ColumnKashif Bashir Khan

آگ سے کھیل! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

ترکی اور شام میں خوفناک زلزلے نے بہت تباہی پھیلائی ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق قریباً 5 ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ ایک ہزار کے قریب عمارتیں زمیں بوس ہو چکی ہیں۔ دنیا بھر میں اس تباہی پر افسوس اور رنج کا اظہار کیا جا رہا ہے جبکہ پاکستانی حکمران شہباز شریف کل ایسے موقعے پر ترکی کے دورے کیلئے جا رہے ہیں جب وہاں کے صدر رجب اردوان بھی نہایت مشکل میں ہیں اور وہ زلزلہ زدہ علاقوں میں پھرتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان جس بدترین معاشی اور سیاسی تباہی کا اس وقت شکار ہے اس نے ریاست کی سالمیت و مستقبل کو شدید خطرات سے دوچار کیا ہوا ہے اور ایسے وقت میں پاکستان کے وزیر اعظم و وزیر خارجہ کا ترکی کا دورہ صرف اور صرف غیر سنجیدہ عمل ہی کہا جاسکتا ہے۔یہ تو ویسا ہی عمل ہے جیسے ہسپتال میں نازک حال میں پڑے کسی بھی مریض کے لواحقین ہسپتال میں ڈاکٹروں کو ان کے کام سے عام طور پر تیمار داری کا نام پر رکاوٹ بن کر کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے مناظر ہم پاکستان کے ہسپتالوں میں روزانہ دیکھتے ہیں۔
پاکستان اس وقت معاشی تباہ حالی کے ساتھ ساتھ ایسی ریاست کا عملی نمونہ بن چکا ہے جسے عرف عام میںبنانا اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔عالمی مالیاتی فنڈ کی عوام کو زندہ درگور کرنے والی شرائط کو منظور کیا جا چکا ہے اور عوام کو ڈرانے کیلئے صحافیوں اور سیاسی ورکروں و چودھری پرویز الٰہی جیسے رہنماؤں کے گھروں میں چھاپے و گرفتاریاں کا مکروہ عمل پاکستان میں سیاسی فضا کو شدید نفرت سے دوچار کرچکا ہے۔فواد چودھری کی ضمانت کے بعد ان پر ایک اور مقدمے کا اضافہ کر دیا گیا ہے جس میں حکومت کی جانب سے ان پر مے نوشی کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔دوسری جانب شیخ رشید جو متعدد مرتبہ وفاقی وزیر رہ چکے ہیں، پر جھوٹے مقدمات درج کرکے انہیں ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور تادم تحریر مجسٹریٹ نے ان کی بعد از گرفتاری ضمانت بھی منظور نہیں کی۔ماضی میں ریاستی جبر کا رونا رونے والی جماعت جس کی سربراہی آصف علی زرداری کے پاس ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم اور محترمہ بینظیر بھٹو کی غیر اخلاقی تصاویر سرعام پھینکے والی نون لیگ کی بھی بی ٹیم بن چکی ہے۔ اور ذولفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت جس کا طرہ امتیاز مزاحمت کی سیاست تھا، کو عوام سے دور کر کے نہ صرف سندھ تک محدود کردیا بلکہ اس کے خلاف عوام میں نفرت بھی بھر دی گئی ہے۔آج اسلام آباد اور سندھ وغیرہ میں شیخ رشید کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کروانے میں پیپلز پارٹی آگے آگے ہے اور ایسا کر کے وہ خفیہ ہاتھوں کے ہاتھ کھیل کر ایک ایسے نوجوان کو پاکستان کی سیاسی سربراہی دینے کا سوچ رہا ہے جو رجیم چینج آپریشن کے بعد فرمائشی وزارت خارجہ حاصل کرکے دنیا بھر کے چکر بغیر کسی مقصد کے کرتا نظر آرہا ہے۔
بلاول زرداری کی بھی مریم صفدر کی طرح واحد و آخری خصوصیت اور صلاحیت صرف اور صرف بینظیر بھٹو اور زرداری کا صاحب زادہ ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اور ان دونوں کی شکل میں پاکستان کی سیاست میں موروثیت نظر آتی ہے۔ پاکستان میں سیاسی انتقام کی جو آگ بھڑکائی جا رہی ہے وہ پاکستان کے اتحاد،سالمیت اور سکون کو تباہ و برباد کر سکتی ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں خود توڑ کر اگر ایک جانب وفاقی حکومت کو نئے انتخابات کیلئے مجبور کر دیا ہے تو دوسری جانب انہوں نے پاکستان میں غیر نمائندہ موجودہ حکمرانوں کی اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش میں آئین پاکستان کو روندنے کی کوششوں کو بھی عوام میں برہنہ پا کر دیا ہے۔پاکستان کے عوام دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے وسائل کو وحشیانہ لوٹنے والے تمام طبقات جو ماضی میں مفوک الحال ہوا کرتے تھے اس وقت اپنی اقتدار کی طاقت اور عوام سے لوٹی ہوئی دولت کے بل بوتے پر انتخابات سے نہ صرف بھاگ رہے ہیں بلکہ اس عمل کیلئے آئین پاکستان و نظام کو بری طرح کچلنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔پاکستان کے سیاسی میدانوں میں پی پی پی اور نون لیگ سمیت تمام اتحادی جماعتوں کو اپنی سیاسی اوقات اور عوامی حمایت کا بخوبی علم ہو چکا ہے جس کا عملی نمونیا مریم صفدر کا بہاولپور سمیت دوسرے اضلاح میں شادی گھروں میں باڑ لگا کر اپنے حمایتی میڈیا پر ویڈیوز جاری کرنے سے لگایا جا سکتا ہے۔
عمران خان اس وقت پاکستان کی سیاست میں بلند مقام پر پہنچ چکا ہے اور اس کی نا اہلی و گرفتاری پاکستان کی انتخابی سیاست یعنی ان کی عوامی مقبولیت و حمایت پر اب کوئی بھی منفی اثر نہیں ڈالے گی۔ پاکستان کے عوام کی رائے آنے والے انتخابات میں معتبر ٹھہرائی جانی ہو گی کہ ملکی دولت لوٹنے والوں کا چور دروازے اور رجیم چینج کے تحت اقتدار پر قابض ہونا عوام نے کسی طور قبول نہیں کیا اور اتحادیوں کا پاکستان کے اقتدار پر استعمار و سامراج کی مدد سے قابض ہونے کے خلاف بہت غم و غصہ ہے جسے مریم صفدر اور رانا ثناءاللہ کے بیانات ہوا دیتے نظر آ رہے ہیں۔عوام کی طاقت سب سے بڑی ہوا کرتی ہے اور اس کے سامنے رضا شاہ پہلوی جیسے مضبوط ترین شہنشاہ بھی تنکوں کی طرح اڑ جایا کرتے ہیں۔شاید پاکستان کے اقتدار پر قابض اتحادی حکمران ماضی میں نہیں جھانکنا چاہتے۔شہباز شریف اورآصف علی زرداری وغیرہ صدام حسین اور کرنل معمر القذافی سے مضبوط و توانا ہرگز بھی نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی بھی ان کی طرح اپنے ملک کے عوام کیلئے بنیادی سہولتیں فراہم کیں،تو پھر اس اقتدار کا گھمنڈ کیسا؟جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے اور زبان و قلم ہر قفل لگاے جاتے ہیں تو پھر ایسے حشر برپا ہوتے ہیں جو خونی انقلاب کو بھی مات دے دیا کرتے ہیں۔پاکستان کے عوام کے دلوں میں اگر موجودہ حکمران جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو اپنے بارے میں نفرت اور غصہ دیکھ کر یقین جانئے کہ وہ فورا اقتدار چھوڑ کر گوشہ نشین ہو جائیں اور جس جس ملک میں ان کی جائیدادیں و فیملیز ہیں وہاں بھاگ جاہیں۔لیکن کیا کریں عوام کو رعایا سمجھنا اور ان کے پیسوں پر عیاشیاں کرنا حکمرانوں کا پرانا چلن رہا ہے اور ہمارے حاکموں نےتو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے انجام سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج ایک جانب یہ کرپٹ اور نالائق حکمران عوام کی زندگیاں اجیرن کر چکے ہیں تو دوسری جانب عوام کی منشا اور رائے کو غضب کرنے کی کوششیں کر کے دراصل آگ سے کھیل رہے ہیں جس کا انجام ریاست پاکستان کو شدید نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ ان کا المناک انجام بھی ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button