ColumnNasir Sherazi

توجہ.. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

آج شیریں سی حسینہ ہے نہ کوئی فرہاد سا عاشق کوئی ایسی مہ جبیں ہوتی اور تازہ دودھ کی عدم دستیابی پر اپنے عاشق کو دودھ کی نہر نکالنے کی فرمائش کرتی تو اُس کا عاشق کدال اٹھاکر پہاڑوں کا سینہ چیر کر نہر نکالنے کے مشن پر جانے کی بجائے اُسے گوالے کا موبائل نمبر دیتا کہ رابطہ کرلو اور جیسا چاہو دودھ حاصل کرلو۔ زیادہ مہربان ہوتا تو فون پر ریٹ معلوم کرکے شیریں کو بتادیتا کہ نالے کا پانی ملا دودھ سوا سو روپئے لیٹر، ٹوٹی کے پانی کی ملاوٹ والا دودھ ڈیڑھ سو روپئے لیٹر جبکہ خالص دودھ دو سو روپئے لیٹر ہے۔ میڈم شیریں ، ملک میں لوٹ مار کلچر، آئی ایم ایف کی پیدا کردہ مہنگائی اور پی ڈی ایم حکومت کی پالیسیوں کے سبب کنگال ہونے کے بعد کہتی کہ میں تو ان تینوں اقسام کے دودھ میں سے کوئی بھی افورڈ نہیں کرسکتی تو فرہاد اُسے کیمیکل سے بنا سو روپئے لیٹر والا دودھ لگوادیتا جسے پی کر شیریں دودھ پینا چھوڑ دیتی یا فرہاد کو چھوڑ دیتی۔ شیریں کچھ بھی کرتی فرہاد کی صحت پر اِس کا کچھ اثر نہ ہوتا وہ اُس سے منہ پھیر کر بلکہ اُسے ’’مائی فٹ‘‘ کہہ کر انٹرنیٹ آن کرتا اور فقط چند روز کی محنت کے بعد ہانگ کانگ، بنکاک، کوریا، چین یا کسی غریب ملک کی پھینی سی، اپنے سے دُگنی عمر کی عورت سے دوستی کرتا، مہینوں سالوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں اور دنوں میں اُس کی محبت میں پاگل ہونے کا سوانگ رچاتا، وہ فریب کی ڈوری میں بندھی پاکستان آتی اور اُسے بیاہ کر ساتھ لے جاتی یوں ہمارے پاکستانی بھائی کو غیر ملکی شہریت مل جاتی جبکہ بناسپتی میم کو گرم جوش خاوند۔ تنہا رہ جانے والی شیریں کوبھی کوئی اور فرہاد مل جاتا یوں سب اپنی اپنی ڈگر پر چلتے رہتے۔
آج اُس فرہاد کی اشد ضرورت ہے جو کسی بہانے ہی سہی مگر مشقت پر آمادہ ہو، کدال اٹھانے اور دودھ کی نہر نکالنے کا عزم رکھتا ہو وہ دودھ کی نہر نہ بھی نکال سکے، پتھروں کا سینہ چیرتے چیرتے اِس حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا، پتھر کے اندر رہنے والا حقیر کیڑا خدا کی قدرت سے پتھر کے اندر رہتے ہوئے کس طرح اپنا رزق پاتا ہے، یوں شاید وہ ہمارے آس پاس لاکھوں کی تعداد میں رہنے والے عقل کے اندھوں کو سمجھا سکتا کہ دنیا بھر میں صرف انسانوں کو نہیں بلکہ ہر جاندار کو رزق دینے کا وعدہ خدا کا ہے۔ وہ انہیں بھی رزق دیتا ہے جو اُس کی واحدانیت پر یقین رکھتے ہیں اور انہیں بھی جو اُس کے خالق کائنات ہونے کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ ڈارون کی تھیوری پر یقین رکھتے ہیں۔ خالق کائنات کی طرف سے رزق ہوا میں زمین پر، زمین کی تہوں میں حتیٰ کہ سمندر کے اندر گہرے پانیوں میں ہر جاندار کو پہنچتا ہے اور اس طرح کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
حشرات الارض میں سب سے چھوٹا کیڑا چیونٹی کی جسامت کے چوتھے حصے کے برابر ہے، اس کی آنکھیں، ناک، کان اور پیٹ ہے، یہ اپنے پروں سے تیز رفتار پرواز کرتا ہے، اسے بھوک بھی لگتی ہے اور پیاس بھی، اس کی ایک وقت کی خوراک سوئی کے نکے کے برابر ہے۔
حبثے کے اعتبار سے وہیل مچھلی کو سب سے بڑا جانور کہاجاسکتا ہے، اِس خاندان سے تعلق رکھنے والی دیوہیکل مچھلی بلیو وہیل کہلاتی ہے، یہ اپنی زندگی میں گہرے سمندروں میں اتنا سفر کرتی ہے کہ انسان زمین سے چاند تک دس مرتبہ جائے اور واپس آئے تو اس کا سفر کم ہے، بلیو وہیل کا سفر زیادہ ہے، بلیو وہیل اپنی پیدائش سے جوان ہونے تک جس تیزی سے اپنے وزن میں اضافہ کرتی ہے وہ حیران کن ہے اس پر تحقیق کرنے والوں نے جب بتایا کہ بلیو وہیل کا وزن ہر گھنٹے میں دو سو پائونڈ بڑھتا ہے تو خیال کیاگیا کہ شاید شمار کرنے والوں نے غلطی سے ایک صفر زیادہ لگادیا ہے یہ بیس پائونڈ ہوگا لیکن یہ سوال اٹھانے والوں کو بتایاگیا کہ نہیں درحقیقت یہ دو سوپائونڈ فی گھنٹہ کے حساب سے ہی اپنا وزن بڑھاتی ہے۔
یہ اپنی جسامت اور طاقت کے بل بوتے پر اپنی دُم کے ایک ہی وار سے بہت بڑی موٹر بوٹ کے ٹکڑے کردیتی ہے، اچھے بھلے بحری جہاز کو الٹ سکتی ہے، اس کی خوراک سمندر کے پانی میں پیدا ہونے والا بیکٹیریا ہے۔ بلیو وہیل کے بہت بڑے منہ کے اندر ایک بڑی سی چھلنی ہوتی ہے یہ ایک سانس میں ہزاروں لیٹر پانی اپنے حلق میں کھینچتی ہے بیکٹیریا اس چھلنی کے سبب اس کے منہ میں رک جاتا ہے جبکہ پانی وہ باہر پھینک دیتی ہے۔ یہ بیکٹیریا ہضم ہوکر اس کے جسم کا حصہ بنتا رہتا ہے یہ بیکٹیریا اگر بلیو وہیل کی خوراک نہ بنتا تو سمندر میں جمع ہوتا تو چند روز میں سمندر کا پانی زہریلا اور بدبو دار ہوجاتا اور سمندری جانوروں کی زندگی ختم کردیتا۔
اندازہ فرمائیے کہ سمندر کی تہہ میں رہنے والے کروڑوں جانوروں کی زندگی کے لیے خطرہ بننے والا بیکٹیریا بلیو وہیل کی خوراک بنتا ہے، جس پر وہ خود زندہ رہتی ہے اورکھلے سمندر میں صبح سے شام تک سفر کرکے وہ اس پانی کو صاف کرتی رہتی ہے اور سمندر کے پانی کو سمندر میں رہنے والوں کے لیے کار آمد بنانے کا فرض ادا کرتی ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ سمندری حیات کا دارومدار بلیو وہیل پر ہے جو پیدا ہوتے ہی اپناکام شروع کردیتی ہے اور مرتے دم تک جاری رکھتی ہے۔ یہ سب اُس کے حکم سے ہوتا ہے جو نظام ہستی چلارہا ہے، وہی خدا ہے۔
وہ خدا جو پتھر کے کیڑے کو رزق دیتا ہے جو سمندروں میں اور اتھاہ گہرائیوں میں رہنے والے کروڑوں جانوروں تک اُن کا رزق پہنچاتا ہے وہ اپنے خلق کردہ انسانوں کو کیسے بھول سکتا ہے جسے اُس نے خلق کرنے کے بعد اشرف المخلوقات کا درجہ دیا۔
پس خدا پر یقین رکھیں اس کے وعدے پر یقین رکھیں، خدا کے منکروں کی باتوں پر دھیان نہ دیں جو سو برس سے ہمیں ایٹم بم سے ڈراتے رہے اب وہ ہمیں آبادی بم سے ڈرا رہے ہیں، جتنی زیادہ مسلمانوں کی آبادی ہوگی اتنے زیادہ اللہ اکبر کہنے والے ہوں گے۔ خدا کے منکر اور خدا کی طرف سے بہترین دین، دین اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد کو کنٹرول کیاجائے یا کم ہوں گے اور دوسروں طرف غیر مسلموں کی آبادی بڑھتی رہے گی ۔ یوں وہ چاہتے کہ دنیا پر غیر مسلموں کی حکمرانی و تسلط قائم رہے ، دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک چین ہے، انہوں نے اپنی افرادی قوت کو اپنی طاقت بنایا آج وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہیں، پس آبادی بڑھائو، غلہ اگائو، تعلیم حاصل کرو، ٹیکنالوجی حاصل کرو، افرادی قوت کو طاقت بنائو، خدا صرف چینیوں کا نہیں مسلمانوں کا بھی ہے مگر ضروری ہے کہ ہم خدا کے بتائے ہوئے راستے پر بھی چلیں پھر ہی اس کی خوشنودی حاصل ہوسکتی ہے ورنہ کم آبادی والے ملک بھی دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے اور زیادہ آبادی والے ممالک کا بھی مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی نہیں ہے، وسائل کا ضیاع ہے، اس پر توجہ دیں وسائل سے مالا مال ملک کو کنگال نہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button