Ali HassanColumn

کفایت شعاری کے بارے میں تجاویز .. علی حسن

علی حسن

 

حیران کن امر ہے کہ حکمران طبقہ اور اقتدار پر فائز سیاست دانوں نے ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ ملک شدید ترین مالی دبائو میں ہے اور موجودہ اقتصادی صورتحال کا فوری حل سوائے اس کے کچھ اور نہیں کہ حکمران طبقہ اور دولت مند لوگوں اور سرکاری افسران کو حاصل ہر طرح کی سہولتوں کو ختم کر دیا جائے۔ ٹیکس دہندگان کا پیسہ سرکاری اخراجات سے بچانے کیلئے وزیراعظم شہباز شریف نے کفایت شعاری کمیٹی کی پیش کردہ جامع تجاویز پر اتفاق کرتے ہوئے کمیٹی سے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ان تجاویز پر عمل کیا جائے۔ یہ تجاویز بہت تاخیر سے دی گئی ہیں اور ان پر عمل در آمد میں بھی وقت لگے گا، ہمار مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران خود بہت کم سوچتے ہیں اور انہیں کوتاہ اندیش کہا جاسکتا ہے،ہمارے سیاست داں اجتماعی مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں اور نہ ہی دور اندیشی کا استعمال کرتے ہیں۔ انہیں جو تجاویز افسران تیار کر کے دیتے ہیں ان پر بقول شخصے ’’چڑیا‘‘ بٹھا دیتے ہیں۔ جو تجاویز کفایت شعاری کمیٹی نے تیار کی ہیں، کیا وہ بہت پہلے تیار نہیں کی جا سکتی تھیں اور عمل در آمد کرایا جاتا۔ دیر آئید ہے لیکن مرتا کیا نہ کرتا والی مثال صادق آتی ہے ۔ جب ڈالر کا بحران پیدا ہو رہا تھا اور زر مبادلہ میں کمی واقع ہو رہی تھی تو اس وقت کیوں نہیں پٹرول کی راشن بندی تمام شہریوں کیلئے کر دی گئی تاکہ پٹرول کی بچت ہوجاتی جو زر مبادلہ پر بوجھ نہیں بنتا۔ کیوں ضروری ہے کہ افسران کو انفرادی طور پر بڑی بڑی سرکاری گاڑیوں فراہم کی جائیں اور پٹرول بھی دیاجائے،کیا پاکستان اب اس قسم کی عیاشی کا متحمل ہو سکتا ہے؟ برطانیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دارالحکومت لندن میں سرکاری گاڑیوں کی کل تعداد صرف 45
ہے اور تمام وزراء سمیت تمام افسران سرکاری کاموں کیلئے ضرورت کے وقت گاڑی حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کی صورتحال کا اندازہ کرنا ہے تو وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سرکاری گاڑیوں کا جس بے دریغ انداز میں استعمال کیا جاتا ہے اسے سفاکانہ استعمال ہی کہا جا سکتا
ہے۔ اس ملک میں کئی مواقع ایسے آئے کہ دور اندیشی اور ذہانت استعمال کرتے ہوئے کفایت شعاری کی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔یہی ملک تھا نا، جس کے قیام کے وقت سرکاری دفاتر میں کا غذوں میں لگانے کیلئے پن نہیں ہوتی تھی تو ببول کے کانٹے استعمال کئے جاتے تھے ۔ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم نے تو اپنے دور اقتدار میں بجٹ پیش کرتے ہوئے نئی بڑی سرکاری افسران کے انفرادی استعمال کی گاڑیوں کی در آمد پر پابندی عائد کر کے اعلان کیا تھا کہ ملک میں تیار کردہ ہزار سی سی سوزوکی کاروں کو استعمال کیا جائے۔ ان کی اس تجویز پر ملک میں صف ماتم بچھ گئی تھی ۔ سول اور فوجی افسران نے اس تجویز کی شدید مزاحمت و مخالفت کی اور اسے اپنی تضحیک تک قرار دیا تھا۔ اخبارات میں ’’ جنرل بیشنگ‘‘ کے عنوان سے مضامین شائع کرائے گئے تھے۔ کفایت شعاری کمیٹی نے بھی تجویز دی ہے کہ لگژرری گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور سرکاری ملازمین بڑی گاڑیاں استعمال
نہیں کریں گے، ریٹائرڈ سول، اعلیٰ عدالتوں کے جوڈیشل افسران اور باوردی افسران کو حاصل سہولتیں، گاڑیاں، سکیورٹی، سپورٹ سٹاف اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی وغیرہ بند کی جائیں۔ پاکستان کے افسران کو کیوں نہیں احساس ہوا کہ بھارت میں تو ان کے مرکزی حکومت کے وزیر بھی ملک میں تیار کر دہ چھوٹی کاروں امبیسیڈر اور ماروتی میں سفر کرتے ہیں اگر جونیجو مرحوم کی تجویز پر اس وقت عمل کر لیا جاتا تو ملک کو کس قدر بھاری رقم کی بچت ہو جاتی جو زر مبادلہ کو بڑھانے میں مدد گار بھی ثابت ہوتا۔ 1965 کی پاکستان بھارت جنگ کے دوران پاکستانی اخبارات بھارت میں اشیاء خور و نوش کے حوالے سے طنز کرتے ہوئے بھوکا ننگا ملک کہا جاتا تھا۔ آج بھارت کے زر مبادلہ کے ذخائر اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ان کا وزیر اعظم مودی کہتے ہیں کہ ’’بھارت اب چھوٹا سوچتا ہی نہیں ہے‘‘۔
بجلی کا بحران ہی کافی تھا کہ سبق سیکھا جاتا۔ ایک ایک افسر کے کمرے میں درجن بھر ٹیوب لائٹ اور بلب لگائے ہوئے ہیں، ایک ایک افسر کے کمرے میں دو دو ایئر کنڈیشنڈ نصب ہیں، انہیں کیوں نہیں ہٹایا گیا۔ جب کسی افسر کا عملہ بغیر ایئر کنڈیشن دفتر میں بیٹھ سکتا ہے تو افسر کیلئے کیوں ضروری تھا یا ہے۔کیا افسران یا وزراء یا اراکین پارلیمنٹ کسی اور مٹی کے بنے ہوئی ہیں،لیکن بڑے سرکاری افسران نے اپنی سہولتوں کو ختم نہیں کیا۔ یو پی ایس استعمال کیا جاتا رہا، حکومت نے سولر سسٹم اور ونڈ مل کو فروغ دینے میں کسی قسم کی دلچسپی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا حالانکہ موجود گنجائش کو وسعت دی جا سکتی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ انہیں یقین ہے کہ حکمران آئی ایم ایف کے آگے کشکول پھیلا کر پیسے لائیں گے اور خرچوں کو برداشت کریں گے ۔ قرضہ لینے کی انتہائی ناقص اور گھٹیا سوچ نے اس ملک کو وہاں پہنچایا ہے جہاں یہ آج کھڑا ہے۔ کیا یہ احساس کسی کو ہے کہ آئی ایم ایف اتنا ہی پیسہ دے رہا ہے جو اسے اس کے دیئے ہوئے قرضے کے سود میں واپس کر دیا جائے۔ یہ اسی ملک کی بات ہے کہ جب مرکزی (اب وفاقی)ا ور صوبائی وزرا ریل میں سفر کرتے تھے تو ریل کا نظام اور سہولتیں بہت بہتر تھیں۔ جب سرکاری ہسپتالوں میں تمام افسران اور پیسے والے لوگ بھی علاج کراتے تھے تو ہسپتالوں کا نظام بہتر تھا۔ اسی طرح دولت مند افراد، افسران اور عام لوگوں کے بچے سرکاری سکولوں میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے تھے تو تعلیم کا معیار بہترین ہوا کرتا تھا۔ معاشرے کو دانستہ دو طبقوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ کالی چمڑی والے جو ذہنی طور پر گوروں کے غلام ہیں اور عام لوگوں کے درمیاں فرق ہو اور معاشرہ پر حکمرانی کی جا سکے۔
ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ اگر ان تجاویز پر عمل کیا گیا تو حکمران اشرافیہ، ارکان پارلیمنٹ، ججوں، جنرلوں ، سویلین اور ملٹری افسران ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے جو سہولتیں، مراعات اور دیگر تعیشات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں وہ بہت زیادہ حد تک ختم ہو جائیں گی۔ ان میں سے نمایاں تجاویز یہ ہیں کہ کابینہ کا حجم کم کیا جائے، ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہ دیے جائیں، سرکاری خزانے سے کسی کو بھی پانچ لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دی جائے۔ سرکاری افسران کو بڑی گاڑیاں نہ دی جائیں، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، اعلیٰ عدالتوں کے جوڈیشل افسران اور باوردی سروس والوں سے تمام مراعات، سکیورٹی ، معاون سٹاف اور دیگر اخراجات واپس لیے جائیں، تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹروں کی تنخواہیں میں 15 فیصد کم کی جائیں ( یہ کم ہے۔ ان کی آدھی تنخواہیں کم کی جائیں، اگر حکومت انہیں کچھ بھی نہیں دے گی تو بھی وہ خوشی خوشی کام کریں گے) ۔ وفاقی و صوبائی سطح پر تمام وزارتوں، ڈویژنوں، محکموں ماتحت دفاتر، خودمختار اداروں، صوبائی حکومتوں کا بجٹ بھی 15 فیصد کم کیا جائے ۔ راقم کی تجویز ہے کہ پچاس فیصد کم کیا جائے۔ بیرون ملک سفارتخانوں وغیرہ کا موجودہ بجٹ 15 فیصد کم کیا جائے۔
تفصیلی تجاویز پیش کرتے ہوئے کمیٹی نے جس کے سربراہ ریٹائرڈ سیکریٹری ناصر کھوسہ ہیں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ان (تجاویز) پر عمل مشکل کام ہوگا لیکن ملک کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص جنہیں سرکاری خزانے سے پیسہ دیا جاتا ہے، کفایت شعاری مہم میں اپنا حصہ ڈالیں۔ کابینہ کا حجم کم کرکے اسے 30 ارکان تک محدود کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔تمام سرکاری عہدیداروں کو حاصل پروٹوکول اورسکیورٹی بندوبست پر نظرثانی کی جائے۔ بجٹ کو جون 2024ء تک منجمد کیا جائے، اسی عرصہ تک کیلئے ہر طرح کی گاڑیوں کی خریداری بند کی جائے۔ نئے انتظامی یونٹس کے قیام پر مکمل پابندی عائد کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ تمام سرکاری عہدیداروں کو حاصل سکیورٹی پروٹوکول پر نظرثانی کرکے اسے نمایاں طور پر کم کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ صوابدیدی گرانٹس اور خفیہ سروس فنڈ کو منجمد کیا جائے ۔جون 2024ء تک ہر طرح کی نئی بھرتی پر مکمل پابندی عائد کی جائے، کاغذ کے استعمال سے پاک ماحول اپنایا جائے اور الیکٹرونک پروکیورمنٹ متعارف کرائی جائے اور ساتھ ہی ڈیجیٹل نظام کو فروغ دیا جائے، سفری اور قیام کے اخراجات کم کرنے کیلئے ٹیلی کانفرنسنگ کو فروغ دیا جائے، سپورٹ سروسز کو آوٹ سورس کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button