پاور سیکٹر کے گردشی قرضے

پاور سیکٹر کے گردشی قرضے
تحریر ، ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کا بحران کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ یہ مسئلہ عشروں پر محیط ہے اور ہر حکومت اس کا سامنا کرتی آئی ہے۔ تاہم موجودہ وفاقی حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں جو فیصلہ کیا گیا ہے یعنی کمرشل بینکوں کی مدد سے گردشی قرضے کے اسٹاک کو مرحلہ وار ختم کرنے کی حکمت عملی، اسے پاکستان کی مالیاتی تاریخ کی ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں گردشی قرضہ (Circular Debt)کا آغاز سنہ 2007-08کے بعد شدت سے محسوس کیا جانے لگا، جب بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (IPPs)کو بروقت ادائیگی نہ ہونے کے باعث بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی، اور پھر یہ بحران پوری سپلائی چین میں منتقل ہوتا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قرضہ ایک ناسور بن کر ملکی معیشت پر بوجھ بنتا چلا گیا۔ جولائی 2019میں اس کا حجم 1200ارب روپے تھا، جو دسمبر 2022تک بڑھ کر 2536ارب اور 2024میں تقریباً 2393ارب روپے تک پہنچ گیا، جو کہ ملکی جی ڈی پی کا 2.1 فیصد بنتا ہے۔
حکومت نے پاور سیکٹر کے اس دیرینہ مسئلے کے مستقل حل کیلئے ایک جدید مالیاتی منصوبہ متعارف کروایا ہے۔ اس اسکیم کے تحت 1275ارب روپے کا قرض کمرشل بینکوں سے حاصل کیا جائے گا، وہ بھی بغیر قومی بجٹ پر نیا دبا ڈالے ہوئے۔ یہ قرضہ 0.9فیصد کم شرح سود پر، تین ماہ کے کیبور (KIBOR)کی بنیاد پر حاصل کیا جائے گا، جو بینکنگ کی تاریخ میں ایک اہم کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔
قرض کی ساخت اور ادائیگی کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ قرض 6سال میں، 24سہ ماہی اقساط کے ذریعے واپس کیا جائے گا۔ پاور ہولڈنگ کمپنی کی 683ارب روپے کی ری فنانسنگ ہوگی۔ باقی رقم سے آئی پی پیز کو واجب الادا ادائیگیاں کی جائیں گی۔ مستقبل میں شرح سود بڑھنے کی صورت میں، قرضے کی زیادہ سے زیادہ حد 1.938ٹریلین روپے مقرر کی گئی ہے۔
یہ منصوبہ صرف ایک مالیاتی تدبیر ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک مکمل اقتصادی وژن بھی کارفرما ہے۔ گردشی قرضے کے خاتمے کا یہ ماڈل اگر درست طریقے سے نافذ کیا جائے تو یہ نہ صرف توانائی کے شعبے میں شفافیت اور مالیاتی استحکام لا سکتا ہے بلکہ مستقبل میں اس قسم کی مالیاتی پیچیدگیوں سے بچائو بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ گردشی قرضہ صرف ادائیگیوں کی تاخیر کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے بجلی کی چوری، ترسیلی نقصانات، اور بجلی گھروں کو لاگت سے زائد نرخ پر ادائیگیاں جیسے مسائل بھی کارفرما ہیں۔ اگر ان اسباب کا تدارک نہ کیا گیا تو یہ منصوبہ وقتی ریلیف تو دے سکتا ہے لیکن مستقل حل فراہم نہیں کر سکے گا۔
حکومتی اعلان میں پائیدار ادارہ جاتی اصلاحات پر زور دیا گیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ اس میں توانائی کے شعبے کی ری اسٹرکچرنگ، ترسیلی نظام کی بہتری، بجلی کی قیمتوں میں شفافیت اور سمارٹ میٹرنگ کا فوری نفاذ شامل ہونا چاہیے تاکہ بجلی چوری اور لائن لاسز پر قابو پایا جا سکے۔
یہ اسکیم نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے بھی ایک مثبت پیغام ہے کہ حکومت توانائی کے شعبے کو تجارتی بنیادوں پر مستحکم اور قابل بھروسا بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔
حکومت کا یہ قدم ایک تاریخی موقع فراہم کرتا ہے کہ گردشی قرضے کے اس گہرے دلدل سے نکل کر توانائی کے شعبے کو ایک پائیدار اور خود کفیل راستے پر ڈالا جائے۔ تاہم اس کے لیے صرف مالیاتی انجینئرنگ کافی نہیں، بلکہ عملی اور ساختی اصلاحات، شفاف نگرانی، ادارہ جاتی جوابدہی، اور عوامی آگاہی کی بھی سخت ضرورت ہے۔
یہ اقدام اگر مکمل دیانت داری، فنی مہارت اور مستقل مزاجی سے نافذ کیا جائے تو پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکالنے میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ بصورت دیگر یہ بھی سابقہ اعلانات کی طرح کاغذی کارروائی ثابت ہونے کا خدشہ ہے۔