CM RizwanColumn

ایک اور گرفتاری؟ .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

موجودہ مخلوط حکومت پر خاص طور پر سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حامی لوگوں کی جانب سے یہ الزامات ایک تواتر، طوالت اور پوری شدومد سے لگائے جارہے ہیں کہ یہ حکومت پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں یا حامیوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتے ہوئے ان کو بلا جواز اور بغیر کسی جرم کے محض مخالفانہ اظہار رائے پر گرفتار کر رہی ہے۔ اس ضمن میں شہباز گل، اعظم سواتی، عمران ریاض خان، فواد چودھری، شیخ رشید وغیرہ کی مثالیں دی جارہی ہیں، حالانکہ ان سب کی گرفتاریاں اور بعد ازاں عدالتوں سے ملنے والی بلاتاخیر ضمانتوں اور رہائیوں کو دیکھ کر یہ کہنا مشکل ہو جاتا ہے کہ حکومت وقت نے انہیں گرفتار کروایا ہوگا یا پھر عدالتوں میں ان کی شنوائی یا رہائی میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالی ہوگی۔ البتہ پولیس اور دیگر متعلقہ انتظامی اداروں کی جانب سے کہیں چھوٹی موٹی تاخیر یا غفلت کا ہو جانا براہ راست حکومتی پالیسی کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس ضمن میں اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ چاہتے ہوئے بھی سول حکومت ان رہائیوں اور ضمانتوں کے خلاف اثر انداز نہیں ہو سکی۔ ہاں اب ایک ایسی قانونی کارروائی ضرور شروع ہو چکی ہے جس کا باقاعدہ طور پر سول حکومت نے ایف آئی اے کو حکم صادر کیا تھا۔ وقوعہ یہ تھا کہ ستمبر 2022 میں سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی ایک آڈیو لیک ہوتی ہے جس میں وہ پنجاب کے صوبائی وزیر خزانہ محسن لغاری اور سابق وزیر خزانہ خیبرپختونخوا تیمور جھگڑا کو فون پر یہ ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ اس وقت کی وفاقی حکومت پاکستان کے ساتھ ہونے والی آئی ایم ایف کی ڈیل کو سبوتاژ کرنے کیلئے اپنی جانب سے خطوط لکھیں کہ وہ وفاقی حکومت پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کی متوقع ڈیل کے پابند نہیں ہوں گے کیونکہ ان دونوں صوبوں کی حکومتیں اس ڈیل کے تحت طے شدہ ادائیگیاں نہیں کر پائیں گی کیونکہ ان صوبوں میں سیلاب کی وجہ سے جو تباہی آئی ہے اس سے بچاؤ کیلئے اپنے لوگوں کو مدد دینا ہے۔ اس آڈیو لیک میں جب شوکت ترین کا ایک مخاطب اس خدشہ کا اظہار کرتا ہے کہ ترین صاحب کیا یہ ملکی مفاد کے خلاف نہ ہوگا۔ تو اس پر شوکت ترین یہ کہتے ہیں کہ دیکھ لو ایک طرف ہماری پارٹی کا مفاد ہے اور دوسری طرف دیگر ملکی مفاد۔ بہرحال اس ویڈیو لیک پر ایک جانب سے وفاقی حکومت ایف آئی اے کو حکم دیتی ہے کہ وہ اس آڈیو کی صحت پر تحقیق کر کے مناسب کارروائی کرے اور دوسری جانب میڈیا میں شوکت ترین پر سوالات شروع ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ شوکت ترین ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کے دوران یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہاں یہ ان کی پارٹی کے متفقہ اور مشترکہ لائحہ عمل کا حصہ اور لیک آڈیو درست ہے۔ نہ صرف شوکت ترین اس امر کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ اسد عمر اور فواد چودھری بھی شوکت ترین کے اس بیان کی حمایت میں بیانات دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے مقامی لوگوں کو سہولت دینے کیلئے آئی ایم ایف کی ادائیگی نہ کرنے کا معاہدے سے قبل عندیہ دے دیا ہے تو اس میں کون سی ملک دشمنی ہے۔ بہر طور ایف آئی اے وفاقی حکومت کے حکم پر اور خود سے اسے ایک جرم سمجھتے ہوئے اس آڈیو لیک پر تحقیق کا
آغاز کر دیتی ہے۔ اب ایف آئی اے نے بھی یہ اعلان کردیا کہ بعد از تحقیق یہ آڈیو درست ثابت ہوئی اور ساتھ ہی وفاقی وزارت داخلہ سے شوکت ترین کی گرفتاری کیلئے اجازت طلب کی۔ یہ گرفتاری یقیناً ایک پکی بنیاد والی قانونی مراحل طے کر کے کی گئی گرفتاری کہلوائے گی اور اسے نہ تو محض انتقامی کارروائی کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی خلاف قانون، کیونکہ ایک وفاقی تحقیقاتی ادارے نے مکمل چھان پھٹک کے بعد مزید تفتیش کا فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ سال 2022 کے ماہ ستمبر میں اس آڈیو لیک کے معاملے پر ایف آئی اے کے بار بار طلب کرنے کے باوجود بھی شوکت ترین پیش نہ ہوئے تھے اور نہ ہی ایف آئی اے کے سوالات کے جوابات دینا ضروری خیال کیا تھا جس پر ایف آئی اے نے عدم پیشی پر شوکت ترین کے خلاف دفعہ 174 کے تحت کارروائی کا بھی ارادہ ظاہر کیا تھا۔ مبینہ گفتگو میں شوکت ترین نے تیمور جھگڑا سے سوال کیا تھا کہ ‘کیا آپ نے خط بنا لیا؟ تیمور جھگڑا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ابھی بناتا ہوں میرے پاس پرانا خط ہے۔ راستے میں ہوں ابھی بنا کر آپ کو بھیجتا ہوں۔ اس آڈیو لیک میں شوکت ترین نے کہا تھا کہ خط میں سب سے بڑا اور پہلا پوائنٹ ہو گا جو سیلاب آیا اس نے خیبر پختونخوا کا بیڑا غرق کر دیا ہے، پہلا پوائنٹ ہو کہ ہمیں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کیلئے بہت پیسہ چاہئیں، میں نے محسن لغاری کو بھی کہہ دیا۔ تیمور جھگڑا نے کہاکہ ویسے یہ بلیک میلنگ کا حربہ
ہے، پیسے تو ویسے ہی نہیں چھوڑنے، میں نے پیسے نہیں چھوڑنے، پتا نہیں لغاری کو چھوڑنے ہیں یا نہیں۔ شوکت ترین نے کہا کہ آج یہ خط لکھ کر اور جو آئی ایم ایف والی ہے اس کو کاپی بھیج دیں گے تاکہ پتا تو چلے ان کو کہ یہ ہمارے سے پیسے رکھوا رہے تھے ہم وہ پیسے لے لیں گے۔ تیمور جھگڑا نے جواب دیا تھا کہ ٹھیک ہے، میں آئی ایم ایف کے نمبر 2 کو جانتا ہوں۔ یوں شوکت ترین کی آئی ایم ایف کی ڈیل ناکام بنانے کی مبینہ کوشش سے متعلق آڈیو لیک پر یہ کارروائی شروع کی گئی تھی۔
یہ وہی شوکت ترین ہیں جن کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں جب اقتصادی مشاورتی کونسل کا ممبر منتخب کیا گیا تو قومی احتساب بیورو نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کرکے استدعا کی تھی کہ رینٹل پاور پروجیکٹس کیس میں شوکت ترین کی بریت کے خلاف نیب کی اپیل کو جلد از جلد نمٹایا جائے۔ واضح رہے کہ ساہووال رینٹل پاور پراجیکٹس کیس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جنوری 2020 میں سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین، چند سابق بیوروکریٹس اور پاور ہولڈنگ کمپنی کے ڈائریکٹرز کو بری کردیا تھا۔ بعد ازاں اس کیس میں شوکت ترین کو بری کرنے کے خلاف نیب کی اپیل کی سماعت جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ عمران دور میں عبدالحفیظ شیخ کی وزارت خزانہ کے عہدے سے برطرفی کے بعد شوکت ترین وزارت خزانہ کیلئے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے تھے اور انہیں مبینہ طور پر وفاقی کابینہ میں وزیر اعظم کے معاون یا مشیر کی حیثیت سے شامل ہونے کی پیش
کش کی گئی تھی تاہم انہوں نے کابینہ میں اپنی شمولیت کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل پر فیصلے سے مشروط کیا تھا جس پر انہیں عمران حکومت نے مکمل تعاون کی یقین دہائی کروائی تھی اور پھر یہ یقین دہانی پوری بھی ہوگئی تھی۔ یہ شنیدبھی بعد ازاں آئی کہ شوکت ترین کی اس بریت کے پیچھے بھی کسی پہنچی ہوئی ہستی کا ’’فیض‘‘کار فرما تھا جس نے اس معاملے میں بھی عمران حکومت کی مدد کی تھی۔ اس کیس میں شوکت ترین پر آر پی پیز کے معاہدوں کی منظوری کا الزام تھا۔ جس پر نیب نے 2014 میں راجا پرویز اشرف، شوکت ترین، سابق وفاقی سیکریٹریز اسمٰعیل قریشی اور شاہد رفیع، پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر طاہر بشارت چیمہ اور پیپکو کے ڈائریکٹرز رضی عباس، وزیر علی بھایو، سلیم عارف، عبدالقدیر خان اور اقبال علی شاہ کے خلاف یہ مقدمہ دائر کیا تھا۔ ملزمان پر قانونی فیس کے طور پر ادا کیے گئے 61 لاکھ روپے کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا گیا تھا، شوکت ترین اس کیس کے ایک ملزم تھے۔2009 میں اس وقت کی اپوزیشن پاکستان مسلم لیگ نون نے آر پی پیز کا کیس سپریم کورٹ میں دائر کیا توسپریم کورٹ نے آر پی پیز کے معاہدوں کے ایوارڈ میں مبینہ غلط کاموں کی وجہ سے آر پی پیز کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا تھا۔ تب پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2500 میگاواٹ بجلی کے شارٹ فال پر قابو پانے کیلئے آر پی پیز متعارف کرائے تھے۔
بہرحال اب شوکت ترین کے خلاف یہ الزامات ثابت ہونے پر یہ بھی ثابت ہوگا کہ اس ’’وطن دشمنی‘‘ کا حکم انہیں پارٹی قیادت نے دیا تھا یا انہوں نے خود ہی دونوں صوبوں کے وزرائے خزانہ کو وفاقی حکومت سے تعاون نہ کرنے کا طریقہ بتایا تھا۔ یہ گرفتاری بہت اہم ہے۔

جواب دیں

Back to top button