ColumnHabib Ullah Qamar

شہدائے جموں کی بے مثال قربانیاں .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

مقبوضہ جموں میں 75 برس قبل نومبر کے ابتدائی ایام میں اڑھائی لاکھ مسلمانوں کا انتہائی بے دردی سے قتل عام کیا گیا۔انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تواتنے مختصر وقت میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے مگر یہ غاصب بھارتی فوج تھی جس نے طاقت و قوت کے بل بوتے پر کشمیر پر فوج کشی کی اور آر ایس ایس، ہندو مہاسبھا ودیگرہند و انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کا نہ صرف بہیمانہ قتل عام کیا بلکہ لوٹ مار، خواتین کی اجتماعی عصمت دری اور جلائو گھیرائو کی بدترین وارداتیں کی گئیں۔ کشمیریوں کا خون بہانے کیلئے وہ گھنائونے حربے اختیار کئے گئے جنہیں بیان کرتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آتاہے۔شیخ عبداللہ نے اپنی خودنوشت آتش چنار میں لکھا ہے کہ پانچ نومبر کوجموں شہر میں ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ مسلمان پولیس لائنز میں حاضر ہوجائیں تاکہ انہیں پاکستان بھیجا جاسکے۔ اس اعلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے مسلمان اپنے معصوم بچوں اور عورتوں کے ساتھ حاضر ہو گئے۔اس طرح انہیں ٹرکوں پر سوار کرکے لے جایا گیا اور پھر سانبہ کے قریب ایک پہاڑی کے قریب اتار ا گیا جہاں پہلے سے مشین گنیں نصب کی گئی تھیں۔ ہندو درندوںنے جوان کشمیری لڑکیوں کو الگ کیا اور باقی بچنے والے تمام جوانوں، بچوں او ربوڑھوں کو چند لمحوں میں گولیوں سے بھون کر رکھ دیا ۔ اسی طرح کا سلوک دوسرے قافلوں کے ساتھ کیا گیا۔ان شرمناک واقعات میں مہاراجہ کی فوج میں شامل پٹیالہ اور سکھ رجمنٹ کے فوجیوں کا کردار انتہائی سفاکانہ اور گھنائونا رہا۔ یہ واقعات اب مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکے ہیں۔ جب یہ قتل عام کیا گیا تو جموں کی آبادی میں سے اسی فیصد مسلمان تھے۔
بھارتی فوج اور ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ اکتوبر 1947ء میں ہی شروع کر دیا تھا۔ دیہاتوں میں مسلمانوں کے قتل اور خونریزی کے زیادہ واقعات پیش آنے پر مسلمان اپنی جانیں اور عزتیں بچانے کیلئے شہروں کا رخ کر رہے تھے مگر بھارت سرکار نے مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کی سازش پہلے سے تیار کررکھی تھی اس لیے دن بدن مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ شدت اختیار کرتا گیا۔بعد ازاں مہاراجہ پٹیالہ سرداریدوندر سنگھ نے مزید فوج جموں روانہ کر دی جس کے اہلکاروںنے بھگوا دہشت گردوں کے ساتھ مل کر جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں پر حملوں کا سلسلہ بڑھا دیااور پھر پانچ اور چھ نومبر کو لاکھوں مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے مقبوضہ جموں میں بالکل اسی طرح قتل عام کیا گیا جس طرح لدھیانہ، پٹیالہ، فرید کوٹ، جالندھر، کپورتھلہ، امرتسر، پانی پت، کرنال اور دیگر علاقوں میں کیا گیا تھا۔ تاریخی حقائق کا جائزہ لیا جائے تویہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ہیرانگر، رام گڑھ، آر ایس پورہ، کٹھوعہ، سانبہ، ادھمپور، بھمبر،
نوشہرہ، ارنیہ، سچیت گڑھ، جموں ، بٹوت وغیرہ میں آکر ڈیرے ڈالے جنہیں مہاراجہ نے خوب پروٹوکول دیا، ان کی آئو بھگت کی اور پھر انہی ہندو درندوں نے مقامی بھگوا دہشت گردوں کے ساتھ مل کر کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔آج میر پور، کوٹلی سے لیکر کراچی تک جو کشمیری آباد نظر آتے ہیں ان میں سے بہت بڑی تعداد ان کشمیریوں کی ہے جن کے آبائو اجداد نے جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے موقع پر ہجرت کی اور پھر یہاں آکر آباد ہو گئے۔
مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ 1947ء سے لیکر آج تک نہتے کشمیری اس تحریک میں اپنا خون پیش کرتے آرہے ہیں مگر ان کے جذبہ حریت میں کوئی کمی نہیں آئی، دوسری جانب بھارت سرکار آج بھی جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی بھرپورکوششیں کر رہی ہے۔بھارت سے بڑی تعداد میں ہندوئوں کو لاکر یہاں بسایا جارہا اور انہیں مستقل زمینیں الاٹ کی جارہی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ہندو انتہا پسندوں کی جموں میں سرگرمیاں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں اور وقتاً فوقتاً مسلم کش فسادات پروان چڑھانے کی بھی سازشیں کی جاتی ہیں۔ ہندو انتہا پسند وہاں کھلے عام نہ صرف گھوم پھر رہے ہیں بلکہ یہ باتیں بھی اب منظر عام پر آچکی ہیں کہ وہ جموں کے مختلف اضلاع میں موجود مندروں میں بڑی مقدار میں اسلحہ جمع کر رہے
ہیںجس سے مقامی مسلمان سخت خوف وہراس کی کیفیت میں ہیں۔ہندو انتہا پسند جب چاہتے ہیں وہاں مسلمانوںکی عبادات میں خلل ڈالتے ہیں، بازاروں میں پردہ کر کے نکلنے والی مسلم عورتوں کو تنگ کرتے ہیں اور فسادات بھڑکانے کی کوششیںکی جاتی ہیں، خاص طور پر بھارت میں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہندو انتہا پسند تنظیموں آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشواہندو پریشد ودیگرکی سرگرمیاں اور ان کے حوصلے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔بھارت کے مختلف علاقوں سے ہندو انتہا پسند یہاں جمع ہو رہے ہیں اور اپنی پراسرار سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ما ضی میں حریت پسند قائدین کی جانب سے بار بار اس جانب توجہ دلائی جاتی رہی ہے کہ جس طرح سے ہندو انتہا پسند مندروں میں ہتھیاروں کے ذخیرے جمع کر رہے ہیں یہ جموںمیں مسلمانوں کے قتل عام کی خوفناک سازشوں کا ایک حصہ ہے۔دیکھا جائے تو جموںمیں ان کی یہ سازشیں کسی حد تک کامیاب جارہی ہیں کیونکہ بڑی تعداد میں مسلمان خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے وادی کشمیر کے مختلف علاقوں کا رخ کر رہے ہیں اور بھگوا دہشت گرد جماعتیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ مسلم کش فسادات کے ذریعہ یا تو ان کا قتل عام کیاجائے اور یا پھر وہ خود ہی یہ علاقے چھوڑ کر چلے جائیں تاکہ آبادی کا تناسب مکمل طور پر ان کے حق میں ہو جائے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ حریت پسند کشمیری قوم کو متحد ہو کر بھارت کی ان سازشوںکو ناکام بنانے کیلئے بھرپور کردار ادا کرنا پڑے گا۔
کشمیر میں اس وقت نہتے کشمیریوں کی خونریزی بہت بڑھ چکی ہے۔نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران کشمیریوں کا قتل معمول بن چکا ہے اور محض اکتوبر کے مہینہ میں درجنوں کشمیریوں کو شہید کیا گیا ہے۔ بھارتی فوج اور حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی معیشت کوخاص طور پر ٹارگٹ کیا گیا ہے اور ان کے باغات، فصلیں اور گھر بار تباہ کئے جارہے ہیں۔ ہزاروں کشمیری نوجوان پتھرائو کے الزام میں اس وقت جیلوں میں ہیں اور انہیں رہا نہیں کیا جارہا ۔ مسلسل کرفیو اور لاک ڈائون نے کشمیریوں کی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں۔کوئی ایسا ظلم نہیں جو نہتے کشمیریوں پر اس وقت نہ ڈھایا جارہا ہو۔ آج بھی جب ماہ نومبر گزررہا ہے تو حالات یہ ہیں مسرت عالم بھٹ، میر واعظ عمر فاروق، محمد یٰسین ملک، شبیر احمد شاہ اور سیدہ آسیہ اندرابی سمیت دیگر حریت قیادت جیلوں میں قید یا اپنی رہائش گاہوں پر نظر بند ہیں اور انہیں نماز جمعہ تک کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جارہی،ایسی صورتحال میں مضبوط حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی دنیاکے سامنے بھارتی دہشت گردی کا پردہ چاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھے، مظلوم کشمیریوں کی کھل کر مددوحمایت کی جائے اور اقوام متحد ہ پر دبائو بڑھایا جائے کہ وہ سلامتی کونسل میں پاس کردہ قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے بھارت کو مجبور کرے۔ یہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پالیسی ہے جس پر عمل کرنا ازحد ضروری ہے ۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ اپنی شہ رگ کشمیر غاصب بھارت کے قبضہ سے چھڑائے بغیر جنوبی ایشیا میں کسی صورت امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے پانی و بجلی کی کمی جیسے بحران بھی اسی سے حل ہوں گے اور بھارتی سازشوں کا توڑ کیا جاسکے گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button