Column

بیرسٹر گوہر خان کا صحیح چوائس یا ؟

نذیر احمد سندھو
لیول پلیئنگ فیلڈ کا جھٹکا، خان صاحب کو الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن پر عدم اعتماد جھٹکا۔ کیا بات ہے اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا ۔ انٹرا پارٹی الیکشن کا قانون تو سن رکھا تھا مگر عملی مظاہرہ کمزور سی شکل میں ہی سہی کی ابتداء پی ٹی آئی نے کی۔ باقی پارٹیاں تکلف برطرف پر ہی اکتفاء کرتی رہیں۔ ائر مارشل اصغر خان ایماندار فوجی اور ایماندار سیاستدان کی شہرت رکھتے تھے۔ انہوں پہلی سیاسی پارٹی، جسٹس پارٹی، بنائی جس کے جنرل سیکرٹری منظر بشیر تھے۔ منظر بشیر امیر ترین شخص تھے اور لاہور کے چیئرنگ کراس میں واقع شاہ دین بلڈنگ جیسی قیمتی عمارت کے مالک تھے جلد سیاست سے مایوس ہو کر سارے اثاثے بیچ کر لندن سدھار گئے۔ لالچ اور بددیانتی کا المیہ دیکھو اتنی دولت کے باوجود وہ کافی مقدار میں ہیروئن باندھ کر ساتھ لے گئے ہیتھرو ائر پورٹ پر ہیروئن پکڑی گئی، ملکیت سے منکر ہوئے مگر سامان سے گوروں کو ایک ڈائری ملی جس میں ہیروئن کی قیمت خرید اور برطانیہ میں قیمت فروخت کا حساب تھا، تحریر بھی ان کے ذاتی پاک صاف ہاتھوں کی تھی لہذا جیل گئے اور پھر نامعلوم ہو گئے۔ ائر مارشل صاحب نے دوسری سیاسی پارٹی، تحریک استقلال، کے نام سے بنائی، چونکہ اصغر خان کی شہرت ایک دیانتدار کی تھی لہذا الحاج پاکستانیوں نے اس میں شامل ہونا گھاٹے کا سودا سمجھا۔ ائر مارشل صاحب خود ہی تا حیات چیئرمین رہے، بیوی شیریں اصغر تاحیات خواتین ونگ کی چیئرمین اور بیٹے عمر اصغر خان نوجوانوں کے تا دم خود کُشی چیئرمین رہے۔ نہ پارٹی تھی نہ کبھی انٹرا پارٹی الیکشن کروائے مگر ہر الیکشن میں تحریک استقلال کے نام پر الیکشن لڑتے رہے مگر کبھی الیکشن کمیشن نے اعتراض نہیں لگایا۔ تحریک استقلال کا ذکر اس لئے کیا ہے ائر مارشل اصغر خان ایماندار اور جمہوریت پسند شخص مانے جاتے تھے انہوں نے ڈپٹی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے استعفیٰ بھی دیا تھا۔ دیگراں تو جمہوریت اور دیانت قانون۔ آئین کا ذکر از را ہے تکلف ہی کرتے ہیں اور انٹرا پارٹی الیکشن کا تکلف بھی بس، شیٹ برائے الیکشن کمیشن تک ہی محدود رکھتے ہیں مگر حیرتاں اور حیرانیاں ، الیکشن کمیشن کو کوئی اعتراض نہیں۔ توشہ خانہ کا مے خانہ بھی الیکشن نے اسی طرز کا کھول رکھا ہے چند جام لٹانے والے مجرم ٹھہرے جو جام و صراحی و پیمانہ ہی لے اڑے وہ خود کو صادق و امین کہتے ہیں ہے کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ آج میاں نواز شریف کا قول زریں ہے کہہ 4سال جلا وطنی کاٹ کے آیا ہوں، کون بتائے کہ محترم آپ کو سزا ہوئی تھی، آپ جیل سے علاج کی غرض سے 4ماہ کے لیے ضمانت پر گئے تھے یہی عدالتیں جو آپ کو بری کر رہی ہیں انہیں عدالتوں نے آپ کو بھگوڑا قرار دیا تھا اشتہاری قرار دیا تھا، مگر کون بتلائے ، ہر کَسے معلوم جلا وطن کی پشت پر گنز ہیں روزز نہیں۔ محترم قارئین! یہ سب ماجرا لکھنے کی وجہ ہے کہ بیرسٹر گوہر کی بطور چیئرمین تعیناتی کے پیچھے الیکشن کمیشن کی بے ثباتیاں ہیں۔ خان صاحب کو نا اہل قرار دیا جا چکا ہے جس کی اپیل پر سماعت ہو چکی اور فیصلہ تادم ضرورت محفوظ ہے۔ ایسا بھی ممکن فیصلہ انٹرا پارٹی الیکشن کی مدت ختم ہونے تک سنایا ہی نہ جائے اور یوں پارٹی پر بین اور بلے کا نشان چھین کر الیکشن جلا وطنوں کیلئے محفوظ بنانے کی کاوشوں کا حصہ بنا دیا جائے۔ خاں صاحب نے پارٹی کی چیئرمین شپ سے دستبردار ہو کر پورے نظام کی سازشی کاوش کو کمزور تو کر دیا ہے مگر خوئے بد را بہانہ بسیار یقیناً ان کے پاس دیگر سازشی ہتھیار بھی ہونگے۔ بیرسٹر گوہر کی نامزدگی اس سازش کو ناکام بنانے کی سعی ہے۔ وہ پارٹی چیئرمین کی نامزد امیدوار ہیں اسی طرح اور بھی نامزدگیاں ہو نگی۔ اگر کسی اور نے کاغذات جمع نہ کروائے تو سب بلا مقابلہ ہو جائیںگے اور یوں الیکشن کمیشن کی شرط پوری ہو جائیگی اگر خفیہ والوں نے اور لوگوں سے بھی کاغذات داخل کروا دئیے تو تاخیر ہو سکتی ہے اور الیکشن کمیشن نے جو وقت مقرر کیا ہے وہ گزر جائے تو یوں سازش مکمل بھی ہو سکتی ہے۔ محترم قارئین! اب خان صاحب کے فیصلے اور بیرسٹر گوہر کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہیں۔ خان صاحب کا فیصلہ بہترین فیصلہ ہے صرف اس لئے نہیں میں ان کو پسند کرتا ہوں سیاسی طور پر بہترین فیصلہ ہے بیرسٹر گوہر یا اسی طرح کی کسی بھی شخصیت کی تعیناتی ہی وقت کی ضرورت تھی۔ قاسم خان یا علیمہ خان کی تعیناتی پر اعتراض ہوتا ہے کہ خان صاحب ہمیشہ موروثی سیاست کے ناقد ہی نہیں مخالف رہے ہیں مگر وقت آنے پر خود وہی راہ اختیار کی۔ بشریٰ بی بی کی تعیناتی موروثیت کے علاوہ بھی بد ترین ہوتی اور سازشی عناصر کی جیت ہوتی۔ بیرسٹر گوہر غیر سیاسی ہیں ٹھنڈا مزاج رکھتے ہیں لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، خیبر پختونخوا سے تعلق ہے، گرم طبیعت کے حامل کسی فرد کے لیے پارٹی چلانا ناممکن ہو تا۔ خان صاحب جیل میں رہ کر قیادت کریں گے مگر کچھ نہ کچھ وقتی ضرورت ہوتی ہے اسے بھی سنبھالنا ہو تا ہے۔ کوئی بھی چیئرمین ہو خان صاحب کی جگہ لے ہی نہیں سکتا یہ محض خانہ پُری ہے۔ پارٹی ووٹرز، ورکرز کا نام ہے اور ایک بھی ووٹر ورکر ایسا نہیں جو خان صاحب کے علاوہ کسی اور کے ساتھ ہو ۔ میں پھر یہ الفاظ دہرائونگا خان صاحب کا فیصلہ حالات اور وقت کی ضرورت کے مطابق ہے اور بہترین ہے۔

جواب دیں

Back to top button