ColumnNasir Naqvi

آرٹیکل 6 ہتھیار نہیں ۔۔ ناصر نقوی

ناصرنقوی

حقیقت تو یہی ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی، ویسے بھی جمہوریت گنتی کا کھیل ہے اس میں ایک فرد ایک ووٹ کا فلسفہ ہی کارگر ہوتا ہے۔ نائی، موچی، کمی، دانشور، سیاستدان، جج، جرنیل اور جرنلسٹ سب کی اوقات ووٹر کی حیثیت سے ایک ہی ہوتی ہے۔ دھونس دھاندلی کے بغیر آئین اور قانون نہ چودھری اور نمبردار کو ایک ووٹ سے تجاوز کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی کسی جاہل، اَن پڑھ، غریب کو ووٹ کے حق سے محروم کرتا ہے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ جمہوری گنتی کا کارنامہ سب نے دیکھا کہ اکثریت کے دعویدار جونہی اپنے پرائے کی ناراضگی کی زد میں آئے تو ریاست مدینہ اور نیا پاکستان بنانے کے خواہش مند دھڑم سے زمین پر آ گرے۔ یہ بھی دیکھا گیا بلکہ شور وغوغا برپا کیا گیا کہ پاکستان کی قسمت بدلنے والی تھی امریکہ بہادر نے سازش کر کے اپوزیشن جماعتوں کی سہولت کاری سے صادق و امین کے سند یافتہ وزیراعظم سے اقتدار چھین لیا صرف اس لیے کہ پاکستان ترقی نہ کر جائے؟

غیر معمولی انداز میں رجیم چینج کا واویلا بھی مچایا گیا لیکن سیاست نے سابق حکمرانوں کو اناڑی جانتے ہوئے تختہ اقتدار سے نہ صرف اتار دیا بلکہ بات ’’اوئے توئے‘‘ تک پہنچ گئی۔ پوری قوم گواہ ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی نے مشکل وقت میں جان کیسے چھڑائی اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے آرٹیکل 5کا طلسم چلانے کی کیسی حکمت عملی سے پاکستانی پارلیمانی تاریخ میں کیسی منفرد ہنگامہ آرائی پیدا کی، نتیجہ خیز بنانے کے لیے وزیراعظم خان عمران خان نیازی نے صدر پاکستان سے اسمبلیاں توڑنے کی درخواست کی اور اسمبلیاں توڑ بھی دی گئیں، پھر قومی ادارے حرکت میں آئے اور معاملہ الٹ پلٹ ہو گیا۔ سیاست تبدیل ہوگئی۔

مخالفین اپنی اکثریتی گنتی ثابت کرکے عددی شکست دے کر حکومت میں آگئے اور صادق و امین، سچے اصول پرست یوں نکالے گئے کہ قائد ایوان عمران خان کی پارلیمنٹ میں آنے کی ہمت ہی نہ رہی۔ زخمی ٹائیگر کی جنگل کے بادشاہ شیرکے سامنے ایک نہ چلی، صرف لفظی جنگ نے زور پکڑا، کھلاڑیوں نے ایمپائرز پر بھی عدم اعتماد کر دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ اپنا مقدمہ عوام میں لڑیں گے کیونکہ حقیقی فیصلہ وہی کریں گے کہ آزادی یا غلامی۔ جلسے، جلوس، احتجاج کے بعد لانگ مارچ کر کے اسلام آباد پر لشکر کشی بھی ہوئی لیکن نہ حالات نے ساتھ دیا اور نہ ہی کھلاڑیوںکے اتحاد نے ، لہٰذا بات بنتے بنتے نہیں بن سکی کیونکہ پڑھے لکھے شکل سے جلاد نظر آنے والے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا راجپوت جاگ گیا اور وہ قہر بن کے ٹوٹ پڑے۔ لاہوری اپنے شہر میں ہی مسافروں کی طرح اسلام آباد جانے کا راستہ ڈھونڈتے رہے۔

سابق صوبائی وزیر صحت اپنی صحت کی خرابی کے باوجود پولیس سے ہاتھا پائی کر کے آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے گاڑی کا شیشہ بھی تڑوا بیٹھیں۔ راولپنڈی سے بہادر شیخ رشید بھی چند میل کے فاصلے میں پھنس گئے اور وزیر باتدبیر فواد چودھری زیادہ سمجھدار نکلے وہ جہلم سے نکلتے ہوئے محفوظ راستے کی تلاش میں میرپور آزاد کشمیر پہنچ گئے۔ یہی صورت حال پورے پاکستان کے باوفا کھلاڑیوں کی رہی لیکن عمران خان کے بے شمار جانثار اسلحہ لے کر قائد کے پاس جانے میں کامیاب ہو گئے جس پر کپتان نے فائول پلے سے بچنے کے لیے لانگ مارچ فلم کے ٹریلر سے ہی گزارا کرتے ہوئے فلم پھر کبھی مناسب وقت پر ریلیز کرنے کا وعدہ کر کے جان بچا لی۔ صرف اپنی ہی نہیں دوسروں کی بھی، اسے کہتے ہیں دور اندیشی ورنہ اسلام آباد کی شاہراہیں رنگین ہو جاتیں۔

اس کہانی سنانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں سب کچھ کھول کر رکھ دیا ہے۔ا ب ہر پاکستانی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہماری پارلیمانی تاریخ کو کیسے الجھایا گیا۔ ایسا کرنے والے کیا چاہتے تھے اور سب سے بڑا سوال رات کو عدالتیں کیوں کھولیں گئیں؟ کا جواب بھی مل گیا۔ پھر بھی ایک نئی بحث نے جنم لے لیا کہ جن شخصیات نے آئین قانون اور پارلیمانی روایات کی دھجیاں اڑا کر من مانی کرنے کی کوشش کی ، کیا اُن پر آرٹیکل 6لگ سکتا ہے کہ نہیں۔ ان میں صدر مملکت عارف علوی ، سابق وزیراعظم عمران خان اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سرفہرست ہیں، سینیٹ میں سینیٹر افنان اللہ نے صدر کے مواخذے کی قرار داد بھی جمع کرا دی ہے۔ حکومت اور ان کے اتحادی اس تفصیلی فیصلے پر بہت خوش ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ آرٹیکل 6کے اطلاق کے لیے کمیشن بنایا جائے جبکہ چند کا مشورہ ہے کہ صدر عارف علوی کسی جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے از خود استعفیٰ دے دیں۔موجودہ کابینہ بھی سوچ رہی ہے کہ فیصلے کی روشنی میں قانونی کارروائی کے لیے مشاورت سے حکمت عملی بنائی جائے جبکہ رانا صاحب کا کہنا ہے کہ کابینہ فیصلہ کرے اور میں عمران خان کی گرفتاری کا بندوبست کروں تاکہ انہیں پتا چلے اقتدار اور قید میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ عوامی اجتماع میں بڑھکیں مارنا کوئی کام نہیں، اصل تو ثابت قدمی سے قید برداشت کرنا ہوتا ہے۔

اقتدار کے مزے کپتان اور کھلاڑیوں نے لوٹ لیے لیکن حقیقی امتحان تو اب شروع ہوا ہے، جنہیں خان اعظم چور ڈاکو کہتے تھے اب ان کا بیان ہے کہ اصل لٹیرے تو اناڑی کھلاڑی تھے۔ سرکاری کھاتوں کی جانچ پڑتال، چھان پھٹک جاری ہے۔ فارن کرنسی اکائونٹ، توشہ خانہ تو کچھ بھی نہیں، معاملہ اس قدرگمبھیرہے کہ بات چلے گی تو بہت دور تک جائے گی۔ فرح گوگی، بشریٰ بی بی اور عثمان بزدار کے علاوہ بھی بڑے بڑے سورما احتساب کی چکی میںپس سکتے ہیں جہاں گیہوں کے ساتھ گھن یعنی اتحادی بھی ہوں گے۔

کابینہ نے اگر ہمت کر کے منظوری دے دی تو ایک کے ساتھ دوچار نہیں، بہت سی گرفتاریاں ہوں گی اب دیکھنا یہ ہے کہ غدار غدار، آئین شکن کا نعرہ لگانے والے آرٹیکل 6کی زد میں آئیں گے تو کون لوگ مصلحت پسندی کا مظاہرہ کر کے انہیں بچانے کی کوشش کریں گے کیونکہ بُرے وقت میں ڈیوٹی فل لوگ تو موقع ملتے ہی پتلی گلی سے نکل لیں گے۔ کون دلیر ہے اور کون بہادر، اس کا فیصلہ تو ثابت قدمی کرے گی کیونکہ اقتدار بظاہر پھولوں کی سیج نظر آنے کے باوجود حقیقت میں کانٹوں کی مالا ہی ہے۔

کپتان چونکہ زخمی ٹائیگر ہیں انہیں ابھی تک کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ ان کے ساتھ ہو ا کیا؟ جس طرح لاڈے میاں کو پس پردہ آہنی ہاتھوں نے تبدیلی کے نام پر کرسی پر بٹھایا تھا اس سے خوش فہمی یہ ہوگئی تھی کہ مضبوط ہاتھ پہلے انہیں بہت کچھ سیکھنے دیں گے۔ پانچ سال اپنے منصوبے کی حفاظت کریں گے پھر پانچ سال کھل کر کھیلنے کا چانس فراہم کریں گے اور اگلے پانچ سال میں ایسی فتوحات کریں گے کہ دنیا دنگ رہ جائے گی۔ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ کو بھی یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ کل کس نے دیکھی؟ حالانکہ ایچی سن کالج لاہور نے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ آج کا کام کل پر نہیں چھوڑنالیکن سیکھتا تو جب لاڈلا انا اور ضد سے نجات پاتا۔ دراصل سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والوں کا یہ نقص اکثر رہ جاتا ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک نئی ہلچل مچا دی ہے۔ ڈرے اور سہمے سبھی ہیں ڈیوٹی فل شیخ رشید نے کہہ دیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے نہیں لڑنا چاہیے۔ سابق وزیر باتدبیر فواد چودھری فرما رہے ہیں کہ اگر آرٹیکل 6لگایا گیا تو رسے کم اور گردنیں زیادہ ہو جائیں گی۔ خاندانی سیاستدان ہونے کے علاوہ حضرت نے وکالت بھی خالد رانجھا کے زیر سایہ کی اور وزیر قانون بھی رہے۔ اس لیے آئین اور قانون کے اسرار و رموز ان سے بہتر کون جانتا ہے۔

یقیناً انہیں آرٹیکل 6کی چھریاں اور پھندا دکھائی دے رہا ہو گا۔ مریم نواز کا کہنا ہے سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے پر عمران اور حواریوں پر آرٹیکل 6لگنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کہتے ہیں آئین کو تماشا بنانے والوں پر آرٹیکل 6ضرور لگے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عدالتوں کو دھمکیوں کا نوٹس بھی لینا ہو گا۔ ویسے بھی آئین سے وفاداری کا حلف اٹھانے والی اعلیٰ شخصیات نے آئین شکنی کی، لہٰذا صدر ہوں کہ سابق وزیراعظم یا سابق وزیر قانون و ڈپٹی سپیکر گرفت میں تو آئیں گے، حکومتی حلقوں میں ایڈونچر کی امید پر خوشی کا سماں ہے۔ اپوزیشن قدرے پریشان اور رنجیدہ ہے لیکن سینئر قانون دان اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما چودھری اعتزاز احسن کی یہ گفتگو انتہائی اہم ہے کہ آرٹیکل 6کوئی ایسا ہتھیار نہیں کہ ہر کسی پر چلا دیا جائے۔ یہ صرف ڈکٹیٹر شپ پر اس لیے لگتا ہے کہ وہ آئین توڑتے ہیں اسے بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ موجودہ حالات میں آئین توڑانہیں گیا بلکہ تمام اہم شخصیات نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کی بھی درست تشریح نہیں کی جا رہی، جہاں تک آئین کی خلاف ورزی کی بات ہے تو وہ روزانہ کی بنیاد پر اس حد تک بھی ہوتی ہے کہ عدالتیں غلط فیصلے کر دیتی ہیں۔

یقیناً اعتزاز احسن کی وضاحت سے اپوزیشن اور سابق حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا ہوگا کہ آرٹیکل 6، ہتھیار نہیں کہ اس کا بے دریغ اور فوری استعمال ممکن ہو سکے۔ ابھی معاملہ آگے بلکہ اور آگے بھی چلے گا، فیصلے کی وضاحت نہیں، وضاحتیں مستقبل کے لیے مصلحت پسندی کے نئے در کھولیں گی، اس لیے نہ حکومتی ذمہ داروں کو جشن منانے کی ضرورت ہے، نہ ہی عمران خان اور ان کے حواریوں کو پریشان ہونے کی، ابھی سیاست اور عدالت کے امتحاں اور بھی ہیں کیونکہ اب آرٹیکل 6، ہتھیار نہیں، نہ ہی یہ کوئی بارودی سرنگ ہے کہ اس کے پھٹنے سے سیاسی جانیں ضائع ہو جائیں گی یعنی ابھی فائنل رائونڈ کی جانب جاتے ہوئے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، فائنل رائونڈ ہرگز نہیں، پارٹی ایک دلچسپ مرحلے میں پہنچ گئی ہے جہاں دونوں جانب کے قانونی ماہرین سر جوڑ کر کوئی انوکھی منطق بھی نکال سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button