Columnمحمد مبشر انوار

ماہرانہ کارروائی .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

حالات و واقعات ایک تسلسل کے ساتھ حکومت گرانے کا عمل ثابت کر رہے ہیں،ملکی سیاسی ومعاشی صورتحال تنزلی کا شکارہے اور وفاقی حکومت کو اس حقیقت کا بخوبی احساس تھا اور ہے کہ جب تک پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت رہے گی وفاق میں اتحادی حکومت بھی چلتی رہے گی،یہی وجہ ہے کہ عدالتوں میں دوست مزاری کی رولنگ پر فل کورٹ کا مؤقف اپنایا گیا اور بصورت دیگر عدالتی بائیکاٹ کی دھمکی دی گئی اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر کے یہ ثابت کیا گیا کہ چونکہ ہم نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہے لہٰذا ہمیں عدالتی فیصلہ منظور نہیں،جس کے دو ممکنہ نتائج یا فوائد اتحادی حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ حمزہ شہباز کی حکومت سیاسی شہادت کادرجہ حاصل کرے اور دوسرا یہ کہ اداروں کے خلاف جانبداری کا الزام عائد کر کے رائے عامہ کو اُکسایا جائے۔ بہرصورت ہر دو صورتوں میں نقصان ریاست پاکستان کانظر ہوگا کہ اس وقت جس سیاسی بصیرت و دانشمندی کی ضرورت ہے وہ فریقین میں نظر نہیں آتی اور بادی النظر میں فریقین ایک ہی طاقت کے زیر اثر دکھائی دیتے ہیں اور طرفہ تماشہ یہ کہ اسی طاقت سے آزادی کے خواہشمند بھی نظر آتے ہیں لیکن یہ آزادی اس وقت یاد آتی ہے جب طاقت کا توازن دوسرے فریق کے پلڑے میں جا گرتا ہے۔ نجانے کیوں سیاسی اشرافیہ کو یہ ادراک نہیں ہوتا کہ اگر تیسرے فریق سے آزادی چاہیے تو ساری سیاسی اشرافیہ کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہو گا ایسا ممکن نہیں کہ جب تک دست شفقت ایک کے سر پر رہے،وہ گن گاتا رہے اور جیسے ہی حمایت کھونے لگے ،دہائی مچانی شروع کر دے۔دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ہر دوسرا سیاسی حریف اس انتظار میں ہے کہ کب اسے خدمت کا موقع ملے،کب اس کا نام پکارا جائے اورکب وہ سرتاپا جی حضوری کرتے ہوئے تیسرے فریق کی منشاء کے مطابق خدمات فراہم کر کے اقتدار کا ہما سر پر سجائے۔

مقام حیرت ہے کہ ہم جیسے عام افراد اس حقیقت کو سمجھ رہے ہیں لیکن نجانے ایسی کیا مجبوریاں ہیں ،کیا راز ہیں کہ سیاسی اشرافیہ گمان ہے،کہ اس حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے بھی سر تسلیم خم کرتے نظر آتے ہیں،کم از کم میری عقل اس کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ صرف اقتدار کی شرط پر سیاسی اشرافیہ گھٹنوں کے بل ہو جائے۔ بہرکیف درپردہ کیا راز پنہاں ہیں،کیا مجبوریاں ہیں ،کچھ نہ کچھ تو ہے کہ جس کی بنا پر سیاسی اشرافیہ یوں مجبور و بے بس نظر آتی ہے۔

حمزہ شہباز حکومت کے متعلق عدالتی فیصلے کے بعد غیر متوقع طور پر اگر فوری اسمبلیاں توڑنے کا لائحہ عمل اپنایا جاتا ہے تویہ اعزاز چودھری پرویز الٰہی کے حصہ میں آئے گا لیکن چودھری پرویز الٰہی کو متنازعہ وزیراعلیٰ بہرطور نہیں لکھا جائیگا۔حکومتی تبدیلی کے عمل میں بنیادی کردار مہنگائی اور ڈوبتی ہوئی معیشت کا رہا ہے اور بزعم خود موجودہ حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ ملکی معیشت کو بحران سے نکالنے کی مہارت رکھتی ہے ،اس کے پاس ایسے منصوبہ جات ہیں کہ وہ فوری طور پر معیشت کو سنبھال سکتی ہے لیکن افسوس کہ معیشت کو جتنا نقصان گذشتہ تین چار ماہ میں ہوا ہے،اس کی نظیر ملکی تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔مہنگائی کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے،تیل کی مصنوعات پر جس شرح سے اضافہ ہوا ہے،اس نے غریب عوام سے دو وقت کی روٹی چھین لی ہے،سٹاک مارکیٹ جس مندی کا شکار ہے وہ معیشت اور معاشی پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، روپے کی قیمت میں کمی اس حکومت کی نا اہلی کا بین ثبوت ہے۔ نجانے کس برتے پر یہ حکومت معاشی مہارت کا دعویٰ کرتی تھی،دوسری طرف گمراہ کن حقائق کے ساتھ عوام کو بیوقوف بنانے کی کوششیں بھی جاری ہیں کہ یہ سب عمران خان کا کیا دھرا ہے جو عمران حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا ہے،اس کی وجہ سے موجودہ حکومت کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں۔ سب گمراہ کن پراپیگنڈہ ہے کہ عمران حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ ، ایسی شرائط کے باعث ،معاہدہ میں تاخیر کی تھی اور ان کی کوشش یہ تھی کہ کسی طرح ملکی معیشت بہتر ہو جائے تا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط میں نرمی پیدا کی جا سکے۔ جبکہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کی تمام تر شرائط، قبل از معاہدہ،تسلیم کرنے کے باوجود معاہدے پر دستخط نہیں کر پائی لیکن سخت فیصلے کرتے ہوئے ملکی معیشت کا ستیاناس کر چکی ہے۔

موجودہ حکومت اور اس کے اکابرین مسلسل طعنہ زن رہے کہ عمران خان سے سوائے گھر کے اثاثہ جات چوری؍بیچنے کے کیا توقع کی جا سکتی ہے اور عمران حکومت یہ کام کر رہی ہے لیکن یہاں ایک اور حقیقت واضح کرنا ضروری ہے کہ نااہل بھی گھر کے اثاثے اونے پونے بیچنے یا گروی رکھنے سے باز نہیں آتااور قرض کی مے پر عیاشی کرتا پھرتا ہے۔ اہل شخصیات یا حکومتیں اثاثوں کو بیچنے یا گروی رکھنے کی بجائے کوشش کرتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنے ذرائع آمدن کو بڑھایا جائے اور ساہو کار سے اپنے اثاثوں کو چھڑوایا جا سکے جبکہ دوسری طرف ساہوکار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ایسے شخص یا حکومت سے چھٹکارا حاصل کرکے ناہلوں کو فیصلہ سازی کیلئے سامنے لایا جائے تا کہ ان ساہوکاروں کے مذموم مقاصد کی تکمیل ہو سکے۔

اغیار کی نظریں وطن عزیز کے بیش قیمت اثاثوں پر گڑی ہیں اور وہ عرصہ دراز سے کوششوں میں ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کے ان اثاثوں کو اونے پونے حاصل کیا جا سکے،ا س کیلئے نااہل حکمرانوں یا فیصلہ سازوں کی ضرورت ہے،جو پوری ہو چکی ہے۔اس حکومت نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلا کام اپنے پیسوں کو تحفظ دینے کا کیا،نیب کے پر کاٹے جا چکے گو کہ وہ عدالت عظمیٰ کے سامنے زیر سماعت ہے اور قوی امید ہے کہ اس کو ماورائے آئین قرار دیا جائے گاکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی جرم پر سزا کو کالعدم قرار دے دیا جائے یا ایک مخصوص گروہ کو فائدہ پہنچانے کی خاطر قوانین کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے۔اب مہارت کا ایک اور ثبوت سامنے آیا ہے کہ جس میں موجودہ حکومت ایک ایسا آرڈیننس جاری کر چکی ہے کہ جس کی بدولت اسے یہ اختیار حاصل ہوا ہے کہ وہ جیسے چاہے ،قواعد و ضوابط کو پس پشت ڈال کر،قومی اثاثوں کی نیلامی کرے،جسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ شنید یہ ہے کہ منافع بخش اداروں کے دس فیصد شیئرز یو اے ای کو فروخت کئے جائیں گے اور اس فروخت کو کسی بھی سطح پر کوئی چیلنج نہیں کر سکے گا۔ اہلیت کا یہ معیار ہے کہ شفافیت کو قائم رکھنا دوبھر ہو رہا ہے اور گمان یہی ہے کہ حسب سابق قومی اثاثوں کے یہ دس فیصد شیئرز بھی فرنٹ مینوں کے ذریعے خود خریدے جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button