ColumnQadir Khan

گھر کے چراغ سے خانہ سوزی ۔۔ قادر خان یوسف زئی

قادر خان یوسف زئی

نسل پرست کا خطرہ ہر مقام پر محسوس ہی نہیں کیا جاتا بلکہ آنکھوں کے سامنے کھڑا ہے ، لیکن حیرت اس امر پر ہوتی ہے کہ تمام تحفظات و خدشات کے باوجود وطن عزیز میں نام نہاد قوم پرستی اور نسل پرستی کا اتنا بڑا خطرہ کئی دہائیوں سے منڈلا رہا ہے لیکن سب کچھ دیکھنے کے باوجود قانون کی حکمرانی کوبیدار ی پیدا نہیں کررہا ۔ اگر ہم بھی ان تمام نسلی دھماکوں کے باوجود بیدار نہیں ہونا چاہتے تو ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگاکہ محض مقدس آزروئیں زندگی کی ضامن نہیں ہوسکتیں ۔ مقصد امن کی تلاش ہے تو ہمیں اس نفرت انگیز مہم کو رد کرنا ہوگا ، جو بلدیاتی انتخابات سے قبل ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سندھ میں بھڑکائی گئی اور پھر اس کے شعلے بلوچستان تک پہنچے۔ سندھ کا شہر کراچی کئی دہائیوں تک نسل پرستی اور لسانی تعصب کی آگ میں جلتا رہا ، انسانی زندگیوں کو بے مول موتی کی طرح کھویا جاتا رہا ہے ۔ انسانیت کا کوئی پرسان حال نہ تھا ، اس کے مضر اثرات سے آج تک اہل کراچی باہر نہیں نکل سکے ، سندھ کے دیگر شہروں میں جب بھی لسانیت اور تعصب کی نفرت کا لائوا بھڑکایا جاتا تو اس کی تپش صرف کراچی میں محسوس ہی نہیں کی جاتی ، بلکہ جھلسا دینے والی آگ سے بے گناہوں کی چتا جلائی جاتی۔

عام حالات میں نسلی اور لسانی تعصب و نفرت کو کم کرنے کی کوشش بھی کام کرجاتی ہے لیکن سیاسی درجہ حرارت کو گرم کرنے کے لیے جن حالات کو ابھارا جاتا ہے ان کے لیے انتہائی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور ارباب ِ اقتدار کی جانب سے سست روی یا جانب دارنہ مصلحت کے تحت مجرمانہ خاموشی ،تقاضا کرتا ہے کہ ذرا سوچیں اورگریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ انہوں نے کس حد تک اپنے فرائض کی تکمیل کی۔ ارباب ِ اختیار کو یاد رکھنا چاہیے کہ امن و سلامتی کا قیام اور نسل پرستی اور لسانیت کے منفی رجحانات کو روکنا درحقیقت خود آپ کے اپنے لیے ہوتا ہے ، اس لیے کہ سیلاب کو روکنے کے لیے گائوں کے باہر بند بنانے والا گائوں ہی کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ خود اپنی حفاظت بھی کرتا ہے ، اس لیے کہ جب طوفان امنڈتا ہے تو وہ مکانوں کے سائن بورڈ دیکھ کر اندر داخل نہیں ہوتا ۔

سیلاب نہ پُرسد کہ در خانہ کدام است
اس کی رو میں میر کا قصر مزین بھی اسی سبک سیری سے بہہ جاتا ہے ، جس طرح ایک فقیر کی جھونپڑی۔ اللہ تعالی کسی ملک کو حوادث کی آجامگاہ نہ بنائے ، اُس وقت کی کیفیت کا تصور بھی لرزہ انگیز ہے۔حوادث کا ایک بڑی حد تک صرف وہی قومیں مقابلہ کرسکتی ہیں ،

جن میں اتحادو یکانگت ہو ، باہمی ربط و ضبط ہو اور اطاعت کا جذبہ ہو۔قربانی کی روح اور دوسروں کی خاطر سینہ سپر ہوجانے کی ہمت ہو ، ہر چند کہ من الحیث القوم ان خصوصیات کی ضرورت پہلے بھی کچھ کم نہ تھی ، لیکن اب تو وہ وقت آچکا ہے کہ اس میں ذرا سی غفلت افسوسناک عواقب پر منتج ہوجائے گی ، ہم اس نفرت کے آگ کو ختم کرنے کے لیے صحیح سوچ اور صحیح راہ ِ عمل تجویز کرسکتے ہیں۔ ضرور ت یہ ہے کہ عدم برداشت کے اس ماحول کو ختم کرنے کے لیے ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں اور قانون کو اپنا راستہ بنانے دیں ، جب تک غیر جانب دارانہ ، شفاف اور سستا عدل میسر نہ ہوگا تو اسی طرح ہجومی تشدد میں گناہ گار اور بے گناہ دونوں جانوں سے ہاتھ دھوتے رہیں گے ۔ جرم کرنے والا کوئی مجرم ہو یا ملزم ہو ، کسی بھی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کی جان اپنی خود ساختہ عدالت لگا کر لے لے۔ یہ انتہائی قابل مذمت عمل ہے ، اسی طرح ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے کسی بھی شہری کا ملک کے کسی بھی حصے میں روزگار یا رہائش اختیار کرنے سے روکنے کا حق کسی فرد ، تنظیم یا گروہ کو حاصل نہیں۔
گذشتہ دنوں جو کچھ ہوا وہ ایک افسوس ناک عمل ہے۔ اس کی حمایت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے بعد ردعمل میں جو کچھ ہوا تو سمجھنے میں دقت نہیں ہوئی کہ یوں تو فرشتوں کی معصوم نگاہوں نے خون کے چھینٹے اور آگ کی چنگاریاں ، آدم کے خمیر میں ہی بھانپ لی تھیں لیکن اس آگ اور نفرت کا مظاہرہ جس شدت اور بربریت سے ہوا ، ایسا نظارہ پہلے کئی بار دیکھا جا چکا ہے ۔

کبھی کبھار لگتا ہے کہ ذہن انسانی نے ’ نادر ‘ کی یاد بطور ایک ظالم اور سفاک کے قائم کی لیکن ہلاکو اور چنگیز کے سیلاب ِ فنا کے پس منظر میں دراصل نفرت کا دریا تھا جس نے بربادی کے ان خونچکاں مناظر کی یاد کو تازہ کردیا ۔ دنیا کا کونسا گوشہ ہے جو نسل پرستی اور لسانی عصبت کی وجہ سے خون آدم سے لالہ زار نہیں ، کونسا خطہ ہے جو نسلی جہنم کی اس آگ کی لپیٹ میں نہیں آیا ؟ کونسی بستی ہے جو عالمگیر سطح کی نفرت کے دھماکوں سے محفوظ ہے ، کچھ راکھ کا ڈھیر ہو کر رہ گئیں ، کچھ گرتی چلی جار ہی ہیں ، جو اب تک بظاہر محفوظ ہیں ، انہیں بھی اس پیکر اجل سیل ِ آتش کا ہر وقت دھڑکا لگاہوا ہے۔

بہت آگے گئے ۔ باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نسل پرستی اور لسانی تعصب میں الجھے انسان کی بے بسی کی اس سے بڑھ کر عبرت انگیز مثال اور کیا ہوگی کہ جس شاخ پر بیٹھا ہے ، اسے اپنے ہاتھوں سے کاٹ رہا ہے ، فاطمہ جناح کے الیکشن ہوں یا بشریٰ زیدی کا اتفاقی حادثہ ، پکا قلعہ ہو یا قصبہ علی گڑھ ، کالی پہاڑی ہو یا کٹی پہاڑی ، لیاری ہو لیاقت آباد ،عز یز آباد، سہراب گوٹھ اور بارہ مئی ، سٹی کورٹ جیسے سانحات ہمیں کیا سبق دیتے ہیں۔

یہی کہ نسل پرستی اورلسانیت کی اس آگ سے مفاد پرستوں نے اپنے فروعی مفادات کو حاصل کیا اور اپنی سیاست کو چمکایا ۔ اس کی قیمت بے گناہ انسانوں کو ادا کرنی پڑی جنہوں نے اپنی جان بھی کھوئی ،پیاروں کو بھی اور مستقل روزگار و رہائش کو بھی ۔ اتنا کچھ دیکھنے کے بعد بھی یہ کون سی مجبوری ہے کہ کمزور شاخ پر کہلاڑی برابر چلائے جا رہا ہے۔یا یہ آگ قوموں کی جنگ نہیں، ملکوں کی جنگ نہیں ، بلکہ معاشی نظاموں کی جنگ ہے۔ باہمی مناقشت و مسابقت یہ وہ فتیلہ ہے جو ان آتش بازوں کی دکانوں پر گرے گا ۔ گھر کے چراغ سے خانہ سوزی کی عبرت ناک مثال بننے سے بچنا ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button