CM RizwanColumn

ایک اور عالمی جنگ کے خدشات؟

سی ایم رضوان

ایسا نہ ہو کہ چین تائیوان پر حملہ کردے۔ اس خطرے سے تحفظ کے لیے امریکہ چین پر گہری نظریں جمائے ہوئے ہے۔ یہ کہنا ہے امریکی فوج کے اعلیٰ عہدیدار جنرل مارک ملے کا۔ چند روز قبل اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ گو کہ تائیوان پر چین کے فوری حملے کا کوئی امکان نہیں مگر امریکہ بہت قریب سے اس صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ جنرل مارک ملے نے کہا کہ چین واضح طور پر حملے کے لیے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے میں مگن ہے جو کسی بھی وقت آگے چل کر تائیوان پر حملہ کر سکتا ہے۔ امریکہ کے مطابق چین کا ایسا کرنے کا فیصلہ سیاسی نوعیت کا ہوگا۔ دوسری طرف چین کا موقف ہے کہ تائیوان چین سے ٹوٹ کر الگ ہونے والا ایک صوبہ ہے، جسے ہر صورت چین سے اتحاد کرنا چاہیے وگرنہ ضرورت پڑنے پر طاقت کے ذریعے بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں چین نے امریکہ پر تائیوان کی آزادی کی حمایت کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے اور ایسی کسی بھی کوشش کو سختی سے کچلنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

اس وقت امریکہ تائیوان کا سب سے طاقتور اتحادی ہے اور حال ہی میں چین کے ساتھ اس کی کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ چین کئی جنگی طیارے تائیوان کے فضائی دفاعی علاقے میں بھیج رہا ہے جبکہ امریکہ نے تائیوان کے پانیوں میں بحری جہاز بھی بھیجے ہیں۔ پچھلے ماہ مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ چین تائیوان کے قریب اپنے جنگی طیارے اڑا کر خطرے سے کھیل رہا ہے۔ تب جو بائیڈن نے بھی اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اگر اس جزیرے پر حملہ ہوا تو وہ اس کی عسکری طور پر بھی حفاظت کریں گے۔ ادھر بیجنگ نے امریکہ پر تائیوان سے متعلق اپنے وعدے کی خلاف ورزی اور چین کے معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے جواب دیا اور کہہ رکھا ہے کہ تائیوان کو باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کرنے سے روکنے کے لیے چین جنگ سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ اس حوالے سے امریکہ نے خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی کارروائیوں کی مذمت بھی کی ہے۔

 

امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملے نے اس سوال پر کہ کیا چین تائیوان پر حملہ کرسکتا ہے، کرنا چاہیے، یا کرے گا؟ کہا کہ یہ اہم الفاظ ہیں۔صلاحیت کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ چین واضح طور پر اس کی تیاری کر رہا ہے، جبکہ چین کے صدر شی نے عوامی فورمز میں اپنی تقاریر میں بھی واشگاف انداز میں اکثر یہ کہا ہے کہ انہوں نے پی ایل اے (چین کی پیپلز لبریشن فوج) کو چیلنج دیا ہے کہ وہ تائیوان پر کسی بھی وقت حملہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرلیں جبکہ امریکی جنرل نے چین سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ چاہے وہ (حملہ) کریں گے یا نہیں،یہ ایک سیاسی انتخاب ہے، یہ ایک پالیسی کا انتخاب ہے، یہ اس پر منحصر ہو گا کہ چین اس معاملے پر اس وقت خطرے اور فائدے کے توازن کو کیسے دیکھتا ہے۔ جنرل مارک ملے نے مزید کہا کہ اس وقت کسی بھی چیز کے بارے میں کوئی اشارہ یا انتباہ نہیں ہے لیکن میں پھر کہوں گا ہم اسے بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ کے تائیوان کے ساتھ کوئی باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن وہ اپنے،
تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے تحت اسے ہتھیار فروخت کرتا ہے، جس کی حمایت میں امریکی حکام کی دلیل اور جواز یہ ہے کہ ‘امریکہ کو جزیرے کو اپنے دفاع کے لیے وسائل ضرور فراہم کرنا ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اس وقت چین کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے اور سفارتی طور پر چین کے ساتھ ایک پرامن پالیسی کی بھی حمایت کرتا ہے جبکہ چین بھی جنگ کو خطرناک سمجھتا ہے۔ امن پسند عالمی تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ ایک بڑا خوف یہ ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو جنگ شروع ہو جائے گی اور یہ خوف اس لیے سر اٹھا رہا ہے کہ بیجنگ ماضی میں کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ طاقت کے ذریعے اس جزیرے کو واپس لے گا لیکن زیادہ تر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الحال ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس بات پر بحث جاری ہے کہ آیا چین اس حملے میں کامیاب ہونے کی فوجی صلاحیت رکھتا ہے اور تائیوان اپنے فضائی اور سمندری دفاع کو کافی حد تک بڑھا رہا ہے لیکن بہت سے مبصر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بیجنگ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ایسا اقدام بہت مہنگا اور تباہ کن ہو گا۔ نہ صرف چین کے لیے، بلکہ دنیا کے لیے بھی۔

چین کا مستقل موقف یہ رہا ہے کہ وہ تائیوان کے ساتھ دوبارہ پرامن اتحاد چاہتا ہے اور یہ کہ وہ صرف اس صورت میں فوجی کارروائی کرے گا جب اسے کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی کا سامنا کرناپڑا۔اس اشتعال انگیزی کا ایک محرک ممکنہ طور پر تائیوان کا باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کرنا بھی ہوگا لیکن یہ وہ چیز ہے جس سے تائیوانی صدر سائی انگ وین نے سختی
سے گریز کیا ہے، تاہم یہ اور بات ہے کہ ان کا اصرار ہے کہ وہ پہلے سے ہی ایک خود مختار ریاست ہیں۔ تائیوان کے اکثریتی عوام بھی اس حیثیت کی حمایت کرتے ہیں، جسے‘سٹیٹس کو‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اگرچہ تیزی سے اب ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جن کا کہنا ہے کہ وہ آزادی کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ بھی ایشیا میں ایک مہنگی فوجی مہم میں شامل ہونے سے بظاہر کترا رہا ہے اور واشنگٹن نے بار بار اشارہ بھی دیا ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار چین اور تائیوان کے تعلقات خراب کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چین اور تائیوان 1940 کی دہائی میں خانہ جنگی کے دوران تقسیم ہو گئے تھے۔ تب سے اس جزیرے کا ایک اپنا آئین، جمہوری طور پر منتخب رہنما ہیں جبکہ اس کی مسلح افواج میں قریباً 300,000فعال فوجی ہیں۔ دنیا کے صرف چند ممالک تائیوان کو تسلیم کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اس کے بجائے بیجنگ میں چینی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں۔ امریکہ کے تائیوان کے ساتھ کوئی باضابطہ تعلقات نہیں ہیں لیکن اس کے پاس ایک قانون ہے جس کے تحت اس جزیرے کو اپنے دفاع کے لیے وسائل فراہم کرنا شامل ہے۔

یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کی وجہ سے بھی پچھلے دو تین ماہ میں چین اور تائیوان کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ اس جنگ کے آغاز کے بعد بیجنگ کے حکام کا کہنا تھا کہ 15 مارچ جمعے کے روز تائی پے میں ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد کے مذاکرات کے لیے پہنچنے کے چند گھنٹے بعد ہی چینی فوج نے تائیوان کے آس پاس اپنی تازہ فوجی مشقیں کی تھیں۔ چین کے ایک سرکاری بیان کے مطابق انہی دنوں چینی فوج نے مشرقی بحیرہ چین میں ایک بحری بیڑے کے ساتھ ہی بمبار اور دیگر جنگی طیارے بھیجے اور تائیوان کے آس پاس سمندر اور فضائی حدود میں کثیر الجہتی ہتھیاروں والی مشترکہ جنگی تیاریوں کے لیے گشت کیا۔ بیجنگ حکومت کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد امریکی حکومت کی جانب سے بار بار کیے جانے والے ’’غلط اشاروں‘‘ کا مقابلہ کرنا تھا۔ تاہم اس بیان میں تائیوان کا دورہ کرنے والے امریکی وفد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ چینی حکومت نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ امریکہ کے برے اقدامات اور اس کی چالیں مکمل طور پر فضول اور بہت ہی خطرناک ہیں۔ جو لوگ آگ سے کھیلتے ہیں وہ خود اسی میں جل جائیں گے۔

تاہم 1949 کی جنگ کے بعد چین اور تائیوان جو کہ الگ ہوگئے تھے، لیکن بیجنگ اس خود مختار جزیرے کی ملکیت پر اپنا دعویٰ کرتا رہتا ہے اور اس کا اپنی سرزمین کے ساتھ انضمام کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے اشتعال انگیز مشقیں بیجنگ کا ایک باقاعدہ حربہ رہی ہیں لیکن گزشتہ دو برسوں سے تائیوان ایسی فوجی سرگرمیوں میں تیزی لانے کی شکایت بھی کرتا رہا ہے، جس میں تائیوان کی فضائی دفاعی حدود میں قریباً روزانہ فضائیہ کی پروازیں شامل ہیں۔ تاہم یہ پروازیں جزیرے کے بہت قریب نہیں ہوتی ہیں۔ چینی جارحیت کے خدشات میں اضافہ کی وجہ سے تائی پے مسلسل ہائی الرٹ پر ہے۔ دوماہ قبل بھی تائیوان کی فوج نے اپنی نئی مشقیں شروع کی تھیں۔ اس میں قریباً 15 ہزار ریزرو فوجیوں نے شدید قسم کی فوجی مشقوں میں حصہ لیا تھا جو رواں برس کے بیشتر حصے میں جاری رہیں گی۔ تائیوانی صدر تسائی انگ وین کا بیان تھا کہ یوکرین پر روسی حملے سے ثابت ہوتا ہے کہ جمہوری ممالک کو اپنے اتحاد کو مضبوط کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہم اجتماعی طور پر ہی ان آمر ممالک کی طرف سے لاحق خطرات سے اپنا دفاع کر سکتے ہیں جو علاقائی امن میں خلل ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں دنیا کو یہ امر مدنظر رکھنا چاہیے کہ تائیوان چائنا تنازع کی صورت میں دنیا ایک بڑے جنگ کے خدشہ سے دوچار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button