ColumnNasir Sherazi

نئے جال لائے گئے ہیں .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

سید کا لکھارب نے سچ کردکھایا، کمال وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کاہے جنہوں نے دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا مانگی، قبول ہوئی اوروزیراعلیٰ حمزہ شہبازچند روز بعد سابق وزیراعلیٰ ہوگئے، ان کے ساتھ ہی چالیس رکنی صوبائی کابینہ بھی تحلیل ہوئی، انتالیس وزرا، دو روز وزیر رہے، ان میں کچھ نئے کچھ پرانے تھے، دو وزرا ء نے دیگر تمام وزراء کے بعد حلف اٹھایا یوں وہ چند گھنٹے وزیر رہے، ان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ گھنٹے کے وزیرتھے، قارئین سے درخواست ہے کہ کالم کی اس سطر کو پنجابی میں ترجمہ کرکے سمجھنے کی کوشش نہ کریں، اردو کو اردو میں ہی پڑھیں، سب سے زیادہ فائدے میں سیدہ تہنیت المعروف جگنو محسن رہیں، حمزہ شہباز نے انہیں فون کرکے بتایا کہ انکا نام وزرا کی فہرست میں شامل ہے، مگر وہ نہ آئیں، ان کا جواب آیا کہ اپنے والد کی رحلت کے بعد ابھی حالت سوگ میں ہیں، یوں وہ سابق وزیر ہونے سے محفوظ رہیں، انہوں نے دو ٹکیا کی نوکری کیلئے سوگ ختم نہ کرکے عزت سادات بچالی ہے۔

گورنر پنجاب جناب بلیغ الرحمن نے اعلیٰ عدلیہ کے حکم کے باوجود گورنرہائوس کے دروازوں پر قفل چڑھائے رکھے اور نئے وزیراعلیٰ سے حلف نہ لے کر کچھ اچھا نہیںکیا، بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے وہ چودھری پرویز الٰہی کی قوت ِ دعا سے حائف نہیں حالانکہ مقام فکر ہے، جس کی دعا سے اچھابھلا طاقت ور وزیراعلیٰ اور اس کی چالیس رکنی کابینہ پھڑک گئی، اس کے سامنے یک وتنہا گورنر کیا ہے، چودھری پرویز الٰہی فقط پھونکوں سے اُس کا چراغ بجھاسکتے ہیں، کچھ عجب نہیںوزیراعلیٰ ہائوس کے بعد گورنر ہائوس بھی تبدیلی کی زد میں آجائے اور سابق گورنر عمرچیمہ حاضر سروس گورنر بن جائیں، سیاست دانوں اور بالخصوص ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور چودھری پرویز الٰہی سے بیر نہ رکھنا چاہیے، پی ڈی ایم ارکان صوبائی اسمبلی کیلئے ضروری ہے کہ وہ جس طرح حمزہ شہباز کو خوش رکھنے کے جتن کررہے تھے اسی طرح اب قاف لیگ کے وزیراعلیٰ کو خوش رکھیں۔

کھیل کا ابھی ایک اور رائونڈ باقی ہے، چودھری شجاعت حسین پارٹی سربراہ کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی گروپ کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی کاکیس بناکر انہیں پارٹی سے کب نکالتے ہیں، پھر اس کے بعد کی صورتحال کیا ہوگی یا چودھری پرویز الٰہی گروپ کے ممبران صوبائی اسمبلی اپنے پارٹی سربراہ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد لاکر انہیں عہدے
سے ہٹانے میںکامیاب ہوتے ہیں، شجاعت کامیاب رہے تو پھر پرویز الٰہی نئی پارٹی بنائیں گے یا تحریک انصاف میںشامل ہوں گے، اس عدم اعتمادکے بعد اُن کی پارٹی میںعددی حیثیت تبدیل تو نہ ہوجائے گی، اس تبدیلی کیبعد کہیں وزیراعلیٰ پنجاب ایک مرتبہ پھر تبدیل تو نہ ہوجائے گا، سوالوںکی سنچری ہے جس کے جواب آئندہ ایک ماہ میں سامنے آئیں گے۔

انصاف میڈیا سیل مخالف سیاست دانوں کو آڑے ہاتھوں لینے سے نہیں چوکتا، حمزہ شہباز کی رخصتی کے بعد سوشل میڈیا پردیکھا ایک خاتون ذرق برق ساڑھی زیب تن کئے مکمل ہار سنگھار کے ساتھ کھڑی ہے لیکن چہرہ اس کا نہیں سابق وزیراعلیٰ پنجاب کا ہے ، کیپشن لکھا ہے،یہ دلہن ہمیشہ ولیمے سے پہلے ہی بیوہ ہوجاتی ہے، اسی طرح ایک اور جگہ مرغی کے بال و پر نوچ کر اس کی چونچ کی جگہ ، ان کا چہرہ لگاکر کہاگیا ہے کہ اس کے پلے اب کچھ نہیں، یہ سب بہت بری باتیں ہیں، دانشور میڈیائی ہوں یا سوشل میڈیائی یہ سب انہیں زیب نہیں دیتا، تمام سیاست دانوںکو چاہیے کہ وہ دل بڑا رکھیں اس قسم کی باتوں کاہرگزجواب نہ دیں نہ ہی اس طرح کا کوئی گھٹیا جوابی حملہ کریں بلکہ سب کچھ آنکھوں سے دیکھیں اور سمجھیں کہ کچھ نہیں دیکھا، سب کچھ اپنے کانوں سے سنیں اور ظاہر کریں کہ کچھ نہیں سنا۔ اس معاملے میں خواتین سے سبق
حاصل کرنا چاہیے، سننے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دو کان اور ان میں دوسوراخ دیئے ہیں لیکن خواتین اپنی تسکین کیلئے کانوں میں درجن بھر سوراخ خود کرواتی ہیں مگر سنتی اتنا ہی ہیں جتنا وہ ضروری سمجھتی ہیں، بیشتر باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی ہیں، ان کی لمبی عمر اور اچھی صحت کاراز بھی یہی ہے، وہ ہر بات دل کو نہیں لگاتیں، نہ اُسے روگ بناتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی موت ہارٹ اٹیک سے بہت کم ہوتی ہے،انہیں متبادل ذرائع استعمال کرنا پڑتے ہیں، دیہی خواتین اور چوہے مار گولیوں کا ساتھ بہت پراناہے جبکہ پڑھی لکھی اور شہری خواتین چھت کے پنکھے سے بہت محبت کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ کمرے میں اے سی لگوانے کے ساتھ چھت کا پنکھا ضرورلگواتی ہیںاور بیڈ پر لیٹ کر کچھ نہ ہو تو چھت کے پنکھے کو گھنٹوں دیکھتی رہتی ہیں، خاموشی کی زبان میں پنکھے کو پیغام دیتی ہیں کہ میں عمر بھر جو کچھ کرتی رہوں میری آخری محبت تم ہی ہو، چھت کے پنکھے کا بھی کمال حوصلہ ہے،

برس ھا برس بہت کچھ دیکھتا ہے مگر خاموش رہتا ہے، بہت زیادہ گرمی حالات سے تنگ آجائے تو کبھی کبھار کچھ دیرکیلئے گھوںگھوں کرتا ہے پھر رفتار حاصل کرنے کے بعد خاموش ہوجاتا ہے،چھت کا پنکھا کتناوفادار ہے اس کی وفا کو آج تک کوئی نہیں سمجھا، کسی نے اس پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی، گزشتہ کئی برسوں میں ایک بھی ایسا کیس سامنے نہیں آیا کہ کسی نے زندگی ختم کرنے کیلئے اس کے ساتھ لٹکنے کا فیصلہ کیا ہو اور وہ زندہ بچا ہو۔ چھت کا پنکھا یہ بھی نہیں دیکھتا کہ گلے میںڈالی گئی رسی چھوٹی ہے یا لمبی، وہ اپنا فرض پورا کردیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا سے رخصت ہونے کا فیصلہ کرنے والے بجلی پر بھروسہ نہیں کرتے،بجلی کے پنکھے پر اندھا اعتمادکرتے ہیں، بجلی جانے کب ہو کب چلی جائے، جائے تو پھرکب آئے لہٰذا بجلی کے انتظار میں بیٹھنا وقت ضائع ہی کرناہے۔
دنیا بھر میں پاکستانی روپئے کی تاریخی بے عزتی کے بعد دور دورتک اس کی عزت افزائی کے آثار نظر نہیں آرہے، ہوشربا مہنگائی نے نئے ریکارڈ قائم کردیئے ہیں جن میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ، کبھی ان حالات میں نئی حکومت یا نیا وزیر خزانہ امیدوں کا مرکز ہواکرتا تھا،اب حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ ہر چوتھے شخص کی آخری امید چھت کے پنکھے سے وابستہ ہے،کاروباری طبقے کا ابھی اِدھردھیان نہیں گیا،کسی بھی لمحے ان کی قیمتوں میںاضافہ ہوسکتا ہے، شدید گرمی اور حبس کا سیزن ختم ہونے کے بعد ان کیلئے ایک نیا سیزن شروع ہوجائےگایعنی موت کا سیزن، جو اس کاروبار سے وابستہ افراد کو مالا مال کردے گا۔

سیلاب کا سیزن آدھے پاکستان کے دروازے پر دستک دے چکا ہے اور محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں ایک ہزار کے قریب افراد ڈوب کر یا چھتیں دیواریں گرنے سے زندگی کی بازی ہار گئے ہیں، بہہ جانے والے مویشیوںکی تعداد اِس سے پانچ گنا ہے، فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، اجناس کے نام پر لوٹ مار کرنے والوں کا سیزن بھی سرپر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button