ColumnRoshan Lal

آزاد ریاست اور ڈیپ سٹیٹ

تحریر : روشن لعل
پاکستان 76سال قبل ایک آزاد ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا مگر اس ملک میں پیدا ہونے والی تیسری نسل کے نوجوان آج بھی اکثر یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا ہم آزاد ہیں، کیا آزادی ایسی ہوتی ہے؟ ملکوں کی آزادی کی دنیا میں رائج تعریف کے مطابق پاکستان کے آزاد ملک ہونے پر شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کئی دیگر اسباب کے علاوہ پاکستان کے آزاد ملک ہونے پر شک اس وجہ سے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارا ملک آزاد ریاست کے طور پر اقوام متحدہ کا رکن ہے۔ پاکستان کی آزادی دنیا میں کس طرح نسبتاً معتبر ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کوسوو اور تائیوان آزاد ممالک ہونے کے تقریباً تمام ضروری لوازمات پورے کرتے ہیں مگر ابھی تک اقوام متحدہ کی رکنیت کے اہل قرار نہیں پائے۔ اسی طرح فلسطین اقوام متحدہ کا مستقل آبزور تو ہے مگر مستقل اور مکمل رکن نہیں بن سکا۔ پاکستان کی آزاد ی اس حد تک غیر مشکوک ہونے کے باوجود یہ بات رد نہیں کی جاسکتی کہ اس کے شہریوں کی اکثریت جس میں بہت بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے، اپنے ملک کو مطلق آزاد تصور نہیں کرتے۔ اگر نوجوان پاکستان کو مطلق آزاد تصور نہیں کرتے تو ان کے اس رویے کو تشویشناک سمجھنے کے باوجود انہیں شٹ اپ کال نہیں دی جاسکتی کیونکہ ان کے پاس اپنے ملک کے لیے ایسے تصورات رکھنے کی کئی دلیلیں موجود ہیں۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ ان کی دلیلوں کا جواب دینے کے لیے ان کے ساتھ مکالمہ کیا جائے۔ اس طرح کے مکالمے کے لیے یوم آزادی یا قیام پاکستان کے دن سے بہتر موقع کوئی اور نہیں ہو سکتا مگر ہمارے ریاستی ادارے اس موقع کو مکالمے کا ماحول پیدا کرنے کی بجائے حب الوطنی کے ایسے فتوے جاری کرنے میں صرف کر دیتے ہیں جو اس ملک کو شکست و ریخت سے بچانے میں بری طرح ناکام ثابت ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں ریاستی سطح پر جشن آزادی منانے کی تیاریاں اگست کی آمد سے دو تین ہفتے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔ اس مرتبہ ایسی تیاریوں کو دیکھ کر ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ کچھ زیر تعلیم اور تعلیم یافتہ نوجوانوں سے یہ پوچھا جائے کہ وہ اپنے ملک ، اس کے آزاد ہونے اور آزادی کے معیار کے متعلق کیا سوچتے ہیں۔ اس حوالے سے نوجوانوں سے جو باتیں ہوئیں ان کے متعلق سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ان کے اپنے ملک کے لیے جو احساسات ہیں ان سے کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ اس ریاست سے بیگانہ ہو چکے ہیں اور ان کی لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ یہاں کچھ بھی ہوتا رہی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نوجوان کے اس ملک کے لیے احساسات یہ ہیں کہ وہ اسے دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھ مسابقت میں عمومی اور خاص طور پر ان شعبوں کسی سے بھی پیچھے دیکھنا نہیں چاہتی جن میں یہ گزشتہ کسی دور میں سرخرو نظر آتا رہا ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ماضی میں پاکستان کئی کھیلوں کا عالمی چیمپئن رہ چکا ہے مگر ایک عرصہ سے کرکٹ کے علاوہ دیگر تقریباً تمام کھیلوں میں پاکستانی کھلاڑی مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں ۔ کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑیوں کی پست کارکردگی دیکھ کر اکثر نوجوان تلملا اٹھتے ہیں۔ ان کی اس تلملاہٹ سے صاف ظاہر ہے کہ اپنے ملک کے معاملات سے وہ ہر گز بیگانہ نہیں ہیں اور یہ بات قطعاً درست نہیں کہ پاکستان کے ساتھ چاہے کچھ اچھا ہو یا خدانخواستہ بر ا ہو تو اس سے نوجوانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ نوجوانوں کی اس ملک کے ساتھ عدم بیگانگی کا ہی ایک ثبوت ہے کہ وہ اس قسم کے سوال اٹھاتے ہیں کہ پاکستان کا 76کا یوم آزادی منائے جانے پر بھی انہیں یہ ملک آزاد کیوں محسوس نہیں ہوتا۔
نوجوانوں کے اگر اس ملک کی آزادی کے معیار پر تحفظات ہیں تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ انہیں مسخ شدہ تاریخ پڑھا کر آزادی بڑی نعمت ہے جیسا چورن چٹایا جائی یا پھر نئے ملی نغمے کشید کر ان کو لوریوں کی طرح سنائے جائیں۔ اگرچہ اس ملک کے نوجوانوں کا شعور ابھی تک پختہ تر نہیں ہو سکا مگر پھر بھی اسے اس قدر شکستہ نہ سمجھا جائے کہ وہ کسی نئے ملی نغمے کی لوری سن کر میٹھی نیند سو جائیں گے اور انہیں دنیا و مافیہا کی کوئی ہوش نہیں رہے گی۔ جن نوجوانوں سے گزشتہ دنوں ملک کی آزادی کے موضوع پر گفتگو ہوئی ، حیران کن طور پر ان میں سے بعض نے ایسی باتیں کیں جن پر قبل ازیں کبھی راقم نے بھی غور نہیں کیا تھا۔ ایک نوجوان نے ملک کی آزادی کے مطلوبہ معیار کے متعلق کہا کہ اس کے لیے کوئی نئی تعریف ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ 1776میں امریکہ نے تاج برطانیہ سے آزادی حاصل کرتے وقت جو ڈیکلریشن جاری کیا اس کے بنیادی تین نکات یہ طے کرنے کے لیے کافی ہیں کہ کسی ملک کے شہریوں کے لیے اس کے آزاد ہونے کا کیا مطلب ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ مذکورہ نوجوان نے امریکہ کے آزادی ڈیکلریشن میں موجود جن تین بنیادی نکات کا حوالہ دیا وہ کچھ یوں ہیں: عوام کے زندہ رہنے، آزاد زندگی گزارنے اور خوش ہونے جیسے حقوق ناقابل تنسیخ ہیں، ملک کے شہری کسی بھی قسم کی تخصیص کے بغیر بحیثیت انسان مساوی ہیں، عوام پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہر فرد ریاست کے شہری کی حیثیت سے اپنے اور دوسروں کے حقوق کا دفاع کرے۔ امریکہ کا یہ آزادی ڈیکلریشن نہ صرف وہاں آئین سازی، انسانی حقوق طے کرنے اور انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو رہنمائی فراہم کرتا رہا بلکہ اس کے اثرات دنیا بھر میں جاری آزادی کی تحریکوں پر بھی مرتب ہوئے۔ ایک نوجوان نے یہ کہا کہ آزادی کا متضاد لفظ غلامی ہے ، آزاد ہونے کا مطلب خود انحصاری ہے مگر ہماری حالت یہ ہے کہ کوئی فیصلہ کرنا دور کی بات ہم تو کچھ سوچنے کے لیے بھی خود پر انحصار نہیں کرتے ، ایسا ہونا بدترین ذہنی غلامی کی نشانی ہے ، اس طرح کی ذہنی غلامی کی موجودگی میں ملک کی آزاد حیثیت پر کیا بات کی جاسکتی ہے۔
بہت حوصلے کے ساتھ جب ایک اقلیتی نوجوان سے آزاد ملک کے شہری کے طورپر اس کے خیالات جاننے کی کوشش کی تو اس کے عجیب انداز میں ہنسنے پر سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ خود اپنایا پھر میرا مذاق اڑا رہا ہے۔ خیر اس نے جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے کہ اس کی کمیونٹی کے لوگ یہاں اپنی طرف سے کچھ بھی کہتے ہوئے ڈرتے ہیں اس لیے ان سے کچھ جاننے کی بجائے انہیں پاکستان میں صرف اس خواب کے مطابق زندگی گزارنی کا موقع فراہم کر دیا جائے جو بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے ان کو اپنی 11اگست 1947کی تقریر میں دکھایا تھا۔
مذکورہ نوجوانوں کے علاوہ ایک ایسے نوجوان سے بھی آزادی کے موضوع پر بات ہوئی جو پاکستان کو خیر آباد کہہ کر کینیڈا مستقل سکونت اختیار کرنے کی تیاریاں مکمل کر چکا ہے ۔ اس نے کوئی جواب دینے کی بجائے انتہائی بیزاری سے الٹا مجھے یہ سوال کر دیا کہ کیا کسی ایسے ملک کو آزاد تصور کیا جاسکتا ہے جسے بیرونی دنیا میں ڈیپ سٹیٹ(Deep State)سمجھا جاتا ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button