ColumnNasir Naqvi

مایوس نہیں ہونا؟ ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی

اسلامی جمہوریہ پاکستان، برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایسی بڑی نعمت ہے کہ مالک کائنات کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے، کم ہے۔ اس لوٹ مار کے ماحول میں بھی آزادی کی فضاء کی قیمت ہم اور آپ ہی نہیں اشرافیہ بھی ادا نہیں کر سکتا کیونکہ فلسطینی اور کشمیری نسلوں کی قربانیاں دے کر ابھی تک اپنی دھرتی ماں پر ظلم وستم برداشت کر رہے ہیں اس لیے کہ دنیا کے امن و انصاف کے ٹھیکیدار مفادات کی شراب سے ایسے مدہوش ہیں کہ انہیں اس عالم مدہوشی میں کچھ نظر نہیں آتا حالانکہ یہی ٹھیکیدار پوری دنیا کو امن پسندی اور حقوق انسانی کا درس دیتے نہیں تھکتے۔ ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دیں، گھر سے بے گھر ہوئے۔ مال و دولت کی پرواہ نہ کی، اپنے پیاروں کو خون میں نہاتے ہوئے رخصت کیا ،اگر ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کر کے تصور میں صرف اندازہ لگائیں تو یقیناً کانپ جائیں گے۔ خوش قسمتی سے ابھی ہمارے اردگرد ایسی چند شخصیات موجود ہیں جو اس خاک و خون کی داستان کے عینی شاہد ہیں۔ اگر ہم دھرتی ماں سے محبت کا دم بھرتے ہیں تو ہمیں ان شخصیات سے ٹٹو ل ٹٹول کر آگاہی حاصل کرنی چاہیے تاکہ اسے قومی راز سمجھتے ہوئے نئی نسل تک پہنچا سکیں لیکن 75سالوں میں ہماری کوتاہیوں، نکمے قائدین اور قومی اداروں کے ذمہ داروں نے ایسا ماحول بنایا کہ آج پھر نعرہ بلند کیا جا رہا ہے ’’آزادی کہ غلامی‘‘ ، جبکہ حقیقت حال یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے آئین اور قانون کے دائرے میں نہ صرف آزاد ہے بلکہ ایک مستحکم خارجہ اور داخلہ پالیسی بھی رکھتا ہے۔ یہ ترقی پذیر ایک غریب ملک ضرور ہے لیکن یہاں نہ باصلاحیت افراد کی کمی ہے اور نہ ہی دولت مندی کی، دوسرے ممالک سے فرق یہی ہے کہ تمام تر نعمتوں اور زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی غریب اور بے بسی اس لیے رقص کر رہی ہے کہ ہمیں بنانے والوں کے بعد سنوارنے والے ایسے ملے کہ وہ خود تو سنور گئے ، ملک و قوم کو دلدل میں پھنسا گئے۔ دولت اور وسائل پر اجارہ داری رہی اور اب بھی ہے۔ ملکی دولت آمرانہ اور جمہوری دور میں باپ کا مال سمجھ کرلوٹی گئی اور کوئی کسی کا ہاتھ نہیں پکڑ سکا۔ اس لیے کہ کچھ اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے مصلحت پسند بن گئے اور اکثریت غم روزگار کے ہاتھوں یرغمال بنے رہے لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ ہر حکمران نے ہمیں اس حال میں پہنچانے کے لیے اپنا اپنا حصّہ بقدر جثہ خوب ڈالا بلکہ اس پر فخر بھی کیا ، نتیجہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں، قوم سرتاپا غیر ملکی قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہی نہیں دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کا ہر بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی مقروض ہوتا ہے۔ قصور وار کون ہے؟ پہلا نشانہ حکمران، دوسرا قومی اداروں کے بڑوں کی نااہلی اور مفاد پرست پالیسیاں اور تیسرے نمبر پر عوام آتی ہے کہ اس نے بھی نفع نقصان میں ناقابل اعتبار لوگوں کو منتخب کیا یعنی جیسے لوگ ویسی قیادت، لیکن مجھے تیسرے فریق پر اعتراض یہ ہے کہ اسے پرچی پر مہر لگانے کا اختیار ضرور ہے لیکن ہمارے پاس ان سے بڑے اختیارات والے لوگ بھی موجود ہیں جن کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ایسے میں بے چارے تین نمبر کی کیا حیثیت؟ حقیقی حکمران تو ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ، ایک نمبر اور دو نمبر ہی ہوتے ہیں۔ دراصل بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خان کے قتل سے سارے معاملات جڑے ہیں۔ فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان سے خان اعظم عمران خاں تک پاکستان کو تجربہ گاہ ہی سمجھا گیا ان سے پہلے آتے جاتے حکمرانوں کو تو جنرل ایوب خان نے ہی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا، جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ضرور ہے لیکن قابل شرمندگی ہے اس تجربہ گاہ میں ماسٹر مائنڈ کبھی اپنے تھے اور کبھی پرائے، ہر کسی نے اپنی
عقل بوجھ کے مطابق قوم کے امتحان لئے، ہمارا حال غریب کی جورو والا کیا، جس کے اپنے پلے کچھ نہیں ہوتا، ملکی وسائل کو مسائل میں تبدیل کرنے کا سب سے بڑا سہرا جنرل ضیاء الحق کے سر سجا، امریکہ بہادر کی محبت میں مستقبل کی فکر لاحق نہیں تھی۔ موجودہ دور میں چور اور ڈاکو کہلائے جانے والوں نے بھی باریاں لیں، موج میلہ کیا ، لہٰذا صاحب اختیار نے چھوٹی سی عوامی خواہش پر تیسری طاقت لا کھڑی کی لیکن یہ تجربہ بھی فیل ہو گیا اور لاٹری ماضی کے آزمائے ہوئے لوگوں کی نکل آئی، لیکن دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اقتدار سے جانے والے تو پریشان ہیں، آنے والے بھی گھبرائے ہوئے ہیں اس لیے کہ تجربہ گاہ کے وسائل ہیں نہ ہی آلات، پھر ماضی سے مختلف رزلٹ کیسے نکلے گا۔ قوم کو پیغام دیا جارہا ہے کہ ’’مایوس نہیں ہونا‘‘ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی‘‘ لیکن حقیقت میں چراغ جلیں نہ جلیں اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے، مہنگائی نے اشرافیہ کے فانوس نہیں بجھائے، غریبوں کے چولہے اور بلب، بجلی اور گیس کی قیمت کے ساتھ بونس میں ملنے والے لوڈشیڈنگ کے تحفے سمیت بجھ گئے ہیں۔ پھر بھی کہتے ہیں مایوس نہیں ہونا، یہ گناہ ہے۔ حالات جو بھی ہوں دلیری سے مقابلہ کرنے والی قومیں ہی کامیابی کی منازل طے کرتی ہیں۔ ایسا کہنے والے سے کون پوچھے کہ مقابلہ صحت، تندرستی اور جان و مال سے ہوتا ہے۔ موجودہ سنگین معاشی صورت میں میں ایسا کچھ نہیں لوگوں کے پاس، سوچ سوچ پر چھپے دشمن بلڈ پریشر اور جسمانی دیمک شوگر کی زد میں اکثریت ہے ہر شخص کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ آمدن اور اخراجات ایک دوسرے کو منہ چڑا رہے ہیں۔ نہ گاڑی چلانے کے لیے پٹرول لینے کی ہمت ہے، نہ ہی ہانڈی پکانے کا تیل خرید سکتے ہیں۔ پرانے زمانے میں لوگ سادہ تھے پیاز اور خربوزے سے روٹی کھا لیتے تھے اب ایسا ممکن نہیں۔
بدترین حالات میں مہنگائی نے کمر ہی نہیں توڑی، پسلیاں بھی چکنا چور ہو چکی ہیں۔ سادگی اور بچت کی خواہش پر جسم میں بھی پہلے جیسی طاقت نہیں رہی۔ پھر بھی کہا جا رہا ہے مایوس نہیں ہونا۔ نظام بدلے گا، کوئی یہ نہیں بتاتا کہ کب اور کیسے؟ ہم اور ہمارے حکمران اپنی عادات بدلنے کو تیار نہیں تو نظام بھلا کیسے بدل سکتا ہے؟ جواب ملتا ہے مایوسی گناہ ہے، ہمیں سوشل انقلاب،خونی انقلاب، ٹھنڈا انقلاب، گرم انقلاب بہت سی خوشخبریاں سنائی گئیں لیکن قوم بھی صرف تماشا دیکھتی رہی اس لیے کہ نعرے لگانے والے خود پُراعتماد نہ تھے تو قوم کیسے اعتماد کرتی؟ پھر ریاست مدینہ کا خواب بھی قوم نے دیکھا حالانکہ نظام مصطفیٰ ﷺکا چکمہ ہم کھا چکے تھے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اسے صادق اور امین کی ڈگری بھی جاری کر دی، پونے چار سال من مانی بھی ہوتی رہی لیکن اس تجربے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، سب حکمرانوں نے اپنی چوری اور ڈکیتی کیلئے جتنے غیر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے قرضے لیے تھے صادق اور امین وزیراعظم اپنے دورِ حکومت میں ان سے بھی زیادہ قوم کو مقروض کر گئے۔ تنقید پر سب غدار قرار دے دئیے گئے لیکن نظام قدرت اٹل ہے۔ حالات نے کروٹ بدلی اور میر جعفرو صادق تخت اقتدار پر آ بیٹھے اور صاحب اقتدار کا مقدر ملک کے طول و عرض کی خاک چاٹنے لگا۔ اب یہ سوچیں جہاں بات بات پر کسی کو غدار کا لقب دے دیا جائے وہاں وفاداری کی سند کہاں سے ملے گی؟ ایسے گھٹن کے ماحول میں ’’مایوس نہیں ہونا‘‘کی تکرار بھی کسی چیلنج سے کم نہیں، پاکستان کی ریاستی تجربہ گاہ میں ہر قسم کے تجربات ہو گئے۔ ہمارے سائنسدانوں نے نامساعد حالات میں ایٹم بم اور میزائل ٹیکنالوجی میں کارنامے انجام دیئے لیکن ریاست چلانے کے لیے کوئی مثبت راستہ تلاش اس لیے نہیں کیا جا سکا کہ یہ معاملہ عوام سے زیادہ اشرافیہ اور صاحب اختیار طبقے کا ہے۔ حقیقی عوام تو اس سے کوسوں دور ہے۔ پھر بھی مشورہ دیا جاتا ہے کہ ’’مایوس نہیں ہونا، نظام بدلے گا‘‘۔ ایئر مارشل اصغر خاں کی حب الوطنی شک و شبہات سے بالاتر ہے ۔ انہوں نے تحریک استقلال جیسی سیاسی جماعت بنا کر نعرہ لگایا ’’چہرے نہیں، نظام بدلو‘‘ کسی نے کان نہیں دھرے۔ اس لیے کہ سیاسی رہنمائوں کے مفادات مصلحت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے، وہ مرتے مرتے مر گئے نظام نہیں بدل سکا کہ عوامی فلاح کی کوئی راہ نکلتی، ان کے صاحبزادے عمر اصغر خاں بھی اپنے والد محترم کی تقلید میں نظام بدلنے کے خواہشمند تھے۔ زبردستی کے صدر پرویز مشرف کے دور میں وفاقی وزیر بن گئے۔ انہوں نے چودھری دانیال عزیز کی مشاورت سے شب و روز محنت کر کے بلدیاتی نظام کے اصول وضع کئے ان کا خیال بھی یہی تھا کہ اگر جمہوری نظام سے ملک و قوم کی تقدیر بدلتی ہے تو بنیاد عوامی نمائندگی سے ڈالی جائے۔ نتائج حاصل کرلے گی۔ لیکن سب نے دیکھا نظام بدلنے کے خواہشمند عمر اصغر خان ایک صبح پنکھے سے لٹکے پائے گئے۔ انہیںکس نے کس جرم میں مار دیا کوئی نہیں جانتا۔ ایئر مارشل اصغر خان بھی کچھ نہیں کر سکے اور کیس داخل دفتر ہو گیا۔ ایسے میں ہر پاکستانی کا مایوس ہونا بنتا ہے کیونکہ تجربہ گاہ کے تمام تجربات ناکام ہو گئے۔ریاست مدینہ کے دعویدار بھی احتساب کا نعرہ لگانے کے باوجود چور، ڈاکو اور لیٹروں سے کچھ نکلوا نہیں سکے کیونکہ شواہد پکے نہیں کچے تھے۔ اب ’’ری جیم چینج‘‘ ہو گئی لہٰذا اب تواحتساب کے دعویداروں کی باری آ گئی، روز مقدمات بنائےجا رہے ہیں،روز ضمانتیں اور ریلیف مل رہا ہے۔ اگر سچ مچ نظام بدلنے کے چانس ہیں تو حقیقی انصاف کے ساتھ ’’سزا و جزا‘‘ کے سلسلے میں افغانستان کے طالبان یا دوسرے ہمسائے ایران سے مدد لینی پڑے گی ورنہ مایوسی ہی مایوسی کا سامنا ہے۔ اس لیے کہ حالات و واقعات ہی نہیں، سنگین سانحات بھی رونما ہو جائیں ، نہ ہم نے کچھ سیکھنا ہے اور نہ نظام بدل سکتا ہے۔ لہٰذا مایوسی نجات کے لیے کوئی نیا تجربہ کسی وکھری ٹائپ میں کرنا ہو گا ورنہ ’’مایوس نہیں ہونا‘‘ کہنا بھی مذاق ہی لگے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button