Columnعبدالرشید مرزا

گلاب دیوی ہسپتال کا ماضی اور حال .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

گلاب دیوی ہسپتال چیسٹ ہسپتال تھا اس کی تاریخی حیثیت کو چند افراد نے اپنے مفادات کیلئے تبدیل کر دیا ہے۔ اس ہسپتال کو ہندو لالہ لاجپت رائے ایڈوکیٹ نے تعمیر کروایا۔ ان کی والدہ شریمتی گلاب دیوی تپ دق(ٹی بی) کی بیماری میں مبتلا تھیں جو ان کی وفات وجہ بنی تھی۔ لالہ لاجپت رائے نے اپنی والدہ کی یاد میں تپ دق کی بیماری کے علاج کیلئے گلاب دیوی ہسپتال کی بنیاد رکھی اور تعمیر کا کام 1931 میں شروع ہوا۔ لالہ لاجپت نے 40 ایکڑ زمین حکومت سے 16 ہزار میں خریدی اس کے علاوہ 10 ایکڑ زمین حکومت نے ٹرسٹ کو عطیہ کی۔ یہ ہسپتال 50 بستر پر مشتمل خواتین کیلئے تعمیر کیا گیا اس کا افتتاح مہاتما گاندھی نے 17 جولائی 1934 کو کیا۔ پاکستان کی آزادی کے بعد مہاجرین نے والٹن ایئرپورٹ پر قیام کیا اس دوران جب مہاجرین بیمار تھے ان کا علاج گلاب دیوی ہسپتال میں کیا گیا۔ 6 نومبر 1947 کو قائداعظم محمد علی جناح اور مادر ملت فاطمہ جناح نے گلاب دیوی ہسپتال کا دورہ کیا اور مہاجرین اور دیگر مریضوں کی تیمارداری کی اور وزٹ بک میں اپنے تاثرات کا اظہار بھی کیا جس میں ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملہ کے کام اور خدمت پر تعریف کی، آج بھی وزٹ بک میں یہ تاثرات محفوظ ہیں۔ 1947 میں ٹرسٹیوں کی انڈیا منتقلی کے بعد یہاں کے درد دل رکھنے والے افراد کو جمع کیا گیا تاکہ اس ادارے کی باگ دوڑ سنبھالی جا سکے جن میں نمایاں نام بیگم رعنا لیاقت،سید مراتب علی، پروفیسر امیر الدین سمیت کچھ دیگر قابل زکر اور مخیر حضرات کو ہسپتال کا ٹرسٹی بننے کیلئے مدعو کیا گیا اور بیگم رعنا لیاقت کو گلاب دیوی ہسپتال کا چیئرمین بنایا گیا۔
گلاب دیوی ہسپتال کو جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا چیسٹ سینٹرہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے کیونکہ یہ 15 سو بستر پر مشتمل ادارہ ہے، لیکن اب آدھے سے زیادہ ہسپتال پر میڈیکل کالج کا قبضہ ہے جو وارڈز مخیر حضرات نے اپنے پیاروں کے ناموں سے بنوائی تھیں تاکہ غریب مریضوں کا علاج ہو سکے ان کو مریضوں سے خالی کروا لیا گیا ہے۔جن میں آرائیں بلاک چار کنال اور تین منزلہ وارڈ، خالق نواب وارڈ دو کنال دو منزلہ زبیدہ بلاک، نذیر بلاک، خواتین کیلئے خدیجہ وارڈ، اللہ والی وارڈ، سہگل وارڈ، نسرین آفتاب دل وارڈ، شامل ہیں جن پر غیر قانونی طور پر میڈیکل کالج کا قبضہ ہو چکا ہے اس طرح جو 1500 بستر پر مشتمل ہسپتال اب سکڑ کر 600 بستروں پر رہ گیا ہے۔ اس ہسپتال کے چیئرمین معروف بزنس مین سید شاہد علی شاہ ہیں جو کہ مراتب علی شاہ کے چشم و چراغ ہیں ۔
یہاں پر انتظامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد عمر رسیدہ اور ریٹائرڈ ہیں ایم ایس حامد حسن عمر چھ سال سے ریٹائرڈ ہیں۔ڈاکٹر عبدالرحمن ایم ڈی جو سات سال سے ریٹائرڈ ہیں ڈاکٹر ماجد کلیم ڈی ایم ایس اور ڈاکٹر عابد علی ہاشمی پروجیکٹ ڈائریکٹر العلیم میڈیکل کالج بھی ریٹائرڈ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ افراد ریٹائرڈ تو ہو چکے ہیں لیکن ہسپتال اور میڈیکل کالج سے دو دو تنخواہیں وصول کر رہے ہیں پنشن الگ سے لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر افضال، ڈاکٹر عبدالرشید قریشی بھی ریٹائرڈ ہیں اور تنخواہ ڈبل وصول کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے قریبی افراد جن کی تعداد قریباً سو سے زیادہ ہے جو ہسپتال اور میڈیکل کالج سے ڈبل تنخواہ وصول کر رہے ہیں، یوں ماہانہ کروڑوں روپے کا نقصان ٹرسٹ کو پہنچ رہا ہے جبکہ یہ پیسہ ًمخیر حضرات دیتے ہیں جو کہ ان افراد کی جیبوں میں جا رہا ہے۔ آؤٹ ڈور میں جو بھی مریض آتا ہے اسے پچاس روپے کی آؤٹ ڈور کی پرچی اور 2 سو روپے کا ایکسرے بنوانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور
آؤٹ ڈور پرچی فیس شہر لاہور کے باقی ہسپتالوں میں نہیں لی جاتی۔ جو غریب مریض ڈاکٹر کے پاس آتا ہے اسے سب سے پہلے ہزاروں روپے کے ٹیسٹ لکھ دیئے جاتے ہیں پھر آخر میں اسے کہا جاتا ہے یہ ادویات باہر سے خرید لیں جو کہ ہسپتال کے اندر ہی ڈاکٹر عبدالرحمن نے فارمیسی بنوا رکھی ہے مریض کو مجبور کیا جاتا ہے یہاں ہی سے ادویات لینی ہیں۔ اس کے علاوہ جس مریض کو داخلے کی ضرورت ہوتی ہے اس سے 920 روپے وصول کئے جاتے ہیں اور اسے ہیلتھ کارڈ پر داخل کیا جاتا ہے اور 920 روپے اس کے ہیلتھ کارڈ سے بھی کاٹ لئے جاتے ہیں۔ میڈیسن کمپنیوں سے لی گئی امدادی ادویات بھی ہیلتھ کارڈ کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں۔ ٹی بی کا علاج بالکل مفت کیا جاتا ہے لیکن اس مریض کو داخل کر کے چھ سے سات دن کے اندر اس کے ہیلتھ کارڈ میں سے 65 ہزار وصول کرکے جنرل وارڈ میں شفٹ کر دیا جاتا ہے۔ پنجاب گورنمنٹ اس ادارے کو چالیس کروڑسالانہ امداد غریب مریضوں کے علاج کے لئے دیتی ہے لیکن مجال ہے ایک روپیہ بھی ان مریضوں پر لگا ہو اس کا آڈٹ ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ہیلتھ کارڈ پر جن مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے، ان کیلئے غیر معیاری ادویات بھاٹی اور لوہاری سے لائی جاتی ہیں۔ میڈیکل کالج جو کہ ہسپتال کی پراپرٹی پر بنا ہے اس سے سالانہ ایک ارب سے زیادہ آمدنی ہوتی ہے لیکن اس کا ہسپتال کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ دوپہر 2 بجے کے بعد عملہ ہسپتال میں موجود نہ ہونے کی وجہ اموات بڑھ گئی ہیں۔ اب تو مخیر حضرات نے بھی اس ادارے سے منہ موڑنا شروع کر دیا ہے۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو یہ ادارہ اور بربادی کی طرف بڑھتا رہے گا۔ ڈاکٹر عبدالرحمن ایم ڈی کے تین بیٹے دو خواتین غیر قانونی بھرتی کروائی اور ہسپتال کی جگہ پر 3 فارمیسیز بنوائیں جن کی سالانہ قریباً سات کروڑ آمدنی ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی، وزیر صحت پنجاب، سیکرٹری ہیلتھ، چیئرمین گلاب دیوی ہسپتال ٹرسٹ سید شاہد علی اس بربادی کا نوٹس لیں اور موجودہ انتظامیہ کو فارغ کر کے قابل اور دیانتدار افراد کو تعینات کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غریب عوام اسی طرح لٹتی رہے گی اور حکمران خواب خرگوش کے مزے لیتے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button