ColumnQaisar Abbas

چیف کورٹ گلگت میں چند روز ۔۔ قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

ہمیشہ سے پاکستان کے شمال کی کہانیاں لکھیں اور کچھ اس طور تحریر کیں کہ کتابوں میں شائع ہوئیں تو سند ہوتی گئیں۔ شمال کے لوگوں کی امن پسندی اور شائستگی میرے ہر سفر نامے کا سرنامہ ہوئی۔ اب کی بار کسی وادئ پرکیف کے بجائے گلگت شہر میں قیام رہا اور توقع سے زیادہ رہا۔ کچھ ادبی سیمینار قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں منعقد ہوئے مگر یہ کہانی الگ نشست کی متقاضی ہے۔

چیف جسٹس علی بیگ صاحب وادئ یسین کی مٹی سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر وہ شائستگی ان میں نظر بھی آئی۔ صاحب علم ہیں اور مطالعہ ان کی گفتگو سے سامع کو زنجیر پا کر دیتا ہے۔ ان کے چیمبر کی کھڑکی دریائے غذر اور چنار باغ کی جانب کھلتی تھی مگر میں ان کی گفتگو کے حصار سے باہر آتا تو ادھر جھانکتا ۔ ایک مختصر ملاقات جو طویل ہوتی چلی گئی اور چیف جسٹس صاحب وادئ بروغل اور درہ در کوٹ کی روایات بتاتے رہے ۔ انہوں نے گیلانی لا کالج ملتان کے ہوسٹل میں گزرے شب و روز پھر سے تازہ کئے تو گرمی ان کے رخسار پر اتر آئی۔ حضرت شاہ شمس تبریز اور حضرت شاہ رکن عالم کی علمی خدمات کا ذکر رہا ۔ ادب ، تصوف ، تاریخ اور قانون پر ان کا مطالعہ مجھ ایسے طالب علم کو حیران کرتا گیا۔ پرتکلف ضیافت کے بعد ہم نے اجازت چاہی ۔

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عارف نذیر باگورو مسلم لیگ نون کے وکلا ونگ گلگت بلتستان کے جنرل سیکرٹری ہیں اور ان کی مہمان نوازی مسلسل پانچ روز تک اس لیے شرمندہ کرتی رہی کہ وہ بار کے تنازعات اور مقدمات کی پیروی کے باوجود بہت زیادہ وقت دیتے رہے ۔ ان کی طبیعت میں بار کے مسائل کے حوالے سے تلخی پیدا ہوتی تھی مگر وہ بسین داس کے موسم کی طرح بہت ہنر مندی سے شائستگی کو خود پر طاری رکھنے کا ہنر جانتے تھے ۔ وہاں میں نے دیکھا کہ منشی کا کردار نہیں ہے ۔ کیس لکھوانے سے لے کر دائر کرنے تک اور پیشی نوٹ کرنے تک وکلا خود کرتے ہیں۔ عدالتوں کا کچھ سٹاف من مرضی کا موجی ہے اور کچھ نرم خو ۔ کونسل فار دی سٹیٹ اعجاز کٹور نے محبت اور رواداری ساتھ ساتھ رکھی اور رابطے میں رہے۔

شام کو کھانے پر مدعو کیا اور گلگت میں احتجاج کے سبب سڑکوں کی بندش کے باوجود وہ ملتے رہے۔ گلگت کی عدالتوں میں سرکاری افسران وکلا کے برابر کھڑے ہوکر باغی لہجے میں بات کرتے ہیں اور جج صاحبان بھی انہیں اپنے سر اور آنکھوں پر بٹھاتے ہیں البتہ عام سائلان کے لیے جج صاحبان کا رویہ بالکل حاکمانہ ہوتا ہے۔ فوجداری عدالتیں جگلوٹ اور کوہستان کے ملزمان سے بھری ہیں ۔ ہنزہ ، نگر ، غذر اور گلگت کے لوگ سول معاملات میں عدالتوں کے چکر کاٹتے ہیں،برداشت اور تحمل کی وجہ سے فوجداری دفعات کی زد میں کم کم آتے ہیں ۔ حوالہ جات کے لیے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے تسلیم کئے جاتے ہیں اور قانونی کتب بھی لاہور کے اشاعتی اداروں سے شائع ہو کر گلگت کے قانونی ماہرین کی علمی مدد کرتی ہیں ۔

ہم نے سیشن کورٹ میں دیکھا کہ فیڈرل انویسٹی گیشن اتھارٹی کے سائبر کرائمز ونگ گلگت
کے انسپکٹر نعمان نے جو رویہ اختیار کیا وہ پنجاب پولیس کے کسی چوکی انچارج جیسا تھا ، سراسر غیر قانونی اور آمرانہ ۔

مقدمہ نمبر 8/22 کے مستغیث جو گاہکوچ کے رہائشی تھے اور ملزم کا تعلق پنجاب سے تھا۔ مقدمہ کی دفعات بھی قابل راضی نامہ تھیں۔ملزم اور مدعی کی باہمی رضامندی سے ڈسٹرکٹ بار گلگت کے صدر عارف نذیر صاحب نے راضی نامہ تحریر کرایا اور مستغیث کے دستخط بھی ہو گئے۔یہ سارا عمل دونوں فریقین کے لیے آسانی اور داد رسی لیے ہوئے تھا مگر جب اس بات کا علم تفتیشی انسپکٹر نعمان صاحب کو ہوا تو وہ کسی متعصب اور احساس محرومی کے شکار تھانیدار کی طرح بپھر گیا اور مدعی مقدمہ کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں ۔

ساتھ کھڑے ایک نگر کے دوست نے ان کی ویڈیو بھی بنا ڈالی جب وہ خونخوار آنکھوں سے مستغیث کو صلح کے بیان دینے سے منع کر رہے تھے اور ان کی آنکھیں باہر نکل آئیں تھیں ، یہ رویہ کبھی بھی ایک تعلیم یافتہ افسر اور ہنزہ کے رہائشی نوجوان کا نہیں ہو سکتا ۔ ہمارا خیال تھا کہ ہنزہ کے لوگ وہاں کے موسم جیسے ہیں ۔
صلح کے لیے آیا ہوا مستغیث انسپکٹر نعمان کے ڈر سے بھاگ گیا اور یوں دونوں فریقین عدالتوں کے باہر لٹکتے ترازو کو دیکھتے رہ گئے ۔

علی آباد کے موسم کبھی ایسے نہ تھے کہ وہاں سے تعصب جنم لیتا مگر شاید اس رویے کے پس منظر میں کوئی اور کہانی پنجاب اور گلگت کے تفتیشی افسر سے جڑی ہو جس نے پڑھے لکھے افسر کو حوالدار بنا ڈالا۔ وزارت داخلہ اگر نعمان صاحب کو ڈیرہ غازی خان سرکل میں تعینات کرے تو جنوبی پنجاب پر احسان ہو۔
گلگت کے موسم اور عدالتوں کے مزاج یکساں تھے اور ہم ان کہانیوں کے زندہ کردار تھے۔ کسی بھی شہر کی عدالتیں وہاں کے رسوم و رواج ، عادات ، برداشت اور مزاج کی شہادت ہوتی ہیں کیونکہ مضافات اور قریبی قصبات سے آئے لوگ جو کہانیاں ساتھ لاتے ہیں وہی سچ ہوتی ہیں۔

گلگت میں آنے والے مقدمہ باز بھی مختلف مزاج رکھتے ہیں ۔ غذر کے لوگ خوف زدہ اور نرم خو ہیں۔ یسین کے افراد اپنی طبعیت میں شائستگی رکھتے ہیں ۔ استور کے شہری تلخ اور زبان دراز ثابت ہوئے ہیں۔ جگلوٹ کا مزاج قاتلانہ اور خونخوار ہے اور یہی خاصا وہاں کے باسیوں کی عادات کا غماز ہے۔ ہنزہ کے لوگ صلح جو اور کچھ کچھ من موجی ہیں ، یہی من موج پھر تکبر میں ڈھل جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button