Columnعبدالرشید مرزا

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی .. عبدالرشید مرزا

عبدالرشید مرزا

 

انسان کی کامیابی کا معیار دنیا میں ایسی زندگی گزار کر جانا ہے جس میں تقویٰ، اللہ اور اس کے پیارے محمد رسول ﷺ سے تعلق کامیابی کا زینہ ہوتا ہے اور پھر وہ جب وہ عمل میں بدلتا ہے تو ایک خوبصورت معاشرہ وجود میں آتا ہے اور ایسے لوگ جب ایک صالح اجتماعیت کا حصہ بنتے ہیں پھر ایک صالح قیادت نکھر کر سامنے آتی ہے جہاں حاکمیت الٰہی کا قیام وجود میں آتا ہے، جہاں اسلامی اقدار کے اندر عبادات، سیاست، معیشت، معاشرت، عدل و انصاف وجود میں آتی ہے اس کو علامہ اقبال نے بال جبریل کی مشہور نظم کے پہلے مصرع میں وہ افراد جو غلبہ دین کی جدوجہد میں مصروف ہیں ان کی کامیابی کا پیمانہ طے کردیا ہے یہی روش انبیا، صحابہ اور تابعین کی تھی۔ اس روش نے یوسف علیہ السلام کو قیادت کے منصب پر فائز کیا اور جب مسلم امہ نے اس راستے کو ترک کیا تو مغلوب ہوگئی، عشق کا تعلق جدوجہد اور کوشش سے ہے جس کے ہم متقاضی ہیں عشق غازی علم دین، ممتاز قادری، مولانا مطیع الرحمان نظامی،امام حسن البناء، سید قطب، شاہ اسماعیل، سید احمد شہید اور ڈاکٹر نذیر کو شہادت کے رتبے پر فائز کرتا ہے۔

آج امت مسلمہ غلامی میں ڈوبی ہوئی ہے، غلاموں پر شہنشاہی کے اسرار و رموز کے انکشاف کی شرط کو کامیابی سے منسوب کیا ہے کہ عشق سے آداب خود آگاہی سیکھے جائیں یعنی آداب خود آگاہی کے ادراک کے لیے پہلے مکتب عشق میں داخلہ ضروری ہے۔عشق اور آداب خود آگاہی پر بات کرنے سے پہلے اس منتہائے مقصود کا ذکر ضروری ہے، جہاں انسان پہنچنا چاہتا ہے ۔ انسان کا ایک منبع، مصدر اور اصل ہے جس سے وہ پیدا ہوا، اپنی اصل کی طرف واپس لوٹنا ہر شئے کی فطرت ہے۔
خالق کائنات کی مرضی ہوئی کہ اس کو پہچانا جائے تو اس نے انسان اور کائنات کو پیدا کیا ۔ گویا یہی مقصد تخلیق انسان اور تخلیق کائنات تھا،اس حدیث قدسی سے انسان کی پیدائش کا مقصد واضح ہو جاتا ہے لیکن اس سے بھی عظیم تر مقصد تخلیق ایک اور حدیث قدسی میں مزید نکھر کر سامنے آتا ہے، اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے کہ ’’اے نبی ﷺاگر میں آپ کو پیدا نہ کرتا تو اس کائنات کو بھی پیدا نہ کرتا۔

دونوں احادیث قدسی پر غور کیا جائے تو ان میں مطابقت یوں نظر آتی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی پہچان کے لیے آپ ﷺ کو پیدا فرمایا اور پھر اپنی پہلی مخلوق کی معرفت، پہچان اور منوانے کے لیے کائنات اور ساری مخلوقات کو پیدا فرمایا، گویا حضور نبی اکرم ﷺ پروردگار عالم جل شانہ کی مراد ہیں حضرت ارباض بن ساریہ سے حدیث مذکور ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ کے ہاں اس وقت سے خاتم النبیینﷺمقرر ہوں جب آدم علیہ السلام اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے۔ تخلیق آدم علیہ السلام کے بعد ان کے اندر اپنے خالق کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تو ہاتف غیبی سے آواز آئی۔آدم ! جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

چنانچہ اس وقت سے ہر انسان بساط بھر خود آگاہی کی جستجو میں ہے، فقط تعمیل حکم ربانی کا فریضہ نبھانا تھا، انسان کے نفس کو گوناگوں جذبوں کی طاقت دی گئی، پھر اسے عقل، فکر دے کر محبت اور عشق کی قوت اور توانائی دی گئی۔ دنیائے ارضی میں اس کی عمر بہت کم اور حکومت الہیہ کی نیابت کا کام بہت زیادہ تھا، اسی لیے اسے احسن تقویم بنایااور تمام مخلوقات پر مسخر کیا۔

حضرت آدم علیہ السلام اپنی اولاد کے لیے نمونہ کمال تھے، ان کی پیروی میں انسانوں کا یہ طبقہ مردان خود آگاہ پر مشتمل تھا۔ انسان کو ارادہ اور عمل کے اختیار کے ساتھ پیدا کیاگیا تھا، لہٰذا فطرت بالفعل، شعور اور لا شعور کے لوازمات اور تقاضوں کے تحت شہوانی خواہشات، نفسانی داعیات، اولاد اور خونی قرابتوں، مال وزر اور جاہ و منصب کی محبت بھی اس کے نفس میں موجود تھی، وہ لو گ بھی تھے جو الوہی ہدایت اور صراط مستقیم سے بھٹک بھی جاتے تھے۔ انسان بھی مرور زمانہ کے ساتھ بدلتا گیا، انسانی حیات اور ماحولیاتی نظام میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں، اکثر لوگ پیغمبرانہ تعلیم و تربیت اور الوہی ہدایت سے دور ہوتے گئے، کم لوگ الوہی ہدایت کے ماتحت رہے، فطرت بالفعل کے تحت انسانی فکر و عمل کے دائرے وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں نئے مکاتب فکر پیدا ہوتے گئے، ان میں وہ بھی تھے کہ خدا و کائنات، مخلوقات الٰہی اور انسانی تشخص بارے فکر اور عمل کی نئی جہات کے حوالے سے ان کی عقل نارسا نے کچھ ایسے تخیلاتی تصورات بھی قائم کئے، جن سے ہزاروں لاکھوں دیو مالائی کہانیوں نے جنم لیا، ان طلسماتی اساطیر اور قصے کہانیوں کے خالقوں کا زیادہ تر تعلق مصر، یونان، چین اور ہندوستان سے تھا، یہ لوگ الوہی ہدایت اور پیغمبرانہ تعلیم و حکمت سے بے بہرہ محض عقل کے پجاری بن گئے، زمانہ کے ساتھ جیسے جیسے ان مکاتب فکر کا دائرہ اثر بڑھنے لگا ۔

یونانی مفکرین نے تغیرات اور فنا سے محفوظ ذرات کو اشیاء کی اصل قرار دیا، کائنات کی تشکیل کو ایک حادثہ سمجھا جانے لگا، انہوں نے روح انسانی کو بھی مادی ذرات کے مجموعہ سے عبارت سمجھا، مشہور یونانی فلاسفہ اخلاق و روحانیات ہیرا قلیطس، تامسطیوس اور ایرانی اسکندر فردوسی انہی خیالات و نظریات کے پرچارک تھے، انسانوں کے اس طبقہ خیال کے مفکرین اور علماء کانظریہ تھا کہ کائنات مادہ سے بنی ہے لیکن اس تخلیق کے پیچھے کسی نادیدہ ہستی کا ہاتھ بھی ضرور ہے، ان کے ذہن میں خدا اور روح کا ایک موہوم سا تصور تھا۔ فیثا غورث یونانی نے خدا اور روح کو مساوی درجہ دیا، وہ سورج (اپالو) کو خدا مانتا تھا ۔ ارواح بارے وہ عمل تناسخ کا قائل تھا، افلاطون بھی فیثا غورث کے نظریات پر یقین رکھتا تھا، مشہور یونانی مفکر سقراط، افلاطون کا شاگرد تھا، وہ روح کی لافانیت کو مانتا تھا اور مادہ کو ابدی سمجھتا تھا، ارسطو جو ایک مشہور یونانی مفکر تھا، وہ کائنات کو ازلی اور ابدی سمجھتا تھا، اس کا خیال تھا کہ ہوا، پانی، مٹی اور ایتھر سے کائنات کی ہر شئے خود بخود بنتی چلی جاتی ہے، یہ سب مفکرین مادہ، روح اور خدا کو برابر کا درجہ دیتے تھے لیکن خالق کائنات کی توحید اور ربوبیت اعلیٰ سے ناآشنا تھے،اپنے بارے بھی وہ حقیقی خود آگاہی سے تہی دامن رہے، انسانی تخلیق بارے اس حقیقت سے ناآشنا تھے کہ وہ کیسے بنا، اس کا خالق کون ہے؟ اس نے اس دنیا میں آ کر کیا کرنا ہے، کس لیے کرنا ہے، کس کی رضا اور خوشنودی کے لیے کرنا ہے، کیسے اور کس طرح جینا ہے، اس دنیا میں زندگی گزارنے کے بعد اس نے کہاں جانا ہے، کیا اس دنیا کے بعد کوئی حیات ہے یا فقط موت، زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ان کے قلب و ذہن اور لاشعور میں اس نوع کے خیالات و سوالات ہلچل پیدا کر رہے تھے، لیکن مجموعی طور پر انسان بے شعور رہا اور اس وجہ سے مختلف اقسام کے خوف کا شکار ہوا، لیکن چند خوف اس شدید نوعیت کے تھے، جس نے ان کی خودی، خودآگاہی، شعور ذات، شعور نفس، احترام آدمیت اور تکریم انسانیت کے شعور کو پاش پاش کر دیا تھا، ان کے ذہن میں خالق کائنات و ارض و سموات کی خالقیت، حاکمیت اور مالکیت کا تصور نہ تھا، ان میں اپنی شان بندگی، خودی اور احسن تقویم ہونے کا احساس نہ تھا، اس لیے وہ اکثر مخلوقات الٰہی سے، جو اللہ نے اشرف المخلوقات انسان کی خدمت اور فلاح کے لیے مسخر کئے تھے، خود کو کم تر، کم درجہ اور کم رتبہ سمجھا اور ان سے ڈرنے لگا، کبھی اس نے دہکتی آگ، برستے پانی، آندھی، طوفان اور بجلی کو سجدہ کیا اور کبھی سورج، چاند، ستاروں کے آگے سر بسجود ہوا، کبھی پہاڑوں اور پتھروں سے خود تراشیدہ بتوں کے سامنے جبین نیاز جھکائی، انسان عزت نفس کھو چکا تھا اور احساس کمتری کا اس حد تک شکار تھا کہ پوجا کے لیے تبرکاً جانوروں کا پیشاب پینے لگا، انسانی ذہن کی اس حد تک بے حسی اور خودی کی اس درجہ بیخودی سے انسانی فکر کے ایک طبقہ نے خوب فائدہ اٹھایا، اس نے ناخود آگاہ اور خودی سے محروم انسان کے ذہن پر قبضہ کر کے اسے اپنے خدا ہونے کا یقین دلایا۔ اس نے اپنی طاقت اور قوت سے کمزور، بے بس، توہمات کے شکار اور خوف و غم میں مبتلا انسان کو مغلوب کیا۔

اس کے اموال و املاک پر قبضہ کیا اس کو غلام بنایا، یہ فرعون، نمرود، شداد، شہنشاہ، ملوک اور حکمران تھے، کہ جنہوں نے انا ربکم الاعلیٰ کا نعرہ بلند کیا، خود کو خدا سمجھا اور دوسروں سے بزور کہلوایا، انہوں نے مغلوب انسانوں سے کہا کہ انہیں روٹی، کپڑا اور سرچھپانے کے لیے مکان چاہیے تو اپنے سروں کو ان کے سامنے جھکا دے، اگر وہ دنیا میں جینا چاہتے ہیں تو غلام بن کر جئیں، ہر دور کے انسانوں کے مختلف طبقات فکر میں یہ طبقہ سب سے زیادہ ظالم وخونخوار تھا۔ (جاری ہے )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button