پاکستان

عدالتی فیصلوں پر آپ کی تنقید بلاجواز: سپریم کورٹ کا برطانوی ہائی کمشن کو خط

پاکستان سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے بلے نشان کے عدالتی فیصلہ پر تنقید پر ب کو بذریعہ خط جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک سیاسی جماعت نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، اس فیصلے کے بارے میں آپ کی تنقید بلاجواز تھی۔‘

بدھ کو لکھے جانے والے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں آپ کی پرجوش تقریر میں جمہوریت کی اہمیت، انتخابات اور کھلے معاشرے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا، برطانوی حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی دلچسپی خوش آئند ہے۔‘

‏خط رجسٹرارسپریم کورٹ نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر لکھا ہے جس میں کہا گیا کہ ’برطانوی ہائی کمشنر نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جمہوریت اور کھلے معاشرے کی بات کی، سپریم کورٹ آف پاکستان نے غلطیوں کا ازالہ کیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ برطانیہ بھی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرے۔‘

 تین صفحات پر مشتمل خط میں 1953 میں ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے اور بالفور اعلامیہ کے ذریعے اسرائیلی ریاست کے قیام کا تذکرہ بھی کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ’برطانوی حکومت نے دو نومبر 1917 کو اپنے شہری کو خط لکھا جس میں ایک آباد کار نوآبادیاتی ریاست کے قیام کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا، اس فیصلے کو علاقے کے لوگوں نے جو اس سے متاثر ہوئے اور نہ ہی آپ کے لوگوں نے ووٹ دیا، برطانوی حکومت نے یکطرفہ طور پر اس کا فیصلہ کیا، بالفور اعلامیہ وہ بنیاد بن گیا جس پر ایک نسلی ریاست قائم ہوئی، جو لوگ ہمیشہ وہاں رہتے تھے اس نسلی ریاست سے نکال دیئے گئے، ان پر وحشیانہ تشدد ہوا اور ہزاروں بچے مارے گئے، جو بچ گئے وہ معذور ہوئے۔‘

خط میں کہا گیا کہ ’یہ بات خوش آئند تھی کہ آپ نے بارہا ’اوپن سوسائٹیز‘ کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ متحرک جمہوریتوں کے لیے ضروری ہے، آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ سپریم کورٹ نے معلومات کے حق کو تسلیم کیا ہے، اسے خود پر بھی لاگو کیا ہے، اس کے فیصلے کی کاپی ساتھ منسلک ہے، ماضی کی پرتشدد غیر جمہوری غلطیوں پر قائم رہنا موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے ٹھیک نہیں، آئیے سچائی کو اپنائیں۔‘

خط میں پوچھا گیا ہے کہ ’کیا 1953 میں محمد مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا، ایرانی تیل پر قبضہ کرنا، سات دہائیوں سے زیادہ چھپنے کے بعد ظاہر نہیں ہونا چاہیے؟ کیا یہ مجرم اور مظلوم کے لیے بہتر نہیں ہو گا؟ کیا یہ اعتماد، ممکنہ طور پر دوستی اور امن کو جنم نہیں دے گا؟

جواب دیں

Back to top button