
سی ایم رضوان
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فطرت، طبیعت اور رجحانات کا اندازہ لگانے کے لیے یہ امر ہی کافی ہے کہ جب وہ 13 سال کے تھے، ان کے والد کو ان کے کمرے میں بٹن سے کھلنے والا ایک چاقو ملا تھا اور انہوں نے فوراً ان کی اصلاح کے لیے انہیں ملٹری سکول روانہ کر دیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بیس بال ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے اچھے کھلاڑی ثابت ہوئے اور انہیں صفائی ستھرائی کے لیے ’نیٹ نیس اینڈ آرڈر‘ کا اعزاز بھی ملا لیکن ملٹری اکیڈمی میں وہ کسی کو قریبی دوست بنانے میں ناکام رہے۔ 1964 میں سکول سے فارغ ہونے کے بعد گلیمر کی دنیا سے بہت زیادہ متاثر ہونے کے سبب ان کے ذہن میں فلم سکول جانے کا خیال مچلنے لگا لیکن انہوں نے فورڈہم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر دو سال بعد پینسلوینیا یونیورسٹی کے وارٹن بزنس سکول منتقل ہو گئے۔ کالج ختم کرنے کے تین سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ نیویارک شہر میں مین ہیٹن میں منتقل ہوئے۔ کوئنز سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کو نیویارک کے امرا میں گھلنے ملنے میں شروع میں مشکل ہوئی لیکن انہوں نے بہت سے معماروں کو اپنی بے باکی اور جسارت سے حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے ایک پیچیدہ ڈیل میں اپنے والد سے مالی امداد حاصل کرتے ہوئے سات کروڑ میں 42 ویں سٹریٹ پر واقع کموڈور ہوٹل خریدا۔ پھر اس عمارت کی از سر نو تعمیر کی۔ اسے دی گرانڈ حیات ہوٹل کے نام سے 1980 میں دوبارہ شروع کیا۔ یہ تجربہ بہت کامیاب رہا اور چونکہ ڈونلڈ نے 50 فیصد سود کی شرح رکھی تھی اس لیے پیسے ان کے پاس آنے لگے۔ پھر ان کے ٹرمپ ٹاور کی تعمیر میں قانونی دستاویزات نہ رکھنے والے پولینڈ کے مزدوروں نے اہم کردار ادا کیا۔
نیویارک ٹائمز نے اس جگہ موجود دو آرٹ ڈیکو کو منہدم کرنے کے لیے ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن ایک بار جب
28 منزلہ عمارت تیار ہوگئی تو نیویارک کے میئر ایڈ کوچ سمیت سات سو مہمانوں نے ٹرمپ کی پارٹی میں شرکت کی۔ جشن کے طور پر میڈیسن ایونیو پر 10 ہزار غبارے چھوڑے گئے۔ اس عمارت نے ٹرمپ کے نام کو مین ہیٹن میں مستحکم کر دیا اور وہ آج تک وہیں رہتے ہیں اور وہیں سے کام کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی پہلی کتاب ’’دا آرٹ آف دا ڈیل‘‘ نومبر 1987 میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر کتابوں کی فہرست میں 48 ہفتوں تک رہی جن میں سے 13 ہفتے سرفہرست رہی۔ اس کتاب سے نہ صرف ٹرمپ کو رائلٹی کی شکل میں لاکھوں ڈالر کی آمدنی ہوئی بلکہ ان کی شہرت بڑھ گئی۔ انہیں تجارت کے ہنر میں ایک عالمی علامت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ ٹرمپ آرگنائزیشن کے لیے آمدنی چھت چھونے لگی۔ آنے والے دنوں میں انہوں نے ٹرمپ ایئرلائنز شروع کی۔ سینکڑوں عمارتیں تعمیر کیں اور اتنا منافع کمایا کہ اپنی یاٹ خریدی جس کا نام ’ٹرمپ پرنسیس‘ رکھا۔ ٹرمپ کے لیے 1990 کی دہائی ان کی اہلیہ سے بہت ہی مہنگی طلاق پر ختم ہوئی کیونکہ اہلیہ کو ان کے معاشقے کا علم ہو گیا تھا۔ ٹرمپ کی رنگ باز طبیعت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار انہوں نے گلی سے گزرتے ہوئے ایک غریب آدمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے قرضوں کے سبب اس شخص سے 90کروڑ ڈالر زیادہ
غریب ہیں۔ انہوں نے اپنی مالی پریشانیوں کے دوران اپنی دوسری کتاب’’دا آرٹ آف دا کم بیک‘‘ سے بھی فائدہ حاصل کیا۔ یہ کتاب بھی بیسٹ سیلر کی فہرست میں شامل رہی اور اس میں قرضوں سے باہر نکلنے، مارلا میپلز کے ساتھ مختصر (1993-97) ازدواجی زندگی کی پہیلیوں کی کہانی بیان کی گئی۔ ان سے ان کی دوسری بیٹی ٹیفینی ٹرمپ پیدا ہوئی۔ جون 1999 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے والد فرڈرک کرائسٹ ٹرمپ 93 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ورثے میں انہوں نے قریباً 250 سے 300 ملین ڈالر چھوڑے۔ ان کے جنازے میں تقریر کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین دن ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو جان ایف کینڈی جونیئر کی جانب سے اس موقع پر ایک تعزیتی خط بھی ملا جس میں کہا گیا تھا کہ ‘چاہے آپ زندگی کے کسی بھی موڑ پر ہوں، والدین میں سے کسی کی موت آپ کو تبدیل کر دیتی ہے۔
ہلیری کلنٹن کے خلاف صدارتی مہم پہلا موقع نہیں تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدارت حاصل کرنے کی کوشش کی ہو۔ 1999 میں بھی انہوں نے ریفارم پارٹی کے امیدوار بننے کی بھرپور کوشش کی تاہم فروری 2000 میں ریفارم پارٹی میں اندرونی کھینچا تانی کے باعث یہ کوشش ترک کر دی۔ 2000 میں ٹی وی ہدایتکار مارک برنٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ایک نئے فارمیٹ کے شو کی تجویز لے کر گئے۔ انہوں نے ایک ایسا شو کرنے کی تجویز کی جس میں ڈونلڈ ٹرمپ مختلف قسم کے ایگزیکٹو کردار ادا کریں۔’’دی اپرینٹس‘‘ نامی اس شو سے ٹرمپ کو موقع ملا اور وہ مالیاتی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ،
انہوں نے اس شو کے ذریعے بہت زیادہ پیسے کمائے۔ اس شو کے پہلے سیزن کی آخری قسط کو اس سال میں سپر بول کے بعد سب سے زیادہ دیکھا گیا۔ 2007 میں انہیں ہالی وڈ واک آف فیم میں ستارہ بھی ملا۔ 2006 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ میں کچھ شہرت اس وقت حاصل کی جب انہوں نے سکاٹ لینڈ میں ایبرڈین شائر میں ایک گالف کورس خریدا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ اقدام انہوں نے اپنی سکاٹش والدہ کی یاد میں کیا۔ یہ پراجیکٹ ان کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوا کیونکہ مقامی برادری اور ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے والے کارکنان کے ساتھ ان کے شدید اختلافات رہے۔ اگرچہ مقامی کونسل نے ٹرمپ کی جانب سے اجازت نامے کی درخواست مسترد کر دی تاہم فرسٹ منسٹر ایلکس سالمنڈ کی مداخلت کے بعد 2010 میں اس کورس پر تعمیراتی کام شروع ہوگیا اور یہ کورس 2012 میں کھول دیا گیا۔ تاہم 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب سے متعلق ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ اپنی صدارتی مہم پر خرچہ وہ اپنی جیب سے کریں گے۔ ان کی زندگی ڈراموں، مشکلات اور خوش بختی کا ایک مرکب ہے وہ ایک متنازع شخصیت کے مالک ہیں۔
پچھلے ہفتے پیر کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ریاست فلوریڈا میں واقع گھر پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کے ڈرامائی چھاپے سے ان کے خلاف جاری تحقیقات میں اچانک تیزی آگئی ہے، جس نے دوسرے قانونی سوالوں سمیت اس سوال کو بھی جنم دیا ہے کہ کیا (نظریے کی حد تک سہی) یہ تحقیقات امریکی صدارتی عمل کو بدل سکتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان کے خلاف جاری انکوائری میں، جس میں مبینہ طور پر ٹرمپ کے خفیہ صدارتی دستاویزات کو حفاظت سے نہ رکھنے کی تحقیقات ہو رہی ہیں، انہیں مجرم ٹھہرایا جاتا ہے تو بعض ماہرین کے خیال میں وہ قانونی طور پر صدارتی انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کے اہل نہیں رہیں گے۔اس حوالے سے امریکی محکمہ انصاف کے سابق پراسیکیوٹر جوزف مورنو کا کہنا ہے کہ ایف بی آئی نے جس طریقے سے پام بیچ کے تفریحی مقام مارالاگو میں واقع ٹرمپ کی رہائش گاہ کی تلاشی لی ہے اس سے لگتا ہے کہ ان کے خلاف تحقیقات ممکنہ طور پر ان پر فرد جرم عائد ہونے کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ایف بی آئی میں بعض اہلکار اور ایک پراسیکیوٹر کا خیال ہے کہ صدارتی ریکارڈز ایکٹ (جو صدر کو تمام دستاویزات اور ای میلوں کو نیشنل آرکائیو میں منتقل کرنے کا پابند بناتا ہے) کی خلاف ورزی یا خفیہ دستاویزات سے متعلق دوسرے قوانین کی مجرمانہ خلاف ورزی ہوئی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اگلا قدم اٹھایا ہے۔
بہرحال ٹرمپ کے گھر پر مبینہ چھاپے کے بعد زیادہ تر تجزیے اور 2024 کے صدارتی انتخابات سے متعلق بنیادی عنصر، میں زیادہ تر توجہ ٹائٹل آف دا یونائٹیڈ سٹیٹس کوڈ کی دفعہ 2071 کے نام سے ایک کم معروف فوجداری قانون پر دی جا رہی ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ جس شخص کو بھی اس قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا تو وہ کسی بھی وفاقی عہدے کے لیے نااہل قرار پائے گا۔ یہی سبب ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں اگر سابق صدر ٹرمپ کو مجرم پایا گیا تو ایوان صدر میں واپس آنے سے متعلق ان کی مبینہ امیدوں پر پانی پھِر جائے گا۔ صدارتی مورخ مائیکل بیسکلوس کے مطابق یہ ایک حقیقی قانون ہے اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ اس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے جس کی سزا بھی حقیقی ہے، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ کسی وفاقی عہدے پر کبھی خدمات انجام نہیں دے سکیں گے۔ بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ امریکی صدر بننے تو کجا امیدوار بننے کے امکانات بھی معدوم نظر آرہے ہیں۔