Abdul Hanan Raja.Column

نہ تم بدلے نہ ہم نہ بدلا پاکستان .. عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

اپریل 1977 تک ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اتحاد کے مابین سیاسی کشمکش پرتشدد مظاہروں میں بدل چکی تھی اور گزشتہ کچھ عرصہ سے پی پی پی کے دفاتر، اہم راہنمائوں کی رہائش گاہوں اور جائیدادوں پر حملوں کا منظم سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اپوزیشن اپنی تحریک کی مقبولیت کو عوامی اور پرتشدد احتجاج کو جائز قرار دینے کے لیے اس کو نظام مصطفی تحریک کا نام دے کر عوامی اشتعال انگیزی کو سند قبولیت دینا چاہتی تھی سو اس نے دی۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین بداعتمادی کی خلیج اتنی ہی گہری تھی جتنی آج ہے، ایسے میں اس وقت کے سعودی سفیر ڈاکٹر ریاض الخطیب کے ذریعے روابط بحال کرنے کی کوشش کی گئی مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس میں بھی تعطل پیدا ہو گیا اور چند روز بعد بھٹو ایک روز راولپنڈی جا پہنچے اور وہاں امریکی وزیر داخلہ کا ایک مراسلہ ہوا میں لہراتے ہوئے باور کرایا کہ اس احتجاجی تحریک کے پیچھے امریکہ ہے۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس مزید لکھتے ہیں کہ ہر حکومت سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے پولیس فورس اور اداروں کو خوب استعمال کرتی ہے، حزب مخالف کو دیوار سے لگا کر اپنے اقتدار کو طول اور اس ضمن میں آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ چالیس سال قبل بھی یہی چالیں تھیں اور اب بھی یہی وطیرہ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فرصت ملے تو وہ امن و امان کی قیام کی ذمہ داری نبھائیں۔ ڈکیتی، چوری، قتل، راہزنی اور اغوا کی وارداتوں میں ہوشربا اضافہ نے شہریوں کو ذہنی کرب میں مبتلا کر رکھا ہے، کبھی سوچا کہ ہم اپنی نئی نسلوں کو کس ماحول میں پروان چڑھا رہے ہیں؟ ان کے ذہنوں کی شفاف تختی پر کیا نقش کیا جا رہا ہے؟ یہی ناں کہ یہ ملک قانون شکنی، بدعنوانی، جھوٹ، بد تہذیبی، مطلب پرستی، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے لیے جنت اور اخلاقیات سے عاری ماحول ہے۔ جب صاحبان اقتدار ان خصوصیات سے متصوف ہوں تو قرون اولیٰ کے معاشرے کی تشکیل تو ہونے سے رہی، ایسا ہی معاشرہ پروان چڑھنا ہے کہ جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ اب جبکہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے میثاق معیشت واجب ہو چکا مگر اس طرف کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔
سرمایہ نظام جمہوریت کا خاصہ ہے کہ اس میں سب سٹیک ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ آج تک کسی کو جرائم کی سزا ملی اور نہ بدعنوان کا احتساب ہوا۔ لیڈروں کے پاؤں قبروں میں مگر نظر اقتدار کی کرسی پہ۔ احتساب کے نام پر کلین چٹ دی جاتی ہے تا کہ وہ پھر سے تازہ دم ہو کر قومی خزانہ پر ہاتھ صاف کر سکیں۔ جو اس گندگی کو صاف کرنے کا عزم بالجزم کر کے آئے تھے، گئے تو لتھڑے ہوئے کہ یہ نظام کسی کا دامن شفاف رہنے ہی نہیں دیتا۔ طاقتوروں کو انصاف رات کے پچھلے پہر بھی میسر اور تیز ترین فراہمی انصاف کی سہولت بھی۔ دو روز قبل محض چند منٹوں میں منظوری ضمانت تازہ مثال ہے۔ عدلیہ پر دباؤ کے لیے اپنی سیاسی طاقت کا استعمال ماضی میں مسلم لیگ نون کی راہنما کرتی رہیں تو اب وہی طریقہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے بھی خوب آزمایا۔ بدلا تو کیا، صرف چہرے۔
موجودہ نظام دو ہی طبقات کو پروان چڑھ رہا ہے ایک طاقتور طبقہ کہ جس میں سرمایہ دار جاگیردار، اعلیٰ عہدوں کے سول سرونٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے بعض حلقے آئین اور قانون بنانے والے بھی اور اس کے رکھوالے شامل ہیں۔ سیاست دان اور ان کی اے ٹی ایمز مشینیں یہ سب مراعات یافتہ طبقہ جو برسوں سے عوام پر حکومت کر رہا ہے، جو آئین اور قانون کو پنپنے دیتا ہے اور نہ اعلیٰ اقدار کا فروغ چاہتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے پاس نیوزی لینڈ کی 41 سالہ جیسنڈا کے کردار کا ہم پلہ کوئی کھلاڑی ہے نہ کپتان۔ ہوس اقتدار، کرپشن اور مفادات میں جکڑا ہمارا سیاسی نظام اور اس کی برکات سے فیض یافتہ قد آور سیاست دان نیوزی لینڈ کی کمزور اور سادہ وزیر اعظم کی گرد کو بھی نہیں پا سکتے۔ جیسنڈا اور اس طرح کی مہذب اقوام کے سربراہان نے اپنی عوامی مقبولیت کو کبھی اداروں کے خلاف استعمال کیا نہ فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ نیلسن مینڈیلا اور طیب اردگان بننے کے خواب دیکھنے والوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا کہ فقط جوش کن نعروں اور بے جا دعوئوں سے عظمت کے مینار سر نہیں ہوتے، کبھی ہمارے سیاست دان بھی تنہائی میں ضمیر کے بوجھ کو محسوس کریں اور سوچیں کہ انتہا درجہ کی منافقت کے ساتھ کل وہ کس طرح اللہ کے حضور پیش ہوں گے۔ اس ملک کی عدالتوں سے طاقت اور دولت کے بل بوتے پر بے گناہی کے تمغات سجانے والے کس طرح ضمیر کی عدالت سے سرخرو ہوں گے۔ ان کے مکروہ چہرے ایک ایک کر کے بے نقاب ہو رہے ہیں مگر جذبات کی رو میں بہنے والے عوام کو ان کا اصل چہرہ دکھائی دیتا ہے اور نہ بے لگام میڈیا ان کے ذہنوں سے ان کی شخصیات کے سحر کا جادو ختم ہونے دیتا ہے۔ گزشتہ صدی کی دہائیاں ہوں یا اکیسویں صدی کے ماہ و سال، سیاست بدلی نہ سیاست دان، اشرافیہ کے اطوار بدلے نہ عوام کا انتخاب۔ جب تک یہ سب کچھ نہ بدلے پاکستان کیسے بدل سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button