Columnعبدالرشید مرزا

خاندان، تربیت اور تقاضے .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

(آخری حصہ)
یہ بات یاد رکھیں کہ خاندان کی اہمیت نہ کسی دور میں کم ہوئی تھی، نہ ہوگی بلکہ خاندان کا کردار ہمیشہ، فرد واحد اور معاشرے کے لیے نہایت اہم رہے گا۔ خاندان انسانی زندگی کا وہ خوب صورت احساس، جگہ اور تجربہ گاہ ہے جہاں بچہ سب سے پہلے دُنیا، محبت، احساس اور باہمی تعاون کا تجربہ کرتا ہے۔ خاندان ہی وہ پہلی لرننگ یونیورسٹی ہے جو انسان کو انفرادی ترقی سے اجتماعی فلاح اور بہتری تک کا تصور دیتی ہے۔ خاندان ہی وہ پہلا لرننگ انسٹی ٹیوٹ ہے جو انسان کے لیے کیئرنگ اور شیئرنگ کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بدلتے وقت کے ساتھ خاندانی نظام اور اقدار کو اپ ڈیٹ ہی نہیں کیا گیا بلکہ بوسید ہ روایتوں کو خاندانی وقار کا نام دے کر اس خوب صورت ادارے کا نظام تباہ کیا گیا ہے۔
میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جو انسان مضبوط اور خوش گوار خاندانی ماحول میں پرورش نہیں پاتا، وہ زندگی میں زیادہ ناکام ہوتا ہے اور ذہنی و نفسیاتی مسائل کا شکار رہتا ہے۔ خاندان تربیت کے بہترین ٹول ہوتے تھے جہاں انسان کی کردار سازی اور شخصیت کی تعمیر کی جاتی تھی، اس لیے فرد واحد کے رویے اور کردار سے پورے خاندان کی تعریف اور تذلیل ہوتی تھی۔ آج کا انسان بالخصوص نوجوان ذہنی، نفسیاتی، معاشی، سماجی، مذہبی اور اخلاقی زوال کا شکار اس لیے ہے کیوںکہ ہمارا خاندان بہت کم زور اور غیرموثر ہوچکا ہے۔ ٹوٹے ہوئے فرد، خاندان اور معاشرے کو معافی، بحالی اور تجدید ہی دوبارہ جوڑ سکتی ہے۔ خاندان میں جب افراد صرف اپنی ڈیوٹی اور اپنی مرضی پوری کرتے ہیں، تو پھر گھر صرف چلتا ہی ہے، خاندان نہیں بنتا۔ ویسے بھی گھر بنانا آسان ہوتا ہے، مگر خاندان بننے کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ اب جب کبھی اکثر شہر سے گاؤں واپس جاتا ہوں تو احساس ہوتا ہے، واقعی جب لوگوں کے گھر کچے ہوتے تھے تو لوگ اور خاندان کتنے سچے ہوتے تھے، اب ہر طرف پتھروں کے پکے گھر بن چکے ہیں، اس لیے لوگ اور خاندان بھی پتھر بن چکے ہیں۔ ان میں احساس، قربت، مہمان نوازی، سادگی اور خلوص نام کے وٹامن ختم ہوچکے ہیں۔مادی اور ظاہری نمود و نمائش اور مصنوعی رویوں نے خاندان کے وجود کو غیر فعال بنادیا ہے۔ خاندان کے افراد ایک ساتھ رہتے تو ہیں، لیکن یہ دُکھ سکھ، مشکل وقت اور حالات میں ساتھ نہیں ہوتے ہیں۔ خاندان ایک جسم کی مانند ہوتا ہے جس کے تمام اعضاء کا متحرک اور متوازن ہونا لازم ہے تاکہ خاندان کا نظام بہتر انداز میں چلایا جاسکے۔ ہمارے خاندان اس وقت سب سے زیادہ ذہنی دباؤ، جذباتی گھٹن، نفسیاتی الجھنوں، مذہبی و سیاسی انتشار، معاشی بحران، خود غرضی اور منفی رویوں کا شکار ہیں۔ اس نظام میں نئی رُوح پھونکے کی اشد ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کے رویوں اور برتاؤ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس قدر اپنی خاندانی زندگی سے بے زار نظر آتے ہیں، جب کہ خاندان کے افراد اور گھر ایک ایسی محفوظ اور مضبوط جگہ ہے۔ جہاں انسان کو سب سے زیادہ پُرسکون اور پُرعزم محسوس کرنا چاہیے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اپنے الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کے کریں، آپ کے الفاظ آپ کی اعلیٰ تربیت، خاندان اور آپ کے اچھے اخلاق کا پتا دیتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’پُرمسرت خاندان سے بڑی نعمت بھلا کیا ہوسکتی ہے۔‘‘ میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران مختلف ٹریننگز، سیمینار، انٹرویوز کے ذریعے اور لوگوں کی حکمت عملی، تجربات اور حقیقی واقعات سے انتہائی اہم سبق حاصل کیا ہے کہ ٹیم ورک اور ٹیم سپرٹ صرف کارپوریٹ کلچر اور ٹریننگز انڈسٹری میں ہی نہیں سیکھی جاتی، اس کی ابتدا خاندان سے ہی شروع ہوتی ہے۔ معروف عالمی ادیب لیو ٹالسٹائی کے لازوال ناول ’’اینا کرانینا‘‘ کا ابتدائی جملہ یوں ہے،’’مسرور خاندان ایک جیسے ہوتے ہیں، ہر ناخوش خاندان کی ناخوشی کا انداز جدا ہوتا ہے۔‘‘ ایک مضبوط اور متحد خاندان کسی بھی فرد کی زندگی کو مثبت طور پر کیسے متاثر کرتا ہے اور اُس کی نجی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کیسے ترقی کا سبب بن سکتا ہے؟ اس کے چند اہم پہلو مندرجہ ذیل ہیں، ان مثبت پہلوؤں پر خاندان عمل پیرا نہ ہوتو یہ روش فرد واحد کی ناکامی اور تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔خاندان ہماری شخصیت کی تعمیر اور مثبت رویوں کی تشکیل کرتا ہے خاندان زندگی کے حقیقی مقصد سے آگاہی میں ہماری معاونت کرتا ہے۔البرٹ آئن اسٹائن کا کہنا ہے،’’زندگی کی خوب صورت زمین پر اپنے خاندان کے ساتھ خوشی منائیں۔‘‘ خاندان ہمیں مشکلات حالات اور وقت میں تسلی اور سہارا دیتا ہے ہر انسان کی زندگی میں مشکل وقت اور حالات آتے ہیں، جب اُسے تسلی اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے بقراط نے کیا خوب صورت بات کہی ہے،’’بیماری کسی بھی قسم کی ہو اس کا پہلا علاج تسلی ہے۔‘‘ اکثر انسان کو علاج سے زیادہ توجہ، احساس اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے جو خاندان کی بنیادی قدریں ہیں۔خاندان ہمیں جینے کی وجہ دیتا ہے معروف مصنف عرفان جاوید اپنی کتاب ’’عجائب خانہ‘‘ کے صفحہ نمبر 13 پر عنوان ’’زندگی کی گود سے‘‘ کے تحت تحریر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جب نام ور ادیب مستنصر حسین تارڑ بیماری سے دوچار ہوئے اور اُنہوں نے یہ نئی بات سیکھی،’’یہ حقیقت میں پہلے بھی جانتا تھا مگر اب میرے دل دماغ میں پوری طرح جذب ہوگئی ہے۔ یہ شہرت، مقبولیت، نام، مقام سب نظر کا دھوکا ہے۔ جو چیز حقیقی ہے وہ انسان کا خاندان اور دوچار اہم سچے دوست ہیں۔ پس باقی سب فریبِ نظر ہے۔‘‘ خاندان ہمیں معاشرے کا موثر رکن بناتا ہے آج کے دور میں انسان صرف اپنی ذاتی اور انفرادی ترقی کا طلب گار ہوتا ہے جب کہ خاندان ہمیں یہ شعور دیتا ہے کہ ہم معاشرے کا حصہ ہیں، جہاں ہمیں دیرپا اور پائے دار ترقی کے لیے باہمی ترقی اور اجتماعی نشوونما پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے معاشرے سے بیگانے اور لاعلم رہ کر ترقی نہیں کرسکتے۔ خاندان ہمیں معاشرے کا موثر اور سرگرم عملی رکن بننے کی وجہ فراہم کرتا ہے۔ خاندان ناکامی اور مشکل میں ہمارا ساتھ دیتا ہے خاندان ہمیں اپنے رویے اور کردار کو بہتر بنانے کی تحریک دیتا معروف ماہر نفسیات اور مصنف ایڈم گرانٹ کا کہنا ہے کہ اکثر نوجوانوں کو خود غرض، بے حس اور منفی اثر سے جلد متاثر ہونے والے سمجھا جاتا ہے جب کہ ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ جو نوجوان نیکی کے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں وہ اپنی صحت کو نقصان کے خطرات، ساتھیوں کے دباؤ اور اچھے رول ماڈل کی تلاش کی مشکل سے بھی دوچار ہوتے ہیں۔ خاندانی ذمے داریوں کو سمجھنے اور پورا کرنے کے لیے بہت زیادہ تربیت اور کتابیں پڑھنے کی نہیں بس انسان بننے کی ضرورت ہے۔ میرے دادا کہا کرتے تھے،’’بیٹا! رشتے نبھنانا آسان نہیں ہوتا، یہ ایک آرٹ ہوتا ہے، جو صرف انسانوں کو آتا ہے، رشتے انسان نبھاتے ہیں فرشتے نہیں، بس انسان بننے کی کوشش کرو‘‘۔ آج والدین پریشان ہیں بچوں کی تربیت اور تعلیم کی وجہ سے حقیقت یہ ہی ہم اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے اگر ہم دن،ہفتے ، پندرہ دن یا ایک ماہ میں ایک دفعہ اپنے بچے کا سکول بیگ ٹیبل پر الٹ دیں اور اس میں موجود ایک ایک کتاب اور نوٹ بک کو کھول کر دس پندرہ منٹ کے لیے اس کا جائزہ لیں تو بھی مجھے یقین ہے کہ وہ اگلے دن اس کے سکول ضرور جائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سٹوڈنٹس جن کے والدین ان کے تعلیمی عمل کی خود نگرانی کرتے ہیں، گاہے بگاہے ان کے تعلیمی اداروں میں جاکر ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں ۔ ان کے اساتذہ و سکول انتظامیہ سے ملتے اور بچے سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں ۔ وہی سٹوڈنٹس اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن جن سٹوڈنٹس کے والدین اپنے بچوں کی تعلیمی کارکردگی کی نگرانی خود نہیں کرتے ۔ نہ ان کے تعلیمی اداروں اور اساتذہ سے مسلسل رابطہ رکھتے ہیں وہ سٹوڈنٹس نہ صرف قابلِ ذکر تعلیمی کامیابیاں حاصل نہیں کر پاتے بلکہ ان کی شخصیت و کردار کی تعمیر میں بھی خامیاں رہ جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button