیں اسی طرح میلا ( انسانی غلاظت) ڈھونے والی چنتا دیوی نے بھی ڈپٹی میئر کا عہدہ حاصل کرلیا۔ اپنی کامیابی پر نومنتخب ڈپٹی میئر چنتا دیوی نے عوام کا شکریہ ادا کیا اور جذباتی انداز میں کہا کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ یہاں تک کا سفر طے کر پائیں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگ اتنی عزت دیں گے، سوچا نہیں تھا۔ اگر آپ اپنا کام کرتے رہیں تو عوام بھی آپ کی عزت کرتی ہے۔ وہ جس دفتر میں جھاڑو دینے کا کام کرتی تھی، اب وہیں سے بیٹھ کر شہر کی صفائی کا منصوبہ خود بنائیں گی۔_ ہمیں بھی سڑکوں دفتروں گھروں میں جھاڑو لگانے والے غریبوں کے ساتھ اچھا برتا کرنا اور بہترین رویہ اپنانا چاہے کیونکہ اگر وہ جھاڑو لگانے والے ہیں تو کیا ہوا، مگر آخر وہ بھی تو انسان ہیں۔ اگر وہ غریب ہیں تو کیا ہوا ، دولت اور امیری بھی تو خدا دیتا ہے۔ اور صرف غریبِ ہونے کی بنا پر کسی انسان کو حقیر نہیں سمجھنا چاہے کیونکہ آپ کی پیسوں کی، طاقت کی، کرسی کی، تندرستی کی دولت پر جھاڑو پھرنے میں قدرت کو ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔
جھاڑو ہر اس جگہ پائی جاتی ہے جہاں انسان رہتے ہیں یہ اور بات ہے امیر منہ میں سونے کا چمچہ اور غریب ہاتھ میں جھاڑو لے کر پیدا ہوتا ہے جھاڑو امیر کے گھر میں بھی ہوتی ہے اور غریب کے گھر بھی ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں جگہ جھاڑو غریب ہی لگاتے ہیں۔ جھاڑو کوئی بھی استعمال کرے ۔ اس کا کام کچرا صاف کرنا ہوتا ہے ۔ جھاڑو دنیا ایک آرٹ ہے۔ ہمارے بلوچستان کے حکمران کچروں کی صفائی کے لیے جھاڑو کرانے سڑکوں گلی محلوں کی صفاءی ستھرائی کرانے سے بالکل بھی کام نہیں رکھتے۔ وہ صرف بلوچستان کے خزانے پر جھاڑو پھیرنا اچھے سے جانتے ہیں۔ جھاڑو کے ساتھ بہت سے توہم بھی وابستہ ہیں جیسے کہتے ہیں جھاڑو کو کھڑا نہ رکھو اس سے قرض بڑھتا ہے شام کے وقت جھاڑو دینے سے گھر میں تنگ دستی بڑھتی ہے، بہرحال جھاڑو خود کچرے اور غلاظت میں رہتی ہے مگر دوسروں کو صاف ستھرا ماحول مہیا کرتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button