ColumnNasir Naqvi

ناکام انقلاب اور انقلابی

ناصر نقوی

پاکستانی عوام کو پہلی بار عمرانی دور میں انقلاب کی نوید نہیں سنائی گئی۔ ان سے پہلے بھی یہ واردات ہو چکی ہے۔ البتہ نواز شریف کی حکومت کے خلاف جب عمران نے اپنے کزن ڈاکٹر طاہر القادری کے اشتراک سے اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا تھا اس وقت، انقلاب، نرم انقلاب، گرم انقلاب اور خونی انقلاب کے نعرے بڑے زور اور شور سے لگائے گئے پھر گیٹ نمبر چار کے مجاہد اعظم نے جب سے اب تک قوم کو خونی انقلاب سے خوب ڈرایا لیکن عمران خان کو اقتدار ملنے کے بعد بھی نہ انقلاب آیااور نہ ہی نیا پاکستان ریاست مدینہ کی شکل اختیار کر سکا۔’’ خونی انقلاب‘‘ کی بات تو دور کی بات ہے یقینا انقلاب تو قربانیاں مانگتا ہے اور یہاں سب کے سب عشق عمران میں چوری کھانے والے رانجھے ثابت ہوئے کیونکہ تمام ’’ عشاق‘‘ مع مرشد اعظم دواخانہ فیض عالم کے کشتے کھا کر پہلوان اور جہادی بنے تھے لہٰذا جونہی ’’ دواخانہ فیض عالم‘‘ سیل ہوا ، پہلوانی اور جہادانہ صلاحیتیں خاک میں مل گئیں تاہم مرشد خان اعظم نے اس قدر سنہرے خواب دکھائے کہ نئی نسل اشرافیہ ہی نہیں، خاص لوگوں کے بچے بھی ’’ عشق عمران‘‘ میں مبتلا ہو گئے۔ وہ سابق وزیراعظم کو نجات دہندہ اور پاکستان کی ترقی کا محور سمجھتے تھے ان کے خطابات میں احتساب، لٹیروں، ڈاکوئوں اور قومی چوروں کے خلاف اقدامات اور آہنی ہاتھوں کا استعمال اس بات کی دلیل سمجھا جاتا تھا کہ اب ماضی گزر گیا، حال میں جو کچھ کیا جائے گا وہ مستقبل کی خوشحالی کی ضمانت ہو گا لیکن یہ سب کچھ نہیں ہو سکا۔ نیا پاکستان نہیں بن سکا اور انقلاب پس پردہ چلا گیا اس لیے کہ اقتدار میں آتے ہی ’’ احتساب‘‘ کے نام پر سیاسی رہنمائوں کو مقدمات میں ملوث کر کے جیلوں میں ڈالا گیا۔ قوم خوش تھی کہ قومی خزانہ لوٹنے والوں کو حساب کتاب دینا ہو گا۔ پھر سب نے دیکھا کہ کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی جا سکی صرف سابق وزیراعظم نواز شریف کو ’’ پانامہ‘‘ میں پھنسا کر ’’ اقامہ‘‘ میں نااہل کر دیا گیا۔ ان کے ساتھ کیا کچھ ہوا اور وہ کس طرح عمرانی حکومت کی مرضی و منشا کے تحت برطانیہ گئے یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حالات نے کروٹ بدلی، اقتدار سے اترے تو پھر انقلاب یاد آ گیا تاہم منظر بدل چکا تھا صرف ایک سال میں ایسا کچھ ہو گیا جو ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ ’’ دواخانہ فیض عالم‘‘ کی سہولت بھی میسر نہ تھی لیکن عشق عمران اور نجار انقلاب تیز ہو گیا۔ دعویٰ تھا کہ وہ مقبول ترین سیاسی لیڈر اور ان کی جماعت ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ مختلف سروے بھی اس بات کو ثابت کرتے رہے۔ ان کا اندازہ تھا کہ ان کے اشارے پر قوم سڑکوں پر آ جائے گی اور حکومت کو بھاگنے کی جگہ نہیں ملے گی لیکن دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ جب وہ لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے 25مئی 2022ء کو اسلام آباد پہنچے تو پھر انہیں بھاگنے کا راستہ نہیں ملا اور دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے واپس لوٹ گئے تاہم پولیس سے کارکنوں کی مڈبھیڑ بھی ہوئی اور اسلام آباد کی سڑکوں پر جلائو گھیرائو بھی ہوا لیکن عمران خان دوبارہ پرانی شان و شوکت سے اسلام آباد نہ جا سکے۔ نومبر میں لاہور سے راولپنڈی پر چڑھائی کے لیے نکلے تو وزیر آباد کے قریب قاتلانہ حملے کا سامنا کرنا پڑ گیا، لہٰذا انقلاب سست روی کا شکار ہو گیا اور انقلابی بھی مایوس نظر آنے لگے پھر مقدمات، عدالتوں کے چکر شروع ہوئے تو خان اعظم کی سوشل میڈیا ٹیم نے ’’ عمران خان‘‘ کو ’’ ریڈ لائن‘‘ ہونے کا بیانیہ عام کر دیا۔ لاہور ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں میں راولپنڈی اسلام آباد پیشی پر ہزاروں کارکنوں کو اکٹھا کیا گیا تاکہ عدالتوں پر دبائو بڑھا کر مرضی کی رعایت حاصل کی گئی۔ عمران خان اور ان کے کھلاڑیوں کے درمیان ایک بھی ایساشخص نہیں تھا جو انہیں یہ مشورہ دیتا کہ ’’ انقلاب‘‘ کی تحریک میں رعایت اور سہولیات کی بجائے مشکل حالات پیدا کر کے ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قید و بند کی صعوبتیں مقدر بنتی ہیں ’’ نیلسن منڈیلا‘‘ صرف سوچ سے نہیں جدوجہد سے بنتا ہے۔
پاکستان میں الزامات کی سیاست میں ابھی بھی لوگ ’’ اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ عمرانی حکومت کی بنیاد ہی ’’ بیک ڈور‘‘ منصوبہ سازی اور سہولت کاری تھی لہٰذا انقلاب اور انقلابی ناکام ہو گئے۔ وجوہات تھوڑی مختلف ہیں ’’ تبدیلی اور انقلاب‘‘ کا نعرہ عمران خان لگاتے تھے لیکن فیصلے کرنے والے کوئی اور تھے جن کو بعد از اقتدار عمران خان نے نشاندہی کرتے ہوئے سیکڑوں مرتبہ جنرل ( ر) باجوہ کا نام بھی لیا، پہلے وہ کامیابیوں کی مارکیٹنگ کرتے ہوئے داد لیتے پھرتے تھے پھر اپنے محسن جنرل ( ر) باجوہ سے بگڑی تو تمام تر ذمہ داریاں ان کے سر لگا کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کی اور حقائق سے نظریں چرائی گئیں۔
لہٰذا دس بارہ سال کی پس پردہ تربیت اور نئی نسل کو سنہرے خواب دکھانے کی تعبیر انقلاب کی بجائے بغاوت کی شکل میں 9مئی اور مرشد کی پہلی گرفتاری پر منظر عام پر آئی۔ چیئرمین پی ٹی آئی صرف چند گھنٹوں زیر حراست رہے۔ انہیں سپریم کورٹ آنے جانے کے لیے مرسیڈیز بھی ملی اور تواضح کے لیے بکرے، اسپیشل چانپ بھی ملیں اور تھوک کے حساب سے ضمانت ایسے ملیں کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کوئی دوسرا نہیں، سوچیں کیا شان ہو گی کہ جب ملزم کی حیثیت سے مرشد انقلاب عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے تو چیف صاحب کے الفاظ ’’ گڈ ٹو سی یو‘‘ نے کتنی تقویت دی ہو گی۔ پھر تمام مقدمات میں ضمانت یکمشت ہی نہیں، آئندہ ہونے والے مقدمات میں بھی قبل از وقت ضمانت کی سہولت مہیا کر دی گئی لیکن حکومتی طاقت کو سمجھتے ہوئے بھی عمران خان نے نہ صرف تمام سہولیات کو اپنا حق سمجھا بلکہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ انہیں یہ مراعات آئندہ بھی ملتیں رہیں گے پہلے وہ مکرے کہ انہیں نہیں پتہ کہ ان کی گرفتاری پر کیا ہوا، پھر فرمانے لگے اگر دوبارہ پکڑا گیا تو اس سے بھی خطرناک ردعمل ہو گا تاہم انہیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ سیاست میں ایک چال بھی غلط ہو جائے تو تخت تختہ بن جاتا ہے لہٰذا 9مئی کا سانحہ کچھ ایسی ہی چال ہے اس کے اثرات جس شدت سے سامنے آئے ہیں ان سے تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ اور عمران خان تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں یوں ’’ انقلاب اور انقلابی‘‘ ناکام ہو گئے۔ یہ زبردستی کے انقلابی تھے یعنی درشنی پہلوان، لہٰذا چیخیں بھی سنائی دے رہی ہیں انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ’’ چی گویرا، بھگت سنگھ، نیلسن منڈیلا‘‘ اور دوسرے کسی انقلابی نے بدترین حالات میں بھی صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔
پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی ’’ تحریک انصاف‘‘ کو ماضی کی بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مدمقابل لانچ کیا گیا تھا انہیں گزشتہ دس بارہ سالوں میں ایک منصوبہ بندی کے ذریعے جدید سہولیات کے ذریعے منظر عام پر لایا گیا، جنہیں عمران خان اپنی حکومت کو 27سالہ سیاسی جدوجہد کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ عوام کی طرح کچھ خاص حلقوں نے بھی دل و جان سے تیسری بڑی سیاسی طاقت بنانے کی کوشش کی، حالانکہ ڈاکٹر اسرار احمد اور سابق گورنر سندھ شہید حکیم سعید انہیں غیر ملکی بلکہ بین الاقوامی ایجنٹ قرار دے چکے تھے۔ ان دونوں شخصیات نے عمران خان کو یہودیوں اور احمدیوں کی سرپرستی کا شاہکار کہہ کر مستقبل کے لیے پاکستانی حکمران قرار دیا تھا تاہم وطن عزیز کے ممتاز اور معروف ستارہ اور دست شناس کا دعویٰ تھا کہ عمران خان کے ہاتھ میں وزیراعظم بننے کی ’’ لکیر‘‘ نہیں۔ پھر بھی جنرل ( ر) حمید گل، جنرل ( ر) پاشا، جنرل ( ر) فیض حمید اور جنرل ( ر) باجوہ اور چند دوسروں کی کوششیں کامیاب ہوئیں اور عمران خان تخت اقتدار تک پہنچ گئے۔ وہ کرکٹ کے عالمی شہرت یافتہ سپر سٹار ہونے کے باعث پہلے ہی عوامی مقبولیت رکھتے تھے لہٰذا انہوں نے مقبولیت اور قبولیت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’ نیا پاکستان‘‘ ریاست مدینہ اور احتساب کا چورن بیچ کر ’’ انقلاب و تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگایا لیکن نہ تربیت تھی اور نہ انقلابی انداز، اس لیے ناتجربہ کاری میں مار کھا گئے۔ انہیں اقتدار مل تو گیا پھر بھی سیاسی انداز میں اتحادیوں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکے، چونکہ ان کے سلیکٹرز طاقت ور تھے اس لیے مخالفین کو ہر طرح سے دبایا گیا لہٰذا ان کا غرور اور ضد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ’’ آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘، سب ترکیبیں دھری رہ گئیں پہلی ہی پکڑ میں درپردہ منصوبہ سازی عیاں ہو گئی، اور 9مئی سانحہ تاریخ کا سیاہ باب بن گیا۔ حالات اس حد تک خطرناک ہو چکے ہیں کہ مرشد خان اعظم آرمی ایکٹ کے جال میں پھنستے دکھائی دے رہے ہیں یوں ناکام انقلاب اور انقلابی ریاست کی بدنامی کا باعث بن گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسے گا کیونکہ جو کچھ 9مئی کو ملک بھر میں رونما ہوا وہ سیاسی احتجاج نہیں، شرپسندی، دہشت گردی ہی نہیں، بغاوت تھی جو عوام کو فوج سے ٹکرانے کی ایک بھونڈی کوشش تھی۔ ردعمل میں پورا پاکستان یک زبان ہو کر مجرموں کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button