ColumnKashif Bashir Khan

یہ سلسلہ پرانا ہے! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

وفاقی کابینہ کی اکثریت پر مختلف مقدمات درج ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق وزیر اعظم سمیت قریباً 60 فیصد اراکین کابینہ ضمانتوں پر رہا اور مختلف کیسوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم وسابق وزیر اعلیٰ پنجاب منی لانڈرنگ کیسیز میں عدالتوں میں پیش بھی ہو رہے ہیںلیکن یہ سلسلہ نیا نہیں کیونکہ 1993میں جب نواز شریف کی مرکزی حکومت کرپشن کی الزامات کے تحت غلام اسحاق خان نے برخاست کی توآصف علی زرداری کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار تھے۔نواز شریف کی حکومت ختم ہوتے ہی آصف علی زرداری کو نہ صرف فوری طور پر جیل سے رہا کیا گیا تھا بلکہ غلام اسحاق خان نے نگران حکومت میں انہیں وفاقی وزیر انوسٹمنٹ لگا دیا تھا، جس سیاست کا تسلسل آج بھی چل رہا ہے اور جس سیاست کے کھلاڑی آج اپنی زندگیوں کی آخری سیاسی اننگز کھیل رہے ہیں، اس کے مرکزی کرداروں کا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کے خلاف یہ پہلا ایسا وار تھا کہ جس میں کرپشن کے الزامات والے کسی بھی سیاست دان کو جیل سے نکال کر سیدھا وفاقی وزیر بنا کر عدلیہ اور اداروں کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ 1997میں بھی عدالتوں میں کیسوں کا سامنا کرنے والے شریف خاندان کو یکدم دو تہائی اکثریت دلا کر مرکز اور پنجاب وغیرہ میں اقتدار دلا کر مسند پر بٹھا دیا گیا تھا۔پاکستان کے عوام نے تو وہ کچھ بھی دیکھا کہ جس کا تصور کسی بھی مہذب ملک میں نہیں کیا جا سکتا۔میری مراد محترمہ بھٹو کی راولپنڈی میں المناک موت کے بعد ان کی ایک ایسی وصیت سامنے لائی گئی جس کا آصف علی زرداری کے علاؤہ کسی کو علم ہی نہیں تھا۔
محترمہ ناہید خان اور ان کے شوہر صفدر عباسی محترمہ بینظیر بھٹو کے بہت قریب تھے اور ناہید خان تو 2007 میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ دبئی سے کراچی آئی تھیں اور میرے ساتھ متعدد ٹی وی پروگراموں میں انکشاف کر چکیں کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو 2007 میں دبئی سے وطن واپس آ رہی تھیں تو ان کی اور آصف علی زرداری میں علیحدگی ہو گئی تھی اور محترمہ بینظیر بھٹو اس کا اعلان کرنا چاہتی تھیں۔ناہید خان کے بقول محترمہ بینظیر بھٹو چاہتی تھیں کہ اب جبکہ وہ سالوں کی جلاوطنی کے بعدپاکستان واپس جارہی ہیں تو وہ ایسا کوئی سامان جو ماضی میں ان کی بدنامی کا باعث بناہواپنی ذات کے ساتھ نہیں رکھنا چاہتی تھیں،لیکن ان کی وطن واپسی کے موقع پر دبئی کے حکمران نے انہیں مشورہ دیا کہ بی بی چونکہ آپ پاکستان الیکشن لڑنے جا رہی ہیں اس لیے اپنی اور آصف علی زرداری کی علیحدگی کا اعلان موخر کردیں۔اس طرح محترمہ بینظیر بھٹو اکتوبر 2007 میں پاکستان آ گئیں اور آصف علی زرداری کو امریکہ بھیج دیا گیا۔اس کے بعد محترمہ کی موت اور پھر ان کی وصیت کا سامنے آنا اور پھر آصف علی زرداری کا صدر پاکستان بننا بھی چشم فلک نے دیکھا۔ویسے ناہید خان آج بھی مصر ہیں کہ وہ وصیت جعلی طور پر تیار کی گئی تھی اور محترمہ بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری میں علیحدگی ہو چکی تھی۔خیر 2008 کے انتخابات بھی لڑے گئے اور بھٹو کی سیاسی جماعت کے نئے وارث بھی ایک وصیت کے ذریعے سامنے آ گئے۔پھر سب نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے تما م امور رحمان ملک نامی سابق بیوروکریٹ کے ذریعے چلائے جانے لگے۔
2010میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک بدعنوانی کیس کا فیصلہ آیا جس میں اس وقت کےوزیر داخلہ رحمان ملک کو جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی۔ تین سال کی قید کی سزا لاہور کی احتساب عدالت نے سنائی تھی جس کی توثیق اس وقت کے لاہور ہائی کورٹ کے بنچ نے کی تھی جس کے بعد سزا یافتہ ہونے کی بنا پر رحمان ملک بطور پارلیمنٹ ممبر نااہل ہو گئے۔ظاہر ہے کہ وزیر باتدبیراور پی پی پی حکومت کے کرتا دھرتاہی نااہل ہو جائیں تو حکومت چلنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔اس لیے اسی شام صدارتی محل میں سب بڑے سر جوڑ کر بیٹھے اور مسئلے کا حل نکالا گیا کہ اگر رحمان ملک نہ ہوئے تو کاروبار حکومت چل ہی نہیں سکے گا اس لیے صدر زرداری نے فوری طور پر اپنا معاف کرنے کا اختیار استعمال کر کے وزیر داخلہ کی سزا معاف کر کے سزا ختم کر دی اور حل نکالا گیا کہ چونکہ رحمان ملک کے بغیر ریاستی امور کاروبار چلانا نا ممکن تھا اس لیے وزارت داخلہ کا قلمدان ان کے پاس ہی رہے گا۔عدالت وزیر داخلہ کو سزا سنا چکی تھی اورصدر مملکت نے ان کی سزا خصوصی اختیارات کا استعمال کر کے ختم کر دی تھی لیکن صدر مملکت جرم تو ختم نہیں کر سکتے تھے اس لیے وزیر داخلہ مجرم اور سزا وار تو تھے۔ 2007میں جب پرویز مشرف سے ڈیل کرنے کا وقت آیا تو پی پی پی نے امین فہیم کی جگہ رحمان ملک کو فرنٹ پر لانے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ مشرف کے لیے قابل قبول تھے۔دبئی میں مشرف کے ساتھ تمام میٹنگز کا اہتمام
رحمان ملک نے ہی کیا تھا اوراین آر اوسمیت تمام معاملات رحمان ملک نے ہی پایہ تکمیل تک پہنچائے تھے۔دراصل رحمان ملک ہی وہ شخصیت تھی جس نے متحدہ کے الطاف حسین کا برطانیہ میںرہنے کا بندوبست کیا تھا ۔اس دور بھی جب متحدہ حکومت کو بلیک میل کرتی تھی تو رحمان ملک ہی حکومت اور متحدہ کے درمیان سمجھوتہ کرواتے تھے۔اصل میں ملک میں وفاق کی سطح پر جو بھی خرابیاں ہو رہی تھیں ان کے پیچھے رحمان ملک ‘ہی ہوا کرتے تھے۔رحمان ملک نے بطورآئی اوکے ایف آئی اے میں نوکری شروع کی تھی اور27سال کے عرصہ میں ہی ایڈیشنل ڈی جی تک جا پہنچے اور نواز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کیس بنانے والے بھی رحمان ملک ہی تھے۔گو کہ یہ کیس حقیقت پر مبنی تھے اور اسحاق ڈار اس کا اعتراف بھی کر چکے ہیں اورDaily Observer نے 27دسمبر 1998کو اس کی تمام تفصیلات بھی شائع کی تھیں جو کہ کالم کی جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے لکھی نہیں جا سکتیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ رحمان ملک کے بطور ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے ہونے کی وجہ سے اس کیس کا کوئی نتیجہ بھی نہیں نکالا جا سکا تھا ۔
2010سے 2012تک رحمان ملک کا معاملہ ٹھیک ہی چل رہا تھا کہ فرح اصفہانی کیس کا فیصلہ آ گیا چونکہ فرح اصفہانی دوہری شہریت کی مالک تھیں اس لیے سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کی نیشنل اسمبلی کی رکنیت منسوخ کر دی۔آئین پاکستان صاف کہتا ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والا شخص یا خاتون ممبران پارلیمنٹ نہیں بن سکتا۔رحمان ملک کو دوہری شہریت کے تناظر میں سینیٹ کی سیٹ سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے فارغ کر دیا تھا۔اس طرح سے وہ فوری طور پر پھروزیر داخلہ نہ رہے لیکن اس بات کا اہتمام فوری طور پر کیا گیا تھاکہ ان کو مشیر داخلہ بنا دیا جائے ورنہ ملک کا نظام الٹ پلٹ ہوجاتا۔رحمان ملک کو فوری طور پر مشیر داخلہ بنا دیا گیا تھا۔وزیر ہو یا مشیر،کام تو ایک ہی تھا۔جب وزیر ہی نہیں ہو گا تو مشیر ہی وزیر کے اختیارات اور پروٹوکول استعمال کرے گا۔ایک ایسی جماعت جو چاروں صوبوں کی زنجیر سمجھی جاتی تھی اور اس نے ماضی میں ہمیشہ آئین کی پاسداری اور جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہوئی تھیں بلکہ اس سیاسی جماعت کا بانی اس وقت کے سپریم کورٹ کے غلط فیصلے پر پھانسی چڑھ گیا تھا کاایک وصیت کے باعث پارٹی چیئرمین بننے والا چندمخصوص عناصر کےلیئے سپریم کورٹ کے فیصلوں سے انحراف کیوں کر رہا تھا۔ایسا ماضی ہے ہمارے حکمرانوں کا کہ قانون اور آئین کو موم کی ناک بنا کر صدر مملکت کے بڑے آئینی عہدے کو بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی سیاست دان کے خلاف کسی بھی نوعیت کے کیسز ہوں ،بدقسمتی سے جمہور کو صرف تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان کی ضمانتیں اور ملک سے باہر جانا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔اب تو ایسا لگتا ہے کہ ملکی قوانین اور سزائیں بھی عام جمہور کا ہی مقدر ہیں اور ان طاقتور گروہوں کا کام صرف اور صرف جمہور،اداروں، عدالتوں اور قوانین کا مذاق اڑانا ہے۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ان طاقتور گروہوں کے افراد اگر کسی پریشر کی وجہ سے جیلوں میں بھی چلے جائیں تو وہاں بھی ان کو وہ وہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جن کا تصور بھی ایک عام شخص کے لیے محال ہے۔آج پاکستان نہایت مشکل ترین معاشی اور سیاسی حالات میں پھنسا ہوا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ملک کو اس گرداب میں پھنسانے والے ہی آج پھر اس کی کشتی پار کرنے کے دعوے کر رہئے ہیں۔عوام کو اب سمجھ جانا چاہیے کہ یہ سلسلہ پرانا ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button