Ali HassanColumn

پانی سر سے اونچا ہو نے کا انتظار کیوں ؟ .. علی حسن

علی حسن

 

کیا موجودہ معاشی حالات میں انتخابات ناگزیر ہیں یا کچھ اور ہونا چاہیے۔ کچھ اور جو کچھ بھی ہوگا وہ سوائے نگران حکومت، یقیناً آئین سے ماوراء ہوگا۔پاکستان کی معیشت اس وقت کسی بھی قسم کا اچھا یا برا خرچہ برداشت کر نے کے قابل ہی نہیں ہے۔ عمران خان حکومت کی جگہ موجودہ حکومت کرنے والے سیاست دانوں کا تعلق پی ڈی ایم سے ہے لیکن یہ حیران کن امر ہے کہ صرف تین رہنمائوں نے ہی فیصلہ کیا کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ پی ڈی ایم کی ساری قیادت کا اجلاس بلاکر فیصلہ کیا جائے کہ اس وقت ملک کے لیے کیا قدم بہترین ہو سکتا ہے۔ حکومت کو مدت کیوں پوری کرنی چا ہیے ۔ حکومت کو کیوں نہیں دست بردار ہو کر کسی اور انتظام کی سفارش کیوں نہیں کرنا چاہیے۔ عمران خان بھی نئے انتخابات کو مطالبہ کر رہے ہیں، ان سے کوئی پوچھے تو سہی کہ نئے انتخابات کے بعد ملک کی معیشت میں مثبت تبدیلی کے کیا امکانات ہیں۔انتخابات اور اس کے بعد لمبی چوڑی کابینہ کیوں کر جوڑی جائے۔ ملک کے انتظامی اخراجات میں جس پیمانے اور طریقہ سے کمی ہو سکے وہ کی جا نی چاہیے ۔ کیا ضرورت ہے کہ وفاقی اور صوبائی وزراء کی لمبی قطار ہو اور ان کے شاہانہ اخراجات برداشت کئے جارہے ہیں۔ مجوزہ نگران حکومت کے قیام پر آئی ایم ایف کو بھی اعتراض نہیں ہے لیکن انتخابات کی بجائے کیوں نہیں اس وقت ماہرین کی بہت ہی مختصر کابینہ بنا کر ملک کا انتظام چلا نے کا فیصلہ کیا جائے۔ اس بارے میں پاکستان کی سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس صاحبان سے بھی مشاورت کی جا سکتی ہے۔ اس کی مدت مقرر ہو۔ یہ مدت کم سے کم پانچ سال ہونا چاہیے کیوں کہ معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے اتنی مدت تو درکار ہو گی جس میں سنبھالا حاصل ہو سکے۔ سیاسی رہنمائوں سمیت کوئی بھی قابل عمل تجویز پیش نہیں کر پا ر ہا ہے کہ معیشت کو کس طرح سہارا دیا جائے۔ دولت مند سیاست دان ہوں یا متمول کاروباری حضرات ہوں، دیکھا جائے تو تماش بینی کر رہے ہیں۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے ، نزاع لفظی کا وقت ختم ہو رہا ہے ۔
اطلاعات کے مطابق تاجربرادری نے موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے ذریعے معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے بڑی توقعات کو مسترد کردیا ہے۔ تاجربرادری موجودہ معاشی بحران کے خاتمے کے لیے مسلم لیگ نون کی حکومت نا امید ہوگئی ہے۔ کراچی میں فیڈریشن ہاؤس میں تاجروں اور ان کی انجمنوں کا ہونے والے اجلاس میں اہم کاروباری شخصیات، صنعتکاروں، تاجروں اور متعلقہ ایسوسی ایشنز کے عہدیداران نے شرکت کی۔ اجلاس میں اتحادی حکومت میں قومی معیشت کو مستحکم کرنے اور کاروبار کے لیے سازگارماحول پیدا کرنے کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے اعتماد حاصل کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔اجلاس میں سندھ تاجراتحاد کے چیئرمین جمیل پراچہ کی قیادت میں تاجروں کے ایک دھڑے نے اس کی تکمیل سے پہلے ہی اجلاس چھوڑ اپنی ایک الگ اجلاس منعقد کیا۔جس میں کمرشل صارفین کے لیے بجلی کے بلوں پر حال ہی میں عائد کیے گئے سیلز ٹیکس کے معاملات بھی زیر غور آئے۔تاجروں نے بھاری سیلز ٹیکس کے نفاذ کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ حکومت کو فیصلہ واپس لینے کے لیے تین دن کا الٹی میٹم دیا ہے بصورت دیگر کاروبار بند کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ کہا جاتا ہے کہ فیڈریشن ہاؤس کا اجلاس بے نتیجہ رہا کیونکہ اس کے مکمل ہونے کے بعد کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ مسلم لیگ نون کی حکومت تاجر برادری سے مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ بزنس کمیونٹی نے آنے والے دنوں میں معاشی بحران کے خاتمے کیلئے موجودہ حکومت سے بڑی توقعات رکھنے کو واضح طور پر مسترد کر دیا۔ صرف تاجر برادری ہی نہیں ملک کا ہر حلقہ اور طبقہ موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس نے تمام حلقوں کو فکر و تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
ایک ماہر معاشیات مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ بینکوں میں ڈالر ختم ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ریٹ 225 سے اوپر جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ڈالر 225 سے نیچے نہیں آئے گا بلکہ اوپر جائے گا، درآمدات کو بند کیا تو بینکوں میں ڈالر ختم ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن نہ کروائے جائیں، اس لیے انہوں نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے ، 18 دنوں میں برآمدات کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے۔بینکوں میں ڈالر نہیں ہیں، حکومت نے غلط اعداد و شمار دیے ہیں، الیکشن کے چکر میں ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے ۔ ویسے بھی بنک ایل سی 242 روپے کے حساب سے کم پر کھول ہی نہیں رہے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے سری لنکا کے بعد پاکستانی معیشت کو بدترین قرار دے دیا ہے ۔ بینک کی آؤٹ لک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں توانائی اور خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ بھی مہنگائی کی وجہ ہے۔ایشیائی ملکوں میں سری لنکا کے بعد پاکستان کی معیشت کی بدترین کارکردگی ہے ۔ مہنگائی اور شرح سود بلند، معاشی ترقی کی رفتار بڑھی تو
کچھ افاقہ ہوسکتا ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک کا جنوری سے جون 2022 تک آؤٹ لک رواں سال کے لیے پہلے 6 ماہ کے معاشی اعداد و شمار پر رپورٹ جاری کی ہے۔ جس کے مطابق مہنگائی اور عالمی معاشی حالات ایشیائی ملکوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ایشیائی ملکوں میں سب سے خراب حال معیشت سری لنکا اور پھر پاکستان کی ہے۔ جنوری 2022 سے جون 2022 تک گزشتہ 6 ماہ میں پاکستان میں مہنگائی 12.3 سے بڑھ 21.3 فیصد ہوگئی ہے۔ جبکہ سری لنکا میں مہنگائی 14 سے بڑھ کر 45.3فیصد ہوگئی ہے۔شرح سود کے حوالے سے بنک کے مطابق بھی پاکستان میں صورت حال بہتر نہیں۔ گزشتہ 6 ماہ میں پاکستان میں شرح سود 5.25 فیصد بڑھی ہے جبکہ سری لنکا میں شرح منافع 9.5 فیصد بڑھا۔
اسٹیٹ بینک حکام کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک معاشی صورت حال کو مسلسل مانیٹر کر رہا ہے، روپے کی قدر مستحکم رکھنے کیلئے اقدامات کررہے ہیں، روپے کی قدر کے لیے پے در پے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پاکستان کبھی ڈیفالٹ نہیں کرے گا، کیونکہ آئی ایم ایف اور امدادی ممالک ساتھ ہیں۔اسٹیٹ بینک کے حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت اب بہت سنبھل چکی ہے، پاکستان کے حالات سری لنکا اور گھانا سے بالکل مختلف ہیں، پاکستان میں غیر ضروری درآمدات میں کمی کی گئی ہے، تمام مشکل فیصلے کرلیے ہیں، اب مشکل حالات نہیں۔ مرکزی بینک کے حکام نے امید ظاہر کہ آئند چند دنوں میں دوست ملکوں سے مالیاتی تعاون سامنے آجاتے ہی صورت حال بہت بہتر ہو جائے گی۔ اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں، آئی ایم ایف کے بغیر اگلا ایک سال بہت مشکل ہوگا۔حکام اسٹیٹ بینک کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام میں رہیں گے تو بیرونی فنانسنگ کا مسئلہ نہیں ہوگا، حکومت نے تمام مشکل فیصلے کر لیے ہیں، ایکسچینج ریٹ پکڑ کر رکھیں گے تو زرمبادلہ ذخائر مزید گر جائیں گے۔حکام کے مطابق اسٹیٹ بینک ہاتھ باندھ کر مزے سے نہیں بیٹھا ہوا ہے بلکہ ضرورت کے وقت مداخلت کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ ایگزیکٹو بورڈ سے معائدے کی جلد منظوری لی جائے، آئی ایم ایف نے 15 اگست کے بعد بورڈ سے قسط کی فوری منظوری کا یقین دلایا ہے۔ کس نے دیکھا کہ 15 اگست تک پانی سر سے کتنا اونچا ہو جائے گا ؟ ذرائع کا کہنا ہے کہ بورڈ کا اجلاس اگست کے آخری ہفتے میں متوقع ہے ۔ آئی ایم ایف حکام کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کو قرض پروگرام کی بحالی کیلئے پیشگی شرائط پر مکمل عملدرآمد کرنا ہوگا۔پاکستان پیشگی شرائط پر عمل درآمد میں تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا، ان شرائط پر عمل درآمد کے بعد ہی آئی ایم ایف کا بورڈ معاہدے کی منظوری دے گا۔پیشگی شرائط میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا ازخود تعین ہونا شامل ہے اور وعدے کے مطابق پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی وصول کرنے کی شرط پر عمل ضروری ہے۔نیپرا کے فیصلوں پر فوری عمل درآمد سٹاف لیول معاہدے کا حصہ ہے، نیپرا کی جانب سے فیول ایڈجسٹمنٹ کے فیصلے پر بلاتاخیر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ انتظامی معاملات میں بہتری کے لیے نیب سمیت احتساب کے اداروں کا جائزہ لینا ضروری ہے، صوبائی اینٹی کرپشن کے محکموں کو بھی مزید مؤثر بنانا ہوگا۔ذرائع کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان میں کسی بھی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کردی ہے اور اسے پاکستان میں مجوزہ نگران حکومت سے مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button