ColumnImtiaz Aasi

ریکوڈک فوائد اور آئینی ذمہ داریاں .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

عوام ریکوڈک منصوبے کی کہانیاں سن سن کر تھکے گئے ہیں،یہ منصوبہ 1992 سے جوں کا توں پڑا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو عالمی قوتیں پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتیں اور کچھ یہ منصوبہ محلاتی سازشوں کا شکار بھی رہا ۔کینڈین کمپنی کے چیف ایگزیکٹو بیرک گولڈ نے پاکستان کے دورے کے دوران پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے پر کام شروع ہوتے ہی اس کے فوائد ملنا شروع ہو جائیں گے۔یہ وہی کمپنی ہے جس نے ریکوڈک پر کام کا آغاز کیا تو بلوچستان کے ایک شہری کی درخواست پراس وقت کے چیف جسٹس نے منصوبے پر کام روکنے کا حکم دیا تھا۔ سیاسی حکومتوں اور عدلیہ میں آئین پاکستان عام طور پر زیر بحث رہتا ہے جب کوئی معاملہ درپیش ہو تو آئین کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے۔کسی نے اس بات پر کبھی غور کیا آئین میں تو یہ بھی لکھا ہوا ہے قدرتی معدنیات صوبوں کی ملکیت ہیں۔نئے معاہدے کے تحت یکوڈک کے خزانے کا 50 فیصدکمپنی لے جائیگی،25فیصد وفاق اور 25فیصد بلوچستان کو ملے گا۔بلوچستان کے سیاسی حلقوں کا یہی تو ایک بڑا اعتراض ہے وفاق کو ریکوڈک کے 25 فیصد شیئر کس خوشی میں ملیں گے۔ ماسوائے ہائیڈروکاربن کے قدرتی وسائل صوبے کی ملکیت ہیں تو وفاق کو ریکوڈک کے شیئر دینا آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے؟اتنے سال گذرنے کے بعد بھی ریکوڈک سے سونے اور تانبے کی پیداوار کی 2027 تک متوقع ہے۔ بیرک گولڈ کے مطابق اس منصوبے کے پہلے مرحلے کے طور پر چالیس ملین ٹن سالانہ کے حساب سے دھات کی پراسسنگ کی جائے گی۔بلوچستان کا دوسرا اعتراض ہے کہ کمپنی کو ریکوڈک سے نکلنے والے مواد کی پراسسنگ بیرون ملک کی بجائے بلوچستان میں کرنی چاہیے ۔ بلوچستان کے سیاسی اور عوامی حلقوںکے اس منصوبے پر یہی دو بڑے اعتراضات ہیں۔ یہاں سے نکلنے والے مواد کو بیرون ملک کی بجائے بلوچستان میں پراسس کیا جائے تاکہ مواد سے نکلنے والے سونے اور کاپر کی صحیح مقدار کا علم ہو سکے۔ان حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے بیرون ملک مواد لے جانے کی صورت میںپاکستان کو کیا علم ہو گا مواد سے سونا اور دیگر دھاتوں کی کتنی مقدار نکلی ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا اس سے پہلے ہم ریکوڈک بارے کئی کالم لکھ چکے ہیں۔ ریکوڈک پر کام رکنے کے بعد کمپنی فیصلے کے خلاف عالمی عدالت میں چلی گئی جہاں کمپنی کی پیروی پاکستان کے ایک سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے کی اور پاکستان کی طرف سے برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے اہلیہ چیری بلئیر نے کی۔2015 میں جب ریکوڈک کا کیس انٹرنیشنل کورٹ میںچلا تو پیرس میں بلوچستان حکومت کی طرف سے ہمارے ایک مہربان سنیئربیوروکریٹ احمد بخش لہڑی نے نمائندگی کرتے ہوئے موقف اختیار کیا اس منصوبے کو جان بوجھ کر التواء میں رکھا جا رہا ہے تاکہ دیگر بین الاقوامی کمپنیوں کو فائدہ ہو سکے۔ان کا یہ بیان سن کر کورٹ کے جج ششدر رہ گئے ۔تحریک انصاف کے دور میں کمپنی پاکستان پر عائد جرمانہ کی رقم سے دستبردار ہوگئی تو حکومت نے اسی کمپنی کو دوبارہ اس منصوبے پر کام جاری رکھنے کو کہا لیکن کمپنی نے مستقبل کے خدشات کے پیش نظر اس منصوبے پر کام شروع کرنے سے پہلے پارلیمنٹ سے اس کی منظوری کے ساتھ سپریم کورٹ سے اپنے سابقہ فیصلے پر نظرثانی کرنے کی شرط رکھی ہے۔ضلع چاغی کی تحصیل نوکنڈی میںواقع ریکوڈک کئی سو مربع میل پر پھیلا ہوا جو دنیا کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہے ۔اس منصوبے پر کام مکمل ہو جاتا تو بلوچستان ایسے پسماندہ صوبے کے عوام کے حالت بدل سکتی تھی۔ریکوڈک جیسی جگہ میں بچوں کے لیے نہ تو کوئی سکول ہے اور نہ کوئی کالج ہے یہاں سڑکوں کا بھی فقدان ہے۔دراصل ریکوڈک کے علاوہ چلی، آسٹریلیا اور افریقہ میں سونے اور کاپر کے بہت سے ذخائر پائے جاتے ہیں جن پر بین الااقومی کمپنیاں برسوں سے کام کر رہی ہیں ۔ریکوڈک کے منصوبے پر کام کے آغاز کے بعد جب یہاں سے سونے اور دیگر قدرتی دھاتوں کے ذخائر نکلیں گے تو دنیا کے دوسرے ملکوں میں ان منصوبوں پر کام کرنے والی کمپنیوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچے گی اور عالمی مارکیٹ میں سونے اور دیگر دھاتوں کی قیمتوں میں کمی قدرتی بات ہے۔ عشرے گذرنے کے باوجود اب تک ریکوڈک کا منصوبہ معاہدوں اور باتوں پر چلا آرہا ہے۔
بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں ریکوڈک جیسے منصوبے پر کام شروع ہو جاتا تو کم ازکم وہاں کے غریب عوام کے لیے روزگار کے مواقع نکل آتے۔جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں سندھک کو چین کے حوالے کرکے کم ازکم گوادر کی بندرگاہ تو تعمیر کرالی۔ افسوس تو اس پر ہے جمہوری دور میں بلوچستان جیسے صوبے کو ترقی سے کیوں محروم رکھا گیا؟سیاست دان جمہوریت کی بات کرتے نہیں تھکتے۔فوجی ادوار اور جمہوری دور کا موازنہ کریں تو بلوچستان میں سب سے زیادہ ترقی فوجی دور میں ہوئی۔نواز شریف اور عمران خان نے اپنے اپنے دور میں صوبے میں کئی منصوبوں کا اعلان کیا اس کے برعکس عملی طور پر وہاں کوئی کام نہیں ہوا۔ایک اہم بات یہ ہے بلوچستان کے بڑے بڑے سردار اورجاگیردار اسمبلیوں میں صوبے کے عوام کے حقوق کی بات ضرور کرتے ہیں۔ہم کسی ایک کا نام تو نہیں لیں گے وفاق کی طرف سے ملنے والے ترقیاتی فنڈز کہاں خرچ کئے جاتے ہیں۔ایک سابق وفاقی وزیر کے مطابق بلوچستان کے بعض سیاست دانوں کے پاس دبئی میں ایسی ایسی قیمتی گاڑیاں ہیں جو وہاں کے شیخوں کے پاس نہیں ہیں۔ جمہوری حکومتوں کو صوبوں میں دیئے جانے والے ترقیاتی فنڈز کے استعمال کا علم ہونا چاہیے تاکہ حقیقت واضح ہو سکے عوام کے نمائندوں نے ترقیاتی فنڈز صیح معنوں میں عوام کے فلاح وبہبو د پر خرچ کئے یا پھر بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنا لیں۔ سیاست دان بہت سے معاملات میں آئین کی بات کرتے ہیں تو صوبوں کو جو حقوق آئین نے دیئے ہیں انہیں دینے میں لیت و لعل کیوں کیا جاتا ہے؟بلوچستان جیسا پسماندہ صوبہ پہلے ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ایسے میں تو وہاں کے رہنے والوں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دینی چاہیں تاکہ وہ کسی دوسرے کا آلہ کار نہ بنیںلہٰذاریکوڈک کے معاملے میں حکومت کو آئین کے مطابق فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے تاکہ صوبے کے غریب عوام کی محرومیاں دور ہو سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button