ColumnQasim Asif

زندگی تماشہ اور ہم

محمد قاسم آصف جامی
عرصہ دراز سے فلم ’’ زندگی تماشہ ‘‘ پر مذہبی حلقوں میں بحث و تمحیص جاری تھی کہ اس میں کچھ مواد ناقابلِ برداشت ہے اور ایک مخصوص جماعت اور طبقے کی دل آزاری کرتا ہے۔ ایسا اعتراض ان احباب کی جانب سے فلم کے ٹریلر releaseہونے پر کیا گیا اور بعد ازاں سرِ عام جلسوں اور منبر و محراب سے بھی فلم کے ڈائریکٹر اور سنسر بورڈز کو تنبیہ کی گئی کہ ہمارے جیتے جی یہ فلم منظرِ عام پہ نہیں آسکے گی۔ ایک کمیٹی بنی اور سنسر بورڈ نے کچھ حصے کاٹ کر اجازت سے نوازا، تین اجازت ناموں کے باوجود اَب اس فلم کے سینمائوں تک پہنچنے میں کیا رکاوٹ تھی، اس کی سمجھ نہ آسکی۔
بہرحال ڈائریکٹر صاحب نے آزادی کے مہینے میں اپنے یوٹیوب چینل پہ اپ لوڈ کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ ہم اس ملک میں آئین اور قوانین کے با وصف اپنا مافی الضمیر ظاہر کرنے میں کس قدر آزاد ہیں۔
یہ تو تھا اس کا مختصر سا متنازعہ منظر نامہ، اب آتے ہیں اس فلم کے فکری اور معاشرتی پہلوئوں کی جانب، اس سے قبل ہمیں اس کی کہانی کو سمجھنا پڑے گا۔ یہ کہانی اندرون لاہور کی تنگ گلیوں میں رہنے والے نعت خوان خواجہ راحت کی زندگی کے گرد گھومتی ہے اور معاشرے کی پست فکر اور تنگ ذہن افراد کے رویوں کی عکاسی کرتی دکھائی دیتی ہے جوکہ زمین پہ احتساب کے نام پر خدا بنے بیٹھے ہیں۔ عارف حسین جو کہ خواجہ راحت کا کردار نبھا رہے ہیں ایک چھوٹی سی فیملی کے باوضع، زندہ دل اور شریف النفس ا نسان ہیں۔ مذہبی پروگراموں میں بڑی شان و شوکت سے نعت خوانی کا شرف پاتے ہیں اور اپنی بیٹی ’’ صدف‘‘ سمیت تمام اہلِ علاقہ اور جاننے والوں کے لئے ایک آئیڈیل اور باوقار شخصیت کی اہمیت کے حامل ہیں۔ خواجہ صاحب سلیقے، رکھ رکھائو اور آداب کے ساتھ ہر ایک سے محبت اور خلوص سے پیش آتے ہیں اور تعلق والے سبھی احباب ان کی قدر بھی کرتے ہیں۔ ایسے میں انکے ایک قریبی دوست کے ہاں شادی کے پروگرام میں یہ بھی مدعو ہوتے ہیں اور باتوں باتوں میں پرانے یاروں کی نشست میں بچپن کے احوال کا تذکرہ چِھڑ جاتا ہے، ایک دوست کہتے ہیں کہ راحت تو بچپن میں ڈانس ( رقص) بھی بڑا کمال کا کرتا تھا۔ دوستوں کے اصرار پہ راحت صاحب عمر کے اس حصے میں ایک قدیم پنجابی فلم ’’ نوکر ووہٹی دا‘‘ کے ایک گیت ( زندگی تماشہ بنی، دنیا دا ہاسہ بنی۔۔۔) پر طبع آزمائی فرماتے ہیں، اسی دوران ایک جوان از راہِ تفنن انکی رقص والی ویڈیو سوشل میڈیا پر شئیر کرتا ہے اور یوں انکی عزت و ناموری کی الٹی گنتی کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔
گویا معاشرہ اپنے اصل روپ میں آنے کے لئے بے تاب ہوتا ہے کہ کب کسی کی کوئی ایک منفی چیز ہاتھ لگے اور ہم اسے دنیا کی جہنم کی رسید تھمائیں۔ سوشل میڈیا صارفین، اہل محلہ تو کجا اپنے کچھ قریبی اعزائ اور خاندان کے افراد بھی سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے سوشل بائیکاٹ کی سزا سناتے ہیں۔ وہ محافل اور پروگرامز جن میں خواجہ صاحب مہمان خصوصی اور جانِ مجلس ہوا کرتے تھے وہاں ان کے داخلے پر پابندی اور گلی گلی رقص کرتی تصاویر کے پوسٹرز کے ذریعے ہتک آمیزی کی جاتی ہے۔ نذر و نیاز جوکہ خواجہ صاحب سے بڑی عقیدت اور شوق سے وصول کی جاتی تھی اسے بھی دُھتکار دیا جانے لگتا ہے۔ گویا ایک شخص جوکہ مان اور فخر ہوا کرتا تھا سب انسانی خدائوں کی بارگاہ سے روند دیا جاتا ہے۔ بیٹی اور داماد کی فرمائش پر خواجہ صاحب معذرت خواہانہ ایک کلپ ریکارڈ کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کلپ میں توبہ کی قبولیت کے لئے ایک جاہل اور متشدد مولوی صاحب ہی ہاتھ آئے یا ’’ انہوں‘‘ نے ایسے صاحب کو تلاش کرنے میں منفعت جانی! میرے نزدیک انتخابِ مولوی کا یہ معمہ ابھی بھی سوالیہ نشان ہے۔ اس لیے کہ علماء کی اکثریت اپنے مزاج اور رویے کافی حد تک تبدیل کر چکی ہے۔ ( یاد رہے لمحہ موجود میں عالم اور مولوی میں فرق کرنا ایک لازمی اور ضروری امر ہے) بہرحال وہ مولوی صاحب اپنے مخصوص انداز میں ہدایات جاری کرتے ہیں، جس پر خواجہ صاحب اور اس کے درمیان اَن بَن اور بات ہاتھا پائی تک آن پہنچتی ہے۔ یوں خواجہ صاحب عوام کی عدالت میں توبہ کی توفیق سے محروم ٹھہرتے ہیں۔ کچھ دن بعد ایک محفل میں وہی مولوی صاحب اپنا سابقہ حساب برابر کرنے، اپنی مخصوص تربیت اور مذہبی انتہا پسندی کے پیشِ نظر خواجہ راحت کو دھمکی دیتے ہیں کہ اس محفل سے جاتے ہو یا ’’ لاواں نعرہ گستاخی دا۔‘‘ خواجہ صاحب سہم کر نعت پڑھے بنا ہی واپس گھر کو چل دیتے ہیں۔ راحت خواجہ کی بیمار اور معذور بیوی ہمت اور وفا کی مثال تو تھی ہی لیکن اسی روز خواجہ صاحب کے جھوٹ بولنے ( کہ میں نعت پڑھ آیا ہوں) پر وہ مضبوط اعصاب کی مالکہ ہمت ہار جاتی ہے۔ وہ کیسے برداشت کرتی کہ اس کا مردانہ غرور، وفادار، مخلص، شوخیاں دکھاتا، بال سنوارتا اور خدمت کرتا سلیم الطبع شوہر آج پہلی بار اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ معاشرے کے رویے کی وجہ سے شوہر کے ایسے انداز سے اندر ہی اندر ختم ہوکر زندگی کو خیر آباد کہہ جاتی ہے ۔ ایسے میں شومئی قسمت کہ خواجہ صاحب ساتھ والے کمرے میں ٹیلی ویژن کی آواز کے بلند ہونے کے باعث زندگی میں پہلی مرتبہ اس کی آواز سُن نہیں پاتے یا مرحومہ انہیں آواز دیتی ہی نہیں! اور انکی بیٹی صدف دور سے آکر یہ مناظر دیکھ کر وفات کا ذمہ دار اپنے باپ کو سمجھنے لگتی ہے اور یوں بیگانوں کے ساتھ ساتھ اپنوں کے رویوں اور تلخیوں سے خواجہ راحت کی ’’ زندگی تماشہ‘‘ بن جاتی ہے۔
اب کہانی کے جاننے کے بعد اس کے فکری اور معاشرتی پہلوئوں کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو مذہبی طبقے کو کھوسٹ صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ایک طرح سے مذہبی حلقوں پر معاشرے کی جانب سے جو خاموش اور غیر محسوس پابندیاں ہیں ان کی حوصلہ شکنی کی گئی اور ان کی نفسیات اور خواہشات کے احترام کا ذکر کیا گیا جیسا کہ مذہبی لوگ اگر جِم چلے جائیں، فنون لطیفہ ( شاعری، مصوری، اداکاری اور موسیقی وغیرہ) سے دلچسپی دکھائیں تو کس طرح کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خیر باریک بینی اور نظرِعمیق سے کوئی بھی ایسا ناقابلِ اعتراض مواد یا ڈائیلاگ میری نظروں سے نہ گزر سکا جو کہ ہمارے معاشرے کی عکاسی نہ کرتا ہو، گلی محلوں سے لیکر اعلیٰ ایوانوں تک ایسا ہی تو ہوتا ہے۔ اکثر مذہبی حلقی تو ویسے بھی ابھی تک فلم بینی کے خلاف ہیں لیکن نجانے انہیں یہ معلومات کہاں سے مل جاتی ہیں کہ فلاں فلم اور ڈرامے میں ایسا مواد موجود ہے جو کہ ہماری ’’ معاشرتی اقدار‘‘ کے منافی ہے اور اسے پبلک ہونے دینا ہے یا نہیں۔ معاشرے کے ایسے افراد جوکہ دوسروں کے لئے نگران اور قاضی کا منصب سنبھالے بیٹھے ہیں حقیقت میں بھی ایسے ہی رویے اور مزاج کے حامل ہیں کہ دوسروں کی زندگی میں دخل اندازی، بیان بازی اور ہتک نوازی کو اپنا فریضہ اور کارِ خیر سمجھتے ہیں۔ ایسے رویے کی اصلاح کرتے اور معاشرے کا یہ چہرہ سامنے لانے پہ سرمد کھوسٹ صاحب یقیناً قابلِ داد تو ہیں لیکن سچ بات ہے کہ مجھے پابندی کی وجہ ابھی تک سمجھ نہ آسکی، گویا ہم اپنے اندر کی خامیوں اور کوتاہیوں کو واضح کرتے آئینے کے سامنے آنکھیں بند کر لینے یا پھر آئینہ ہی توڑ دینے میں عافیت گردانتے ہیں۔ ایک ایسی مووی جس میں ہجوم کی انتہا پسندی کے کم ہونے، دوسروں کو آزاد کرنے، جیو اور جینے دو کے فلسفے کو اجاگر کرتے، مثبت رویوں کی تشکیل میں ادا کرنے کی صلاحیت اور قوت کس قدر موجود ہے کہ اسے اگر ٹیکس فری کرکے عوام کے سامنے بہت پہلے پیش کیا جاتا تو خیبر پختونخوا، سری لنکا کے منیجر، بینک ملازم اور گزشتہ روز جڑانوالہ جیسے واقعات شاید ایسی شدت سے نہ ہوتے۔
اب فلم کے سیٹ، ڈائیلاگز، اداکاری اور تھیم کی بات کرتے ہیں تو اندرون لاہور کی روایتی رونق، شان و شوکت، میلاد النبی کے جوش و خروش، شادی کے مخصوص ماحول، ٹی وی اینکر کے نخرے اور شاہی مسجد دکھاتا یہ دو گھنٹے اور بیس منٹ کا دورانیہ بھی لطف اندوز اور فنونِ لطیفہ سے شناسائی رکھنے اور محظوظ ہونے والوں کے لیے کم ہے۔ تمام ڈائیلاگز میں سے میرا پسندیدہ اور معروف ڈائیلاگ ( ڈانس تے پابندی اے، کیوں؟ ضیاء الحق واپس تے نئیں آگیا؟ ) ریاستی مذہبی جانبداری اور سرپرستی کو ظاہر کرتا مضبوط، جاندار اور تاریخ بیان کرتا اس فلم کے حُسن اور اہمیت میں مزید چار چاند لگا دیتا ہے۔ گھٹن، حبس، شدت اور عدمِ برداشت کے اس ماحول میں سرمد کھوسٹ صاحب نے جس نیک نیتی سے ’’ نابینا عوام‘‘ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے وہ قابلِ تحسین تو ہے ہی لیکن اس سے بھی زیادہ ایسی چیزوں سے رویے بناتے اور مزاج تشکیل دیتے ناظرین کی تربیت کے لئے بہت ضروری بھی۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button