انسداد دہشتگردی کے جج کے مراسلے پر لاہور ہائیکورٹ میں سماعت کا احوال
لاہور ہائیکورٹ نے سرگودھا کے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے ایک جج کی طرف سے موصول ہونے والے مراسلے پر جمعرات کو از خود نوٹس پر سماعت کی۔
عدالتی سماعت سے قبل ضلعی عدالت کے جج محمد عباس کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ کو بھیجے گئے دو خصوصی رپورٹس پر نظر دوڑاتے ہیں کہ جج نے ہائیکورٹ کو کیا بتایا۔ جج محمد عباس کی عدالت میں تحریک انصاف متعدد رہنماؤں کے 9 مئی کے مبینہ پرتشدد واقعات سے متعلق مقدمات زیر سماعت تھے۔
جج کی طرف سے ان رپورٹس کے چند مندرجات لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ملک شہزاد نے اپنے تحریری حکمنامے میں بھی درج کیے۔ پہلے جج کو سنتے ہیں اور پھر عدالتی سماعت کے تفصیلی احوال کا رخ کرتے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ کو موصول ہونے والے جج کے مراسلے میں کیا ہے؟
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے سماعت کے بعد تحریری حکمنامے میں لکھا کہ سات جون کو سرگودھا کی انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت کے جج محمد عباس کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار کو ایک خصوصی رپورٹ موصول ہوئی۔
اس رپورٹ میں جج محمد عباس نے بتایا کہ انھوں نے رواں برس 25 مئی کو اپنے عہدے کا چارج لیا تو انھیں یہ پیغام ملا کہ ان سے آئی ایس آئی کے کوئی صاحب ان کے چیمبر میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ مگر، جج کے مطابق، انھوں نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔
اس کے بعد جج کے خاندان والوں نے انھیں بتایا کہ کچھ نامعلوم لوگوں نے بہاولپور میں واقع ان کے پرانے گھر کے گیس میٹر کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ گھر جج کو اس وقت الاٹ ہوا تھا جب وہ وہاں پر انسداد بدعنوانی کی عدالت کے جج تعینات تھے۔ ابھی ان کے گھر والے اسی گھر میں رہائش پذیر تھے۔
جج محمد عباس نے اپنے مراسلے میں بتایا کہ ان کے خاندان والوں کو گذشتہ ماہ کا بجلی کا بل بہت بڑھا چڑھا کر دیا گیا اور ان کے خاندان سے اضافی پیسے بھی وصول کیے گئے۔
جج کے مطابق یہ بل بظاہر جعلی تھا اور اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ بل ’آئی ایس آئی اور واپڈا کے اہلکاروں کی ملی بھگت‘ سے جاری کیا گیا تھا۔
جج کے مطابق ان کے خاندان والوں سے ان سے متعلق ذاتی معلومات پوچھ کر انھیں ہراساں کیا گیا۔
جج نے اپنی رپورٹ میں چھ جون کی رات دو بج کر 15 منٹ پر سرگودھا میں انسداد دہشتگردی کی عدالت کے گیٹ پر گاڑیوں پر آئے ہوئے نامعلوم افراد کی طرف سے بجلی کے ٹرانسفارمر پر فائرنگ کا بھی ذکر کیا۔
جج اس وقت اس عدالت کے اندر موجود تھے۔ اس واقعے کی ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی۔ جج محمد عباس کی رپورٹ کے مطابق یہ دو گاڑیاں ڈی پی او کے دفتر کی طرف سے آئی تھیں۔ جج کے مطابق ان گاڑیوں میں موجود نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں بجلی کے ٹرانسفارمر کو نقصان پہنچا۔ جج محمد عباس کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ کو بھیجی جانے والی رپورٹ کے ساتھ اس خراب ہونے والے ٹرانسفارمر کی تصاویر بھی لف کی گئی ہیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے مطابق دس جون کو جج محمد عباس کی طرف سے ایک اور رپورٹ لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار کو موصول ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق دس جون کو ان کی عدالت کے سامنے 19 بعد از گرفتاری کی اپیلیں سماعت کے لیے مقرر تھیں جبکہ نو مقدمات کے ٹرائل ابھی زیر التوا تھے مگر تھریٹ الرٹ کے نام پر عدالت ہی بند کروا دی گئی۔
از خود نوٹس پر عدالتی سماعت کا احوال
انسداد دہشتگردی عدالت سرگودھا کے جج کے آئی ایس آئی سے نہ ملنے کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت لاہور ہائیکورٹ میں ہوئی۔
سرگودھا کی انسداد دہشت گردی عدالت میں فائرنگ کے ایک ناخوشگوار واقعے کے سلسلے میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب، آر پی او سرگودھا اور ڈی پی او سرگودھا کو ذاتی حیثیت میں طلب کررکھا تھا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب عثمان انور سے استفسار کیا کہ ’آپ نے عدالت کو کس قانون کے تحت بند کیا۔ آپ نے لوگوں کو آئینی حقوق سے روکا، آپ عدالتوں کی یہ عزت کرتے ہو۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آئی جی صاحب آپ کا کیا مؤقف ہے۔ آئی جی نے کہا کہ ’یہ انتہائی اہم اور عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔ سر آپ کو ایک رپورٹ جمع کرائی گئی ہے جو انتہائی حساس اور خفیہ ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ رپورٹ تھریٹ الرٹس سے متعلق ہے۔‘ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہمارے جوڈیشل افسر نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی کی طرف سے میسج آیا ہے کہ آئی ایس آئی مجھ سے ملنا چاہتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے آئی جی سے پوچھا کہ کیا ’آپ نے وہ بندہ ڈھونڈا ہے جس نے یہ کہا کہ میں نے جج سے ملنا ہے۔‘ آئی جی نے کہا کہ ’عدالت مجھے مؤقف پیش کرنے کا موقع دے۔ ہمیں سرگودھا کے اس ایریا کی جیو فینسگ کی ضرورت ہے، جہاں جج کو کال ہوئی۔ ہمیں بندہ ڈھونڈنے کے لیے سی ڈی آر بھی چاہیے۔‘
آئی جی پنجاب نے کہا کہ ’یہ بھی دیکھنا ہے جج کو کال واٹس ایپ پر کی گئی ہے یا کسی اور طریقے سے کال کی گئی ہے۔‘
آئی جی نے کہا کہ ’عدالت وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے ساتھ ہماری کمیٹی بنا دے۔‘
آئی جی نے کہا کہ ’ہمیں بھکر، میانوالی اور سرگودھا کے جوڈیشل کمپلیکس سے متعلق تھریٹ ملے تھے۔
چیف جسٹس نے آئی جی سے کہا کہ ’تھریٹ ہے یا نہیں ہے آپ یہ بتائیں سرگودھا کی عدالت میں وکلا کو جانے سے کیوں روکا گیا۔ مجھے وہ قانون بتا دیں جس کے ذریعے تھریٹ کے نام پر لوگوں کو بنیادی حقوق سے دور رکھا جائے۔ آپ سے راولپنڈی کی اے ٹی سی کے جج مینج نہیں ہوئے آپ نے ان کے ساتھ یہی کیا۔‘
آئی جی نے کہا کہ ’یہ میرے متعلق نہیں ہے سر، میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’سرگودھا عدالت کے باہر فائرنگ کے معاملے پر کیا اپ ڈیٹ ہے۔‘ آئی جی نے کہا کہ ’ہمیں وہاں سے 17 گولیوں کے خول ملے ہیں۔ ہم نے یہ معاملہ سی ٹی ڈی کو ریفر کر دیا ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آئی جی پنجاب آپ نے ابھی تک کون سا بندہ گرفتار کیا ہے۔‘ آئی جی نے کہا کہ ’ہمیں جیوفینسنگ کی اجازت دے دیں، ہم جیو فینسنگ کر کے آپ کو رپورٹ دے دیتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرگودھا کے اے ٹی سی جج کے گھر کا میٹر بھی توڑ دیا گیا۔ آئی جی نے کہا کہ ’میں نے چیک کرا لیا ہے، ہمیں اس حوالے سے کوئی درخواست نہیں ملی ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آئی جی پنجاب صاحب یہ آپ کے بس کا معاملہ نہیں ہے۔‘
آئی جی نے کہا کہ ’اس کیس میں عدالت کا حکم چاہیے تا کہ ہمیں وفاقی حکومت سے جیو فینسنگ کی اجازت مل سکے۔‘
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’آئی جی پنجاب ڈی پی او سرگودھا یہ بتائیں کہ کس قانون کے تحت سرگودھا جوڈیشل کمپلیکس کو بند کیا گیا۔‘
ڈی پی او سرگودھا نے کہا کہ ’وہاں تھریٹ الرٹ تھے، ہم نے سرچ اینڈ سویپ آپریشن کیا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ نے صرف یہ کام اس لیے کیا کہ جج اے ٹی سی کے پاس جو کیسَز لگے ہیں وہ ان پر کارروائی نہ کر سکیں۔‘
آئی جی پنجاب کے بار بار بولنے پر چیف جسٹس نے دوران سماعت آئی جی پنجاب کی سرزنش کی اور کہا کہ ’آپ خاموش رہیں۔‘
چیف جسٹس نے آئی جی کو تنبیہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کیوں نہ سرگودھا جوڈیشل کمپلیکس بند کرنے پر پولیس کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی شروع کی جائے۔‘
ڈی پی او سرگودھا نے کہا کہ ’وہاں ہجوم تھا، سکیورٹی تھریٹ تھے، اس لیے بند کیا گیا۔‘ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’تھریٹ الرٹ تو پورے پاکستان میں ہیں، پھر سب کچھ بند کر دیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’جج صاحب نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ان کی حفاظت اللہ نے کرنی ہے۔ جج صاحب اپنے کام سے نہیں رکے انھوں نے کہا ہے کہ وہ تھریٹس سے نہیں ڈرتے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا حساب تو انھوں نے لینا ہے جنھیں اپ خوش کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’آئی جی پنجاب صاحب عدالتوں کا مذاق نہ بنائیں۔‘
چیف جسٹس نو مئی والے بندے اندر ہیں کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہوا کارروائی ہو گئی، وہ تو چلیں عدالتوں نے فیصلے کرنے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے کی سب سے بڑی عدالت پر حملہ ہوا اپ نے ایک بھی بندے کو مقدمے میں نامزد نہیں کیا۔
آئی جی نے کہا کہ ’آپ نے مجھے خود شاباش دی تھی کہ پولیس نے اچھی کارروائی کی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’جو جج پسند نہیں آتا ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع ہو جاتی ہے، درخواست آ جاتی ہے، پروگرام ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔`
عدالت نے سماعت کے بعد اس از خود نوٹس پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
یاد رہے کہ رواں برس مارچ کے تیسرے ہفتے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی طرف سے بھی خفیہ اداروں کے عدلیہ پر ’دباؤ‘ سے متعلق خط سامنے آیا تھا، جس میں انھوں نے سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا کہ آئی ایس آئی کے نمائندوں کی عدالتی امور میں مسلسل مداخلت پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کنونشن سے پتہ چلے گا کہ کیا ملک کی دیگر ہائیکورٹ کے ججز کو بھی اس صورتحال کا سامنا ہے۔
اس خط میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں رہنمائی نہیں کی گئی کہ ایسی صورتحال میں ججز کیسے رد عمل دیں؟ اور اس کے علاوہ یہ بھی واضح نہیں کہ ججز اس طرح کی مداخلت کو کیسے ثابت کریں؟